Friday 29 November 2013

اپنی تلاش کا سفر


 نامعلوم   سے معلوم کی طرف سفر  ازل سے انسان کی فطرت میں رہا ہے ۔  جستجو ، طلب اور تلاش کایہ سفر رب کائنات کی مقرب ترین ہستیوں  کا سفر رہا ہے ۔۔۔۔تلاش متحرک رکھتی ہے ، حرکت زندگی کا راز ہے ، ۔۔۔۔تلاش انسان کی جبلت ہے ۔۔۔۔یہ اسکا اصل ہے ، اس کا خمیر ہے، اسکی سرشت ہے ۔۔۔ اور جسے ۔۔اور کوئی تلاش نہ ہو  وہ اپنے آپ کو تلاش  کرتا ہے ۔ ۔۔اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔۔اپنی تلاش کا یہ سفر آج بھی جاری ہے ۔۔۔۔تلاش کا یہ سفر اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان  کی اپنی ہستی کا سفر ، ۔۔۔۔۔ قابل داد ہیں وہ لوگ جو اس سفر کا انتخاب کرتے ہیں اور قابل رشک ہیں وہ لوگ جو  اس سفر میں اپنی انگلیوں کو قلم کرکے  اپنی زندگی کو  دھیرے دھیرے  سلو پوائزن کی طرح کسی مقصد کیلئے وار دیتے ہیں ۔۔۔اور جاننے اور پہچاننے کے اس سفر میں شمع کی مانند  دوسروں کو تاریک راہوں میں اجالوں کا پتہ دیتے ہیں ۔ ایسے ہی با مقصد اور  با وفا لوگوں کی ایک  محفل اسلام اآباد کے پر شکوہ  میریٹ ہوٹل میں تھی۔۔۔۔ جاننے اور پہچاننے کیلئے اس شمع کے پروانوں   کو  ملک کے کونے کونے سے  انڈیوجیوئل لینڈ  نے اکٹھا کیا تھا ۔ جنکی دن رات  کی محنتوں نے اس گلشن  میں مہکتی خوشبووں کے ساتھ  اجالوں کے رنگ بکھیرے تھے ۔

اس گلشن میں مہکتے سارے پھولوں کو سجانے کا سہرا ایک ننھی سی نہتی  خاتون  گل مینا  بلال  کے سر ہے ۔ ملک کے چوتھے ستون  کودرپیش مسائل اورانکا حل  ۔۔۔۔اور اس راہ کے مسافروں کو  ٹریننگ  کی شکل میں زاد راہ  دیکر بہترین صلاحیتوں سے  لیس کرنے کا جو بیڑہ انہوں نے اٹھایا ہے۔۔۔۔  یقیناً لائق تحیسن ہی نہین قابل فخر بھی ہے ۔ دو  روز تک   خوشبوئیں بکھیرتی اس محفل میں  جہاں ملک بھر کے صحافیوں  کو درپیش مسائل کا احاطہ کیا گیا وہیں اسکے حل کی جانب  نکلنے والی راہوں کی نشاندہی بھی کی گئی ۔  فاٹا اور بلوچستان کے صحافیوں  کے درد کو محسوس کیا گیا تو  کراچی کے رہنے والوں کی زندگیوں کو  لاحق خطرات بھی  زیر بحث آئے ۔
اور پھر  گلشن کے ان پھولوں کی آبیاری کیلئے  ، ملک کے اچھے ، قابل فخر ، سچے ، کھرے اور نڈر صحافیوں  کی رہنمائی فراہم کرکے  گویا ننھی کلیوں کو نئی کھاد د ی گئی ، جو اگلے کئی برسوں تک انکے لئے زاد راہ کا کام دیگی ۔
رائٹ  ٹو انفارمیشن  کے قانون سے لیکر ، سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے  اثرو رسوخ  ، نیوز  روم کے اندر کے مسائل سے لیکر  میڈیا کے کمرشل کردار جیسے  حساس  موضوعات پر جس ماہرانہ انداز میں  گہرائی کے ساتھ سمجھاکر مستقبل کی  نقشہ گیری کی گئی  وہ سب قابل تحسین ہے ۔ یہ سارا کام بس اپنی تلاش کا کام تھا ۔۔اپنی تلاش کا سفر تھا ۔۔۔ جو کام  شاید   اربوں روپے کے فنڈز رکھنے والی وزارت  اطلاعات کو  کرنا چاہئے تھا ۔ وہ  طوفانوں سے لڑنے والی تن تنہا ایک عورت نے کر دکھایا ۔ جو ثابت کرتا ہے کہ اس قوم میں ایسے جوہر ابھی موجود ہیں ، جو اسے نشان منزل کا پتہ دینے کیلئے اپنی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اور یہ کہ ،قوم ابھی اتنی بھی بانجھ نہیں ہوئی کہ  اس میں اب  بھی  بصیرت کے حامل  ایسے دیدہ ور لوگ موجود ہیں ۔
اس ملک کے سچے  اور کھرے  صحافیوں  جن میں  مظہر عباس ،  مطیع اللہ جان ، اے ایچ خانزادہ  ، شہزادہ ذولفقار، سلیم  شاہد ،  جیسے جو ہر نایاب  جمع کرکے ، ان سے زندگی کے تجربے کشید کرنے کا جوعمل وہاں نظر آیا ۔ وہ اس محفل کی جان تھا ۔۔۔یہ لوگ شا ید آج کے گئے گذرے زمانے میں صحافت کے آسمان پہ چمکتے ہوئے ستارے ہیں ۔جن کی کرنوں سے  آنے والوں نے اپنے آپ کو منور کیا ۔۔۔ ، یا شایدآج کے اس نفسا نفسی  کے زمانے میں  ان جیسے لوگ اس زمین کا نمک ہیں ۔ جنکی وجہ سے صحافت کے ذائقے کو بقا  اور دوام حاصل ہے ۔ ایسے لوگوں کی اصل جھلک خانزادہ صاحب  کے ان اشعار میں نظر آتی ہے جو یقیناً اسکی عملی تصویر بھی ہیں ۔

شام غم  ، ظلمت شب ، صبح الم بولتے ہیں
جب کوئی اور نہیں  بولتا ، ہم بولتے ہیں
بول جب بند تھے سب کے تو ہم ہی بولتے تھے
بولتا  کوئی نہیں آج بھی،   ہم ہی  بولتے  ہیں
دیدہ ور ،اہل صفا ،  اہل جنوں  چپ ہی رہے
سچ کو لکھتے ، جو ہوئے ہاتھ قلم   بولتے  ہیں


جب تک  بولنے کا یہ عمل جاری ہے ،  جاننے اور پہچاننے کا سفر جاری رہے گا ، اور میرے جیسے تشنہ لب  کاسہ گدائی لیکر اپنے ظرف  کے مقدور بھر اپنی تشنگی بجھاتے اپنی تلاش کے سفر پر گامزن رہینگے ۔ 

Sunday 24 November 2013

شجر سایہ دار

وہ ایک  سہانی صبح تھی ، سورج نے ابھی صرف مشرقی اوٹ سے جھانکتے ہوئے اپنی کرنوں  کو  بکھیرنا شروع کیا تھا ۔ طلوع خورشید کی سنہری  کرنوں سے  دل و دماغ کو روشنی اور امید کا پیغام مل رہا تھا ۔ اور میں صبح کی واک کیلئے اس پارک  میں آیا تھا ۔ جو کئی سالوں سے میرا معمول تھا ۔ جسمیں کبھی کمی بیشی بھی آجاتی تھی ۔ لیکن آج ٹھنڈ کچھ  ذیادہ محسوس ہو رہی  تھی ۔  ۔۔۔ میں نے محسوس کیا تھا   کہ نو جوانوں کے مقابلے میں اس پارک میں صبح کی واک کرنے والوں میں  بزرگ ذیادہ ہوا کرتے تھے ۔  ۔۔۔اور پھر واک کے بعد پارک کی ان بنچوں  پر یہ سارے بزرگ مل بیٹھتے   اور حالات  حاضرہ سے لیکر   نواجوانوں کے المیوں تک۔۔۔۔ سارے موضوع  انکی گفتگو کا حصہ  ہوتے ۔۔ اور میں چپ چاپ  جب   پارک کا چکر  کاٹتے ہوئے انکے قریب سےگذرتا تو انکی  گفتگو کے کچھ ٹکڑے میری سماعت سے بھی ٹکراتے۔۔۔۔لیکن شاید ٹھنڈ بڑھنے کی وجہ سے آج بزرگ  بھی اکا دکا  نظر آ رہے تھے ۔  کیوں کہ  سردیاں آتے ہی  بزرگ  اپنی صحت کے حوالے سے کچھ ذیادہ ہی متفکر ہو جاتے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔
آج   ان  بنچوں  پر مجھے وہ اکیلے نظر آ رہے تھے ۔ میں اپنے  7 چکر مکمل کرنے کے بعد  آج انکے قریب   بیٹھنے کا سوچنے لگا ۔ قریب آتے ہی  میں نے کہا ۔۔۔بزرگو  ! آج اکیلے  بیٹھے  ہو ؟۔۔۔۔۔
میری بات سن کر ۔۔۔۔انہوں نے انتہائی محبت سے  کہاں  ۔۔۔۔بیٹا  ادھر بیٹھ جائیں میرے قریب ۔۔۔۔۔آج سردی کی وجہ سے شاید ہماے  ساتھی نہیں آ پائے ''  انہوں نے جملہ مکمل کیا ۔
بیٹا"  ۔۔۔ سننا  تھا  ۔۔ میرے دل میں تو جیسے  سکون پڑ گیا ۔۔۔۔ آٹھ برس ہو گئے  تھے   مجھے ا س لفظ کو سنتے  ہوئے ۔ ۔۔۔بیٹے  اور   بیٹا  ۔۔۔کو سننے کیلئے میری سماعتیں گویا ترس رہیں تھیں ۔۔۔۔جب میرے  والد   مجھے زندگی  کے تھپیڑوں سے مڈ بھیڑ کرنے کیلئے  تنہا  چھوڑ گئے تھے ۔۔۔۔۔اور پھر ان بزرگ کے ساتھ  اس پارک میں  بنچ پر بیٹھتے  ہوئے  ۔۔۔۔ میں نے ایسے ہی  ۔۔۔۔خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا ۔۔باباجی ۔۔۔ماشاء اللہ  سے کتنے بچے ہیں ۔۔۔ کیا کرتے ہیں ؟۔۔۔۔۔۔ انکے بیٹا کہنے کے بعد  ۔۔۔ میں بزرگو ۔۔۔سے ۔۔۔    بابا جی پر آ گیا تھا ۔۔۔
انہوں نے کھنکھارتےہوئے گویا اپنا گلا صاف کرنے کی کوشش کی ۔۔۔اور گویا ہوئے   ''بیٹا  ، اللہ پاک نے مجھے چار بیٹے  عطا کئے  ، انکو لکھایا ۔۔۔ پڑھایا ۔۔۔ ماشاءاللہ سے دو امریکہ  میں ہیں ۔۔۔ ایک لندن میں  اور ایک  کینیڈا  میں ہے ۔۔۔ ماشاءاللہ  سب خوش ہیں ۔۔ اللہ کا کرم ہے ۔۔۔۔''  
میں نے محسوس کیا کہ    جملہ پورا کرتے کرتے  شروع میں انکے جملے  میں  جو تفاخر  تھا۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ  وہ مایوسی اور ایک  اداسی  میں بدل گیا تھا۔۔۔۔۔۔شاید وہ  اپنے اندر کے احساس تنہائی  سے لڑنے کی کوشش کر ہے تھے ۔ ۔۔۔
وہ  ۔ اب اپنی عمر کے اس حصے میں پہنچ چکے تھے ، جہاں  ان جیسے لوگوں کو عموما  بابوں کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ جب معاشرے میں انہیں بوجھ سمجھا جاتا ہے ۔  نوجوان    انہیں  قدیم دنیا کا با سی خیال کرتے ہیں۔  گھر والے کسی ناکارہ چیز کی طرح  کسی کونے میں  پھینک دیتے ہیں ۔ یا انہیں ایک ایسا پھل تصور کیا جاتا ہے ۔  جسمیں اب کوئی رس باقی نہیں    بچا ہوتا ۔  بچے انہیں آتے جاتے چھیڑنے کی کوشش کرتے ہیں ۔  اٹھکیلیاں  کرتی لڑکیاں  اپنی   ہم جولیوں کے ساتھ ،   انہیں دیکھ کر انکی جوانی  کے روپ  پر دبی دبی سی زبان میں تبصرہ کرتی ہیں ۔( کہ  اس بڑھاپے والے کی جوانی کیسی ہوگی ۔  لگتا ہے  کسی عشق نے انہیں  عمر سے پہلے ہی بوڑھا کردیا ہے ۔)   اور کچی عمر  کے نو جوان   انکی  جھکی گردن  دیکھ کر شاید گرنے والے درخت سے  تعبیر کرتے ہوں ۔
لیکن  انہیں کیا معلوم  کہ    جن کندھوں پر زمانے بھر کے تجربات کا بوجھ ہو ۔۔۔۔ جس  سر میں زمانے کو پرکھنے  کی کسوٹیوں  کا بھاری علم ہو ،۔۔۔۔۔۔۔  اور جس نے  مقدور بھر  خاندان  کی کفالت کا 70  سالوں تک بوجھ اٹھایا ہو۔۔۔۔۔ ۔  جنکی آنکھیں  چٹکی میں   ایک  نطر ڈال کر  حقیقت  سے آشنا ہونے کا ہنر رکھتی ہوں ۔۔۔۔۔  جو مشینی دور کے انسان کو دیکھ کر ان میں اپنی اقدار سے  دوری پر ۔۔۔دن رات کڑھتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔  ایسی گردنیں جھک ہی جاتی ہیں ۔۔۔۔   وہ بھی ایک ایسی ہی جھکی ہوئی گردن  لئے   اس دن صبح سویرے  پارک  میں ورزش کرتے نو جوانوں   کے سامنے موجود تھا ۔ پر اکیلے ۔۔۔۔۔۔
اور میں سوچنے لگا ۔۔۔کہ انسان  اس دنیا میں تنہا ہی آتا ہے ۔۔۔۔اور اس دنیا میں پہلا قدم دھرتے ہی ۔۔۔اسکی بے وفائی  اور اسکی جفاوں پر اسکی چیخیں نکل جاتی ہیں ۔۔۔اور پھر اپنی زندگی کا سرکل پورا کرتے ہوئے وہ آہستہ آہستہ پھر تنہا ہوتا  جاتا ہے ۔۔اپنے آخری سفر کیلئے  کہ وہ سفر اس نے تنہا ہی طے کرنا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
میرے سامنے بیٹھے  بابا جی   بھی   شاید   اپنی اولاد ہوتے ہوئے   بھی اسی تنہائی کے سفر پہ گامزن ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔انکے گھر میں بھی تنہائی تھی ۔۔۔۔۔۔یہ اپنی تنہائی   کو ا س پارک میں آکر توڑتے تھے ۔۔۔۔ لیکن آج یہ یہاں بھی تنہا تھے ۔۔۔۔۔۔زندگی کے سفر میں  آگے بڑھتے  بڑھتے  تنہائی ہی شاید ہماری ساتھی بن  جاتی ہے ۔۔۔۔۔میرا  بچپن چونکہ ایک دیہات میں گذرا ۔اور پھر وہاں اس بینچ پر بیٹھے بیٹھے    میں اس  شہری زندگی اور دیہاتی زندگی کی تنہائی  ۔۔۔اور اس عمر کے بزرگوں کی تنہائی کا موزانہ کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ میں شاید  کئی سال پیچھےچلا گیا  ۔۔۔۔اور مجے  تصور خیال میں نظر آیا ۔۔۔کہ ہمارے  گاؤں میں بھی تو ایک بزرگ ۔۔۔اور باباجی تھے  ۔۔۔یہ میرے اپنے بابا جی تھے ۔۔۔جو مجھے بیٹا کہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ جب شام کے وقت   گاؤں کی بیٹھک  میں بیٹھتے ۔۔۔  تو وہ کبھی اکیلے نہیں ہوتے تھے ۔۔۔۔ نوجوانوں  کا  ایک ھجوم ہر وقت  انکے ارد گرد  رہتا۔۔۔۔۔۔انکے سامنے ۔۔انکے احترام میں شاید   کم ہی لوگ بولتے تھے  ۔۔۔ورنہ اکثر خاموش رہ کر صرف  انکی گفتگو سنتے تھے ۔۔۔۔۔۔ اور انکی محفل سے اٹھنا نہیں چاہتے  تھے ۔۔۔۔۔رات گئے  سردیوں  کی   ٹھٹھرتی  راتوں میں جب  دیہات  میں کچہریاں جمتیں اس وقت  بھی  میرے گاؤں کے سارے لوگ  بابا جی کی   گفتگو   سنتے  اور خود خاموش رہتے ۔۔۔یہاں  تک  گھڑیاں   رات کے بارہ  بجنے کا اعلان کردیتیں ۔۔۔ اور  میرے باباجی  خود اٹھ کر سونے کی تیاری کرنے لگتے ۔۔۔۔یا شاید وہ نوجوانوں کو خود موقع دیتے تھے  کہ   یہ لوگ میرے سامنے میرے احترام میں کچھ نہیں بولتے ۔۔۔شاید میرے جانے کے بعد یہ بھی کچھ دیر  اپنا دل بہلا لیں ۔۔۔اور یہ سوچ کر وہ اٹھ جاتے ۔۔۔۔۔۔اور پھر انہیں 3بجے تہجد کیلئے بھی اٹھنا ہوتا تھا ۔۔۔۔جو ان کا  معمول تھا ۔۔۔اور جسے میں بچپن  سے دیکھتا ہوا آیا تھا ۔۔۔۔۔۔
اور مجھے یاد آیا ۔۔۔۔گاؤں  میں جب  کسی کی ولادت ہوتی ۔۔۔۔بچے کی  ماں  بچے کو  باباجی کی گود  میں  ڈال دیتی  اور پھر  بابا جی اس بچے کو ڈھیرساری دعائیں  دیتے ۔۔۔۔۔کوئی بچہ  بیمار ہوتا  ۔۔۔ کسی کا بخار نہ ٹوٹتا  ۔۔۔تو وہ خاموشی  سے پانی کی ایک بوتل بھر کر مسجد میں میرے با باجی کے قریب  رکھ دیتے اور وہ  نماز کے بعد  دعا مانگ کر اس پر ایک پھونک مار دیتے ۔۔۔۔اور بچے بیماریوں سے  تندرست ہو جاتے ۔۔۔۔۔
یہ میرے بابا جی تھے  ۔۔۔۔ جنہیں میں نے گاؤں میں دیکھا  تھا ۔۔۔۔۔جو مجھے بیٹا  کہہ کر بلاتے تھے ۔۔۔۔ کتنی مٹھاس  ہوتی ہے اس ایک لفظ ''بیٹا '' میں ۔۔۔
اور آج  اس پارک میں  ایک بابا جی میرے قریب بیٹھے تھے  ۔۔۔انہوں  نے بھی  مجھے بیٹا  کہا تھا ۔۔۔۔ مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا  اس بابا جی نے ۔۔۔۔۔۔ جن کے ساتھ بظاہر میرا کوئی رشتہ نہ تھا ۔۔ کوئی ناطہ نہ تھا ۔۔۔ لیکن مجھے  محبت  دیکر ایک لمحے میں انہوں نے مجھے  ایک نیا رشتہ عطا کیا تھا ۔۔۔لیکن اس بابا جی  کے ساتھ  تو کوئی بھی نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ اکیلا تھا ۔۔۔۔ تنہا تھا ۔۔۔۔ جنہیں اس نے زندگی کے گر سکھائے تھے ۔۔۔۔ جن پروں کو  اس نے پھڑ پھڑانا سکھایا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ پنچھی آج اڑان بھر چکے تھے ۔۔۔ امریکہ اور اور کینیڈا کی ڈالیوں   پر بیٹھ کے میٹھے پھل کھا رہے تھے ۔۔۔۔اور اڑان سکھانے  والا  آج اس پارک کی بنچ پر  تنہا   خود اس جہاں سے اپنی اڑان بھر نے  کی تیاری کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
اور حساس دل  رکھنے والا صحافی  پھر سوچنے لگا  کہ  کتنے  خود غرض ہو جاتے ہیں ہم لوگ ۔۔۔۔۔۔کتنے بے وقوف ہو جاتے ہیں  ہم لوگ ۔۔۔۔۔کہ ہم قدم قدم انگلی پکڑکر چلنا سکھانے  والوں کو اس   عمر میں تنہا   چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ڈگریاں   ہمیں کتنا بے وقوف  بناتی ہیں ۔۔۔۔۔ ہمارے ہاتھ میں ڈالر تھما کر  ہم سے ہمارا  پیار چھین لیتی ہیں ۔۔۔۔۔ہمارے اپنے ہم سے دور کر دیتی ہیں ۔۔۔۔۔ہمیں  بیٹا  کہنے والوں کو ہم سے جدا کردیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ہمارے اور انکے درمیان کتنی وسیع خلیج پیدا کر دیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
 میرے سامنے بیٹھے بابا جی بی  بھی   شاید اپنے بچوں کے بچپن میں کھو گئے  تھے ۔۔۔ اور میں نے محسوس  کیا کہ انکی بوڑھی آنکھوں  میں محبت  اور تنہائی کے  عذاب کے ستارے بیک وقت جھلملا رہے تھے ۔۔۔۔۔آنکھوں سے بہنے والے موتی   انکی چاندی بھری ریش کو  بھگو رہے تھے ۔۔۔۔
میں نے بات بدلنے کیلئے کہا کہ با با جی ۔۔۔۔کیا مصروفیات رہتی ہیں  آپ کی سارا دن ۔۔۔۔؟
بابا جی بولے ۔۔بیٹا  ۔۔۔ ہماری کیا مصروفیات  ہونگی ۔۔۔ بس   گھر  کے کاٹھ  کباڑ  کی طرح  کونے کھدروں میں دبکے رہتے ہیں ۔۔۔۔ انکے  اس جملے  میں گویا   انکی پوری تنہائی ۔۔۔اور انکی زندگی بھر کا درد امڈ آیا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور   نومبر کی اس صبح   پارک  کی ا س بنچ پر بیٹھ کر  میں سوچنے لگا کہ ہم  انسان  بھی   کیسے ہر احساس سےعاری ہوتے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔ہم اپنے  چاہنے والوں کو کس طرح ان جانے میں  تنہائیوں  کا شکار کر رہے ہوتے ہیں  
یہ بابے  جب محفلوں میں ہوتے ہیں ۔۔۔ تو ہم  نوجوان انہیں تنہا کر دیتے ہیں ۔  ۔۔۔۔نوجوان ان  سے الگ ہوکر  اپنی محفل الگ جماتے ہیں ۔۔ پھریہ بابے  جب  تنہائی میں ہوتے ہیں تو اپنی محفلیں آباد کرتے ہیں ۔ تنہائی انکی بہترین ساتھی اور بہترین  دوست ہوتی ہے ۔آپ نے اکثر دیکھا ہوگا  یہ لوگ محفلوں سے کتراتے ہیں ۔ کہتے ہیں  بھائی آپ نوجوان لوگ گپ شپ لگائیں ہم چلے ۔۔۔  وہ دراصل تنہائی سے باتیں کرتے ہیں ۔  تنہائی ان سے باتیں کرتی ہے۔۔۔۔ اپنے بچپن کی باتیں ۔۔۔۔۔اپنی جوانی کی یادیں ۔۔۔۔۔یہ بابے لوگ محفلوں کے بجائے اپنی تنہائیوں کے گھر آباد کرتے ہیں ۔ یہ اپنی یادوں سے باتیں کرتے ہیں ۔۔۔۔۔اپنے احباب کوسوچتے ہیں۔۔۔۔ انکی سوچوں کو پڑھتے ہیں ۔۔۔۔۔ خاموش    باتیں ۔۔۔۔۔ خاموش پڑھائی ۔۔۔۔۔یہ ان آوازوں کو سنتے ہیں  جنہیں آپ ساؤنڈ لیس  آوازیں  یا  خاموش آوازیں کہہ سکتے ہیں ۔۔۔۔
یہ جب زمانے کا تجزیہ اپنے تجربات  سے کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ پیش آئندہ مشکلات کو اپنے تجربے  پر پرکھتے ہیں ۔۔۔۔۔تو۔۔ زمانے کے دئے گئے سبق کی بنیاد پر انکے فیصلے سو فیصد  درست  ثابت ہوتے ہیں ۔۔۔۔کیونکہ  زمانہ ہی بہترین استاد ہے ۔۔۔یہ زندگی  کے مصائب اور مشکلات سے نکلنے کا گر ہمیں سکھاتے ہیں ۔۔۔۔۔
اور یہی وہ سیکھنے کا عمل ہوتا ہے ۔۔۔۔جو ۔۔۔ان سے دور رہ کر ہم گنوا دیتے ہیں ۔۔۔ اس سیکھنے کے عمل سے ہماری دوری ہمیں محروم کر دیتی ہے ۔۔یہ جب اپنے  تجربے ہم سے شیئر   نہیں کر پاتے ۔۔۔اور جب یہ ہماری ہی دی گئی تنہائیوں کے باعث رخصت  ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔ تو  ہم  وہ تجربہ دوبارہ کرنے لگتے ہیں۔۔ ۔۔۔پھر جب ٹھوکر کھا کر گرتے ہیں تو  اس وقت  ہمیں یہ بابے  یاد آتے ہیں ۔۔۔

اس بینچ پر بیٹھے بابا جی اور میں ۔۔۔۔شاید  دونوں   کہیں کھو گئے تھے ۔۔۔۔ یا شاید ہمارے پاس  بات کرنے کیلئے  الفاظ کا ذخیرہ کم پڑگیا تھا ۔۔۔یا پھر شاید  بابا جی اپنے بچپن میں  ۔۔۔اور میں۔۔۔  زندگی کا موازنہ کرنے  میں گم ہو گیا تھا ۔۔۔۔
میں سوچنے لگا کہ جب ہم مشترکہ خاندانی سسٹم میں رہتے  تھے ۔۔۔تو ہماے بچوں  کو ۔۔ نانا  ۔۔ نانی ۔۔ دا دا   اور   دادی کی شکل  میں  محبتیں  بانٹنے والے  مل جاتے تھے ۔۔ جو ہمارے بچوں میں چاہتیں  اور محبتیں  بھر دیتے تھے ۔۔۔۔ یہ ہمارے بچوں کو محبت کرنا سکھا دیتے تھے ۔۔۔۔
آج ہم محبتوں سے خالی ہو رہے ہیں ۔۔ ہمارے معاشرے میں نفرت  پھیل رہی ہے ۔۔۔۔شاید  ہمارے  حصے میں  محبت آئی ہی نہیں  ۔۔۔۔آج کی تیز رفتار ترقی اور مشینی دور نے  ۔۔۔ہم سے  محبتوں کے یہ گھروندے چھین  لئے۔۔۔اور ہم ان  سے کچھ بھی نہ لے پائے  ۔۔۔اور ہم اندر سے کھو کھلے ہو گئے ۔۔۔۔ نفرتیں  ہمارے رگ و پے  میں سرایت کر گئیں ۔۔۔۔۔۔ اور نتیجتاً  آج ہم اپنا گھر بھی نہیں بچا پاتے ۔۔۔۔۔۔آج بھی ۔۔۔صرف کراچی کی عدالتوں  میں خلع کے دس ھزار سے زائد کیس   فیصلے  کے منتظر ہیں ۔۔۔اور ان میں روز  بروزاضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔
میرے ذہن میں  آیا جب   خاندان مشترک   تھے۔۔۔۔  تو   یہ بابے  لوگ اپنا سارا  وقت بچوں کو دیکر انکی   بہترین تربیت کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔ تربیت وقت   مانگتی ہے ۔۔ اور ہمارے یہ بزرگ اپنا وقت  ہماری اولادوں کو دیتے تھے ۔۔۔۔۔اور آج   جب  خاندانی نطام ٹوٹنے لگا ہے ۔۔۔ہر پنچھی نے اڑان بھر کر اپنا  الگ گھونسلہ بنا  لیا ہے ۔۔۔۔الگ گھر بسا لیا  ہے ۔۔۔۔۔میاں بھی دفتر میں اور بیوی بھی کام پر ۔۔۔۔کہ اسٹیٹس  اونچا کرنے کے بھوت  نے ۔۔۔۔۔ہمیں کہیں کا نہیں رہنے دیا ۔۔۔۔۔آج کے اس دور میں   بچے پیار کیلئے ترستے ہیں ۔۔۔ ماں باپ تھکے ہارے گھر پہنچتے ہیں ۔۔۔۔تو بس بچوں کو سلانے ہی کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔ آج ہمارے بچوں  کو گھوڑا بن کر اپنی پیٹھ پر سواری کرانے ولا کوئی بزرگ ہمارے گھر میں نہیں ۔۔۔۔ مشترکہ خاندان میں یہ بچے جب گھوڑے کی سواری کرکے گرتے تھے  ۔۔۔تو ہمارے یہ بابے انہیں گر کر پھر کھڑے ہونے کا گر سکھاتے تھے ۔۔۔۔گر کر سنبھلنے  کے راز اور نکتے سمجھاتے تھے ۔۔۔اور نتیجتاً  یہ بچہ جب بڑا  ہوتا ۔۔۔۔۔۔تو    زندگی  کے نا ہموار راستوں پر۔۔۔  یہ اپنے گھوڑے کو  سرپٹ بھگا ئے جاتا ۔۔۔راستے  کی کوئی رکاوٹ اسکی  راہ میں حائل ہونے کی کوشش  نہیں کرتی تھی  ۔۔۔۔۔۔طوفان کے تھپیڑے  زندگی کی ناؤ  ڈبونے  میں  ناکام رہتے  اور ہماری کشتی  کنارے لگ جاتی ۔۔۔ کیوں  کہ  ہمارے بچوں کی تربیت ایسے   ملاحوں نے کی ہوتی تھی ۔۔۔۔۔ جنہوں  نے خود  ان طوفانوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہوتا تھا ۔۔۔۔۔


اور اس صبح   اس بنچ پر بیٹھ کر میں سوچنے لگا کہ ہم ہی  بے وقوف ہیں ۔۔۔۔۔ جنہیں ہم بابے کہہ کر نا سمجھ  اور ناکارہ سمجھتے ہیں ۔۔۔
 ان بابے  لوگوں کا ۔۔یہ بابا پن ۔ہی ۔۔ دراصل  شعور و آگہی  کی جوانی کا زمانہ ہو تا ہے ۔۔۔۔اس عمر میں پہنچ کر ان کا شعور پختہ ہو چکا ہوتا ہے ۔۔۔۔یہ عمل کی بھٹی  سے گذر کر  کندن بن چکے ہوتے ہیں ۔۔۔۔یہ اپنے آگے اپنی نسل کے  ہر عمل کو اپنے تجربے پر پرکھتے ہیں ۔۔۔ان کا تجربہ انہیں کھرے اور کھوٹے ۔۔۔ سچے اور جھوٹے  کی تمیز کراتا ہے ۔۔۔۔۔صحیح اور غلط کو ممیز  کراتا ہے ۔۔۔کامیابی اور ناکامی کا  فیصلہ کراتا ہے ۔۔۔تو آج اگر میری قوم کے نو جوان  انکے تجربے  کا فائدہ نہ اٹھا سکیں ۔۔۔ بھٹی مین کندن بننے  والے کھرے انسانوں کو پہچان نہ پائیں ۔۔۔۔تو شاید ہم اپنے زمانے کے بے  وقوف لوگ  شمار کئے جائیں ۔۔۔
جنہیں  ہم  ناکارہ   کاٹھ کباڑ  سمجھ کر گھر کے ایک کونے میں پھینک دیتے ہیں ۔۔۔یہ بابے   نو جوانوں کے لئے  دعا گو ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔یہ ان کے لئے بلند منزلوں کی دعائیں کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ایسی دعائیں  جو انہیں  ان کی جوانی میں کسی نے نہ دی ہوں ۔۔۔۔
یہ بابے ہمیں   بہت کچھ دینا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔ہم لینا نہیں چاہتے ۔۔۔یہ ہمیں  بہت کچھ سنانا  چاہتے ہیں ۔۔۔۔ ہم سننا  نہیں چاہتے ۔۔۔یہ ہمیں  زندگی کے رموز سے  آگاہی دینا چاہتے ہیں ۔۔۔اور ہم آگاہی لینا نہیں  چاہتے۔۔۔۔یہ ہمیں زندگی کے گر  بتانا  چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔ہم سیکھنا نہیں چاہتے ۔۔۔۔۔یہ ہمیں زندگی کے مصائب سے پنجہ آزمائی کرنے کا ہنر  دینا چاہتے  ہیں ۔۔۔اور ہم ہنر مند بننا  نہیں چاہتے ۔۔۔۔۔
یہ لوگ  زندگی کے اس سمندر میں ایک جزیرے کی مانند ہوتے ہیں ۔۔۔۔جسکے چاروں طرف سمندر کا ٹھاٹھیں  مارتا  پانی ۔۔۔ہر کسی کو دبوچنا چاہتا ہے ۔۔۔اور اس پانی میں  وہ جزیرے کی مانند تنہا کھڑے ہوتےہیں   ۔۔۔۔اس جزیرے تک پہنچنا آسان کام نہیں ۔۔۔۔۔۔اسکے لئے  سمندر کو پار کرنا ہو گا ۔۔۔۔۔سمندر کی موجوں سے لڑنا ہو گا ۔۔۔۔۔۔ وہ موجیں جو ہمیں ان سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
کبھی تنہائی  کے لمحوں  میں سوچنا  ضرور ۔۔۔۔۔۔ جب یہ بابے نہیں ہوتے ۔۔۔۔تو ہمیں  بیٹا  کہنے  ولا کوئی نہ ہو تا ۔۔۔۔۔ہمیں پیار سے پکارنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ ہمیں ہمارے  فرائض یاد دلانے والا کوئی نہیں ہو تا ۔۔۔۔ جب زندگی کے  بھنور میں  ہماری انگلی تھام کر  ہماری نیا کو پار لگانے والا کوئی نہیں ہو تا ۔۔۔۔جب ہمیں   ٹھوکریں کھا کر گرتے وقت ۔۔۔۔۔ سہارا  دیکر   ہمارے قدم بقدم چلنے والا کوئی نہیں ہو تا ۔۔۔۔ تب ہمیں یہ بابے یاد آتے ہیں ۔۔۔۔
آپ نےکبھی ان کھر درے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا ہے ۔ جو  بڑے سے بڑے صدمے میں بھی  کس طرح آپ کی روح میں سکون  بھر دیتے ہیں ۔  جن کی ہڈیوں  پر مشتمل گود  میں۔۔۔۔۔ آرام دہ بستروں سے ذیادہ   سکون میسر ہوتا ہے ۔  
  کبھی  غور کیا ہے جب آپ کو کوئی ڈانٹنے والا  اس دنیا میں نہ رہے ، کوئی روکنے ٹوکنے ولا  نہ ہو ۔۔۔۔۔ تو کیسا  اکیلے پن ،  اور تنہائی کا احساس گھیر  لیتا ہے ۔  ۔۔۔۔بس  یہی تو وہ لوگ ہیں جو  آپ کو اس احساس سے بچاتے ہیں ۔


یہ بابے ہمارے گھروں کا سب سے قیمتی  اثاثہ ہیں ۔۔۔یہ بابے ہمارا سرمایہ ہیں ۔۔۔۔یہ ہمارے خاندانوں کا تاج ہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہ ہمارے معاشرے  کیلئے متاع  بے بہا  ہیں ۔۔۔۔کہ انہیں کھو کر  ۔۔۔ہم کبھی ان کی قیمت ادا  نہیں کر سکتے ۔۔۔۔۔۔یہ لوگ آگاہ راز ہوتے ہیں ۔۔۔۔ہمارے جذبات  میں  گرمی  پیدا کرتے ہیں ۔۔۔۔ ہمیں نئی منزلوں کی پہچان کراتے ہیں ۔۔۔۔۔یہ ہمارے لئے چراغ  راہ کا کام کرتے ہیں ۔۔۔۔یہ ہمارے باطن  میں چراغاں کرکے ہمیں  منزلوں  کی خبر دیتے  ہیں ۔۔۔۔نشان منزل کا پتہ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ آشنائے راز ہو کر  ہمیں مکاں و  لا  مکاں  کے فرق سے آگاہ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ ایسے  بابے  معاشرے کیلئے  چراغ  راہ کا کام کرتے ہیں ۔ جو اپنے  گردوپیش کو روشن رکھنے کیلئے  دن رات جل جل کر اپنا جیون وار دیتے ہیں ۔
با نصیب ہیں وہ لوگ ! جن کو اپنے گھروں میں آج بھی چراغوں  کی شکل میں  ایسے بابے میسر ہیں۔ جو اپنے جگر کے لہو سے  انہیں زندگی کے رموز سے آشنائی دیتے اور اپنے تجربات سے انہیں بصیرت عطا کرتے ہیں ۔ ۔۔۔۔ جو خود ساری خواہشیں  اور چاہتیں تج کر  بانٹنے کے عمل کو  جاری رکھتے ہیں ۔   جو غیر محسوس طریقے سے  زمانے سے حاصل کردہ  اپنا فیض  اپنی اگلی نسلوں کو منتقل کرتے ہیں ۔ ۔۔ ۔۔
یہ زندہ روحیں ہیں  ۔۔۔۔جن کے رشتے ہماری روح سے وابستہ۔۔۔۔ اور جنکی  سانسوں کی ڈور  اور زندگی کی خوشیاں۔۔۔۔  ہماری روح کے دھاگوں سے بندھی ہوتی ہیں ۔  جو محبتوں کے خزانے اپنے وجدان میں چھپائے ہمارے ارد گرد ہم پر لٹانے کیلئے بے تاب رہتے ہیں ۔  
جنہوں  نے پوری زندگی ہمارے دکھوں کو اپنے اندر جذب کرتے کرتے ہمیں  خوشیاں بہم پہنچانے کا سامان کیا ۔
یہ بابے ہمارے لئے گھنے  پیڑ اور سایہ دار درخت  کی طرح ہیں ۔ ایسے گھنے پیڑ  جو ہمیں   موسموں کی دست برد سے محفوظ رکھتے ہیں ۔  ایسے سائبان جو   گرمی میں ٹھنڈک اور ٹھنڈ  میں  ہمیں گرمی کا احساس دلاتے ہیں ۔ ہمیں موسموں کے  مضر اثرات سے بچاتے ہیں ۔ میں بھی شاید گرم موسموں  کا جھلسایا ہوا ۔۔۔۔ آج اس شجر سایہ دار  کے نیچے بیٹھا تھا   ۔۔۔۔جس  کی ٹھنڈی چھاوں نے  گویا میرے  انگ انگ میں سکون بھر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس نے مجھے  گویا    اپنی خاموش آواز سے ۔۔۔۔  زمانے کا سب سے مشکل سبق یاد کرا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔

Wednesday 20 November 2013

محبت کے روپ


انسان  سمجھتا ہے کہ محبت کے جذبوں کو اس سے ذیادہ کوئی نہیں جانتا ۔ لیکن شاید یہ اس کی بھول ہے ۔ یہ سوچتے ہوئے   شاید اس کے ذہن سے  یہ  بات محو  ہو جاتی ہے  کہ ۔۔۔۔محبت تو خدا کا روپ  ہے ۔  یہ آپکو کہیں بھی ، کسی بھی روپ میں نظر آ جائیگی ۔ ۔۔۔۔۔۔اور اس طرح نظر آئیگی کہ آپ حیران رہ جائینگے ۔۔۔۔۔۔  جس طرح   یہ  پوری کائنات  خدا کا روپ ہے ۔۔۔۔۔ اور خدا  کہیں بھی کسی بھی روپ میں آپ کو  سمجھ میں آجا تا ہے ،۔۔۔۔۔۔محسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔  بلکل  بعینہ ۔۔۔ اسی طرح محبت بھی  اسکا روپ ہے ۔ ۔۔۔۔۔یہ آپ کو کہیں چلتے ہوئے  بھی محسوس ہو سکتی ہے ،۔۔۔۔۔۔کسی ویران  راہ   میں بھی نظر آسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔،  سمندر کی لہروں کو ساحل سے ٹکرا کر اپنا وجود ختم کرتے   ہوئے بھی ۔۔۔ آپ کو اپنے اندر محسوس ہو سکتی ہے ۔ یہ آپ کو   خدا کی مخلوق میں بھی  نظر آ سکتی ہے ۔  میں نے محبت کے جذبے اس وقت  محسو س کئے ۔۔۔جب   میں نے ایک دیہاتی کی گود میں ایک سوہنی  کو اپنا سر رکھے ۔۔۔اور آنسووں بہاتے دیکھا ۔۔۔۔

یہ علاقہ  شکارپور اور کرم پور کے درمیان  میں کہیں واقع تھا ۔ سیلاب آچکا تھا ۔ انہونی کے ہونے کی کیفیت گذر چکی تھی ،  چاروں طرف  پانی نے    اپنی چمکتی چادر  پھیلا  رکھی تھی ۔   خشک  زمین کا  کوئی ٹکرا کہیں نظر نہیں  آتا تھا ۔ انسان تو سمجھدار ہے ، اس نے تو ھجرت کرلی ، خوف کے مارے اپنے شہر ، اپنے دیہات  چھوڑ کر ۔۔۔  نئے ٹھکانے آباد کر لئے ، لیکن  جانور کہاںجائیں  ۔ ؟۔۔۔۔ وہ چاروں طرف پھیلی اس قدرتی آفت سے کس طرح لڑیں ۔  ۔۔۔سڑک کے ساتھ  وہ شاید ایک پیٹرل پمپ تھا ۔۔۔۔۔۔۔  جو کچھ  مٹی کی بھرائی کی وجہ سے  باقی زمین سے  کسی قدر  اونچا ئی  پر تھا ۔ اسی لئے شاید سیلابی  پانی  اسے فتح نہیں کر سکا تھا ۔  ۔۔۔اس زمین کے ٹکڑے پر   میں نے محبت کے روپ دیکھے ۔ ۔۔۔۔

میں  سمجھتا ہوں  کہ قدرت انسان کو کھوج کیلئے دنیا  میں بھیجتی ہے ۔۔۔۔۔۔ اور ہر شخص  تلاش کے ایک سفر  میں ہے، ۔۔۔ اور تلاش کا یہ سفر  اسکی سانسوں کی آخری ڈور تک ساتھ رہتا ہے ۔۔۔۔  کوئی کوئی   تو زندگی کی ناؤ کنارے لگنے سے پہلے  اپنی تلاش کو پا لیتا ہے اور کوئی اس  سے محروم رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔کبھی کبھی انسان کو خود بھی یہ معلوم  نہیں ہوتا کہ اسکی روح کو کس چیز کی تلاش ہے ۔۔۔۔۔۔، وہ کس چیز کا خواہاں ہے ، کوئی ایک آرزو اسکے سامنے واضح نہیں ہوتی ،  ۔۔۔۔۔۔۔جستجو   ایک دھندلی سی تصویر کی صورت ۔۔۔۔۔۔ اسکے سامنے آتی ہے ۔  اور پھر جو شخص اپنی  تلاش اور جستجو میں سچا ہو ۔۔۔۔۔ جو اپنی کھوج کو اپنی زندگی کا  روگ بنا لے ۔۔۔۔۔۔۔ قدرت اسے  اپنی تلاش  میں کامیاب کرتی ہے ۔ اسے اسکی کھوج کا پھل مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔اور وہ مسرور ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔ دنیا میں ہرطرف  اسے  خوشیاں  ناچتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔۔۔۔۔  قدرت ۔۔۔کھوج کے اس سفر میں ایمان والے اور کافر کی تخصیص  کبھی نہیں کرتی۔۔۔۔۔ بلکہ صرف  محنت کو معیار بناتی ہے ۔ اور کسی کے فیل ہونے ۔۔۔یا۔۔۔۔  پاس ہونے کا معیار صرف ۔۔۔تلاش کیلئے  سچی لگن  ہی ٹہرتا ہے ۔  ۔۔۔۔۔ہم بھی  کہانیوں کی تلاش میں  سیلابی پانی میں کئی دنوں  سے  مارے مارے پھر رہے تھے ۔ ۔۔۔کسی اچھی اسٹوری کی تلاش میں ۔۔۔۔ کہانیاں  تو ہمارے ارد گرد بکھری ہوتی ہیں ۔ بس محسوس کرنے والا دل ۔۔۔اور دیکھنے والی آنکھ ہونی چاہئے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
تو جب اس پیٹرول پمپ پر اس  شخص کو اپنی بھینسوں کے ساتھ اجڑی صورت بنائے دیکھا ۔۔۔۔۔ تو ایک دم جیسے منزل مل گئی ۔۔۔  جسکی تلاش تھی ، جسکی جستجو تھی۔۔۔۔  وہ کہانی ہاتھ آگئی ۔ میں  نے کیمرہ  مین  عاصم بھٹی سے    کیمرہ نکالنے اور کام شروع کرنے کا کہا ۔۔۔۔ وہ کہنے لگا  کیا اسٹوری کرینگے   ۔؟  ۔۔۔۔میں نے کہا کہ اسٹوری ہمارے سامنے ہے بس آپ کام شروع کرو ۔
 میرے  سامنے   موجود  ۔۔۔وہ لاغر   اور کمزورو  جود ۔۔۔۔ سہراب خان  کاتھا ۔۔ جسکی گود میں   اسکی سوہنی  نے سر   رکھا ہو اتھا  ۔ اور اسکی آنکھ سے  خوف اور تشویش   کے آنسووں رواں تھے  ۔ مگر یہ آنسوں شاید ہر  شخص محسوس نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔ مگر میں چونکہ ایک دیہاتی ۔۔۔ بچپن میں    مال مویشی    بھی چرائے  ۔۔۔۔۔ جوہڑوں  میں بھینسوں کو نہلایا بھی ۔۔۔۔۔، اب اگر کسی سے تذکرہ کروں تو شاید  کوئی یقین نہ کرے ۔۔۔۔۔۔   شاید     ہمارے  جیسے  دیہاتی لوگ  مویشیوں کے ان جذبات کو خوب سمجھتے ہیں ۔
 میں اسکے ساتھ زمین  پہ بیٹھ گیا ۔ اور کیمرہ مین اپنے کام میں جت گیا ۔  سہراب خان  کی  کہانی بڑی ددناک تھی ۔ اسکی دو ننھی کلیاں  سیلابی پانی میں ڈوب کر ہلاک ہو گئی تھیں  ۔ اسکی  ٹوٹی  پھوٹی باتوں سے پتہ چلا کہ  میر زادی اور خیر زادی کو دفن کرنے کیلئے خشک زمین کا ٹکرا تو علاقے کے سردار اور بھو تار نے فراہم کردیا ۔۔۔ اپنے جگر گوشوں کے ساتھ  سہراب خان کی  کئی گائیں  بھی سیلابی پانی کی نذر ہوگئیں ۔۔۔۔۔  اب اسکا کل اثاثہ یہ چند بھینسیں تھیں ، جنہیں  لیکر یہ چل پڑا  ،۔۔۔۔۔۔ بھینیسیں  بھی چونکہ  سیلابی پانی میں تیر سکتی تھیں ،۔۔۔۔۔ لہذا تیرتے تیرتے ۔۔۔۔  یہ اس زمین کے ٹکڑے  کو  تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے ،۔۔۔۔۔۔ جہا ں ۔۔پیر جمانے کیلئے ۔۔۔۔ انہیں خشک زمین  تو ہاتھ آگئی  لیکن ۔  مویشیوں کے چارے کا   کہیں دور دور تک بھی کوئی امکان نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  سہراب خان  نے  ارد گرد  بکھرے کاغذ اور کچرا چن کر انہیں کھلایا تھا ۔ اور  پھر سوہنی سے تو اسے ویسے بھی سب سے ذیادہ محبت تھی ۔  جو اس وقت بھی   بھوک کے ھاتھوں  مجبور ہو کر سہراب خان کی گود میں سر رکھے ہوئے تھی۔   بھورے رنگ کی  اس بھینس کو ۔۔۔۔۔ سہراب خان نے پیار سے۔۔۔ سوہنی کا نام دیا تھا ۔  ۔
سہراب خان کو اپنی بھینس سوہنی سے بہت محبت  تھی۔ یہاں مویشیوں سے پیار کرنے والے انکے نام بھی رکھتے ہیں کوئی سوہنی ۔۔۔۔تو کوئی رانی ۔۔۔۔ ریلیف کیلئے شہروں سے آنے والوں کو شاید اپنے جانوروں سے انکے  اس رشتےکا اندازہ نہ ہو  پائے  ۔ ۔۔۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ۔ یہ لوگ اپنی جان پر کھیل کر بھی انہیں بچانے کی کوشش کرتے ہیں
سہراب   خان کو اس پیٹرول پمپ کی زمین  کے ٹکڑے پر آج دوسرا دن تھا  اور اسکی سوہنی اور رانی   بھوکے  پیٹ تھیں ۔۔۔۔۔۔ اور  اس وقت   یہ سوہنی سہراب کی گود میں   اپنا سر رکھ کر آنسووں بہا رہی تھی ۔  ۔۔۔۔۔شاید سوہنی کے دل  میں بھی کہیں  محبت کا یہ تصور جا گزین ہو گا  کہ۔۔۔۔   موت بھی آئے تو محبوب کے قدموں  میں ۔۔۔۔۔اور شاید  اپنی اسی محبت سے  مجبور ہو کر۔۔۔ اب اس  نے اپنا سر  سہراب خان کی گود میں رکھ دیا تھا ۔   اور   ایک حساس دل رکھنے والا صحافی سوچنے لگا   کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔واہ  ری محبت تیرے روپ ۔۔۔۔۔۔۔
اس لمحے مجھے یہ  بات بھی  ہمیشہ کیلئے سمجھ میں آگئی   محبت جنس کے جذبے سے  ما ورا ہوتی ہے ۔   ۔۔۔۔۔۔یا پھر شاید دماغ میں محبت اور جنس کیلئے دو علیحدہ علیحدہ   خانے متعین ہیں  ۔۔۔۔۔۔کہ  محبت تو  ہمیشہ تسلسل کی آرزو مند رہتی ہیے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور  جنس اور سیکس شاید ابال کی صورت میں  انسان کے گرد  گھیرا ؤ ڈالتی ہے ۔۔۔۔۔  جبکہ محبت کا متلاشی  جان سے گذر جانے  کو بھی کھیل سمجھتا ہے ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں  سہراب اور اسکی سوہنی کو دیکھ کر مجھے   سمجھ میں آیا  کہ محبت تو روح سے ہوتی ہے ۔   اور روح  تو انسان کے اندر ہوتی ہے ۔  محبت  روح تک پہنچنے کیلئے کبھی جسم کو خاطر میں نہیں لاتی ۔  اور  محبت کا یہ روپ  سہراب خان  اور اسکی سوہنی  کی صورت  میں میرے سامنے تھا ۔۔ ۔۔  کہ یہاں  محبت روح سے تھی ۔۔۔۔۔۔ جسم سے ملاپ  کا شاید   کوئی تصور بھی  سوہنی اور سہراب کی محبت   میں موجود نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔

  سہراب  خان  کے  سامنے  اب ہر لمحے نئے اندیشے سوال بن کر کھڑے ہو جاتے  ۔ کہ جانوروں کے چارے کا انتطام کیا جائے ؟۔۔۔۔یا پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے دانہ گندم کی لڑائی لڑنا مناسب رہے گا ۔۔۔۔۔۔۔اور  اسی سوچ و بچار  میں   سہراب خان کو وہیں چھوڑ کر ہم  نے اسٹوری نشر کرنے کیلئے   اپنا راستہ ناپا ۔۔۔۔۔
گاوں دیہات کی سادہ اور پر لطف زندگی گزارنے والوں کیلئے مویشیوں کی حیثیت سیونگ بینک کی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ انکی ہر ضرورت ان جانوروں سے ہی پوری ہوتی ہے ۔ شادی کرنی ہوئی تو ایک جانور بیچ دیا ۔ ۔۔۔۔ کوئی بیمار ہو اتو اسپتال کے خرچے جانور بیچ کر پورے کر لئے ۔ یہ جانور انکی ہر مشکل گھڑی کے سانجھی ہوتے ہیں ۔ اور مصیبت میں کام آنے کا رشتہ ہی مویشیوں سے انکے پیار کی بنیاد بنتا ہے ۔۔۔۔۔
 سیلاب کی کوریج میں مصروف فوٹوجرنلسٹ شکیل عادل ۔۔۔۔ایسے ہی ایک واقعے کے عینی گواہ ہیں ۔۔۔۔ اس نے مجھے  بتایا کہ    ایک دن وہ صبح سویرے    سیلاب کی کوریج کیلئے  کچھ تصویریں  بنا رہا تھا ۔ اس نے کیمرہ زوم  کیا تو اسے لگا کہ کوئی چیز  پانی میں تیرتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔  اس نے  مزید زوم بڑھا یا   تو اسے لگا کہ شاید کوئی جانور ہے ۔۔۔۔۔۔   وہ وہیں کنارے پہ بیٹھ کر اس کے قریب آنے کا  انتطار کرنے  لگا  ۔ ۔۔۔۔۔جب  وہ  قریب آئی تو پتہ چلا کہ کوئی شخص     گائے  کی گردن میں  اپنے پاوں پھنسائے  تیرتا  ہوا  آ رہا ہے ۔ ۔ ۔۔۔آدھے  پون گھنٹے  کی جدو جہد   کے بعد جب یہ شخص اپنی  گائے کو لیکر کنارے پہنچا   تو  اس نے بتایا  کہ  وہ گذرشتہ  تین دن سے   سیلابی میں پانی میں تیرتا  ہوا آیا ہے ۔۔۔۔۔۔ کہیں  خشک زمین  کا ٹکرا نظر آیا تو تھوڑی دیر سستا لیا  ۔۔۔۔۔۔ پھر  تیرنا شروع کردیا  ۔۔۔۔کیونکہ     وہ اپنی اس گائے کو بچانا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔    اپکی معلومات  کیلئے عرض کردوں کہ گائے کے  کان میں   اگر  پانی چلا جائے تو  اسکی زندگی   بہت جلد ختم ہو جاتی ہے ۔۔۔۔ یہ دیہاتی لوگ  اس حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے انکی کوشش ہوتی ہے کہ پانی کے اندر انکی گائے کی گردن ہمیشہ اونچی  رہے ۔   اگر گردن نیچے ہوگئی  تو سمجھو  گائے ھاتھ سے گئی ۔۔۔۔۔۔۔  انسان بھی تو گردن جھکانا  عار سمجھتا ہے  نا ۔ ۔۔۔۔۔اونچی گردن کو نیچا کرنا موت سمجھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔  لیکن شاید اسے معلوم نہیں  کہ     گائے کے برعکس گردن جھکانے میں ہی اسکی حیات کا سامان ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

Sunday 17 November 2013

المیے سے ۔۔۔۔ امید تک ۔۔4


سیلاب  2010 کی یادیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری ڈائری سے-4


تباہی گذرنے کے بعد اپنے پیچھے آثار اور نشانات چھوڑ جاتی ہے ۔۔۔  غوث پور اور کرم پور سے شکار پور ۔۔۔۔۔ اور شکار پور سے گڑھی خیرو اور شہداد کوٹ تک ۔۔۔۔۔۔مجسم تباہی اور خیمہ بستیوں کا ایک نہ ختم ہونے ولا سلسلہ  تھا ۔ جسے ھفتوں گذرنے کے با وجود معمول کا منظر سمجھ کر نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔اور ہم کہانیوں کے متلاشی ۔۔۔۔جہاں سے گذرتے  اس ملک  کے بےاماں لوگوں کے چہرے  اپنے اوپر بیتی   کہانیاں  خود بیان کرر ہے ہوتے ۔۔ ۔۔۔۔اور کہانیاں کیا تھیں ۔ غم و اندوہ   میں ڈوبی ہوئیں ۔۔۔۔  ہرآنکھ اشکبار ۔۔۔۔۔ ہر شخص کا ایک الگ دکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔ہر ماں کی الگ بپتا ۔۔۔۔۔۔ہر آنسوں لہو میں ڈوبا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ اور ہر چہرہ ۔۔۔۔مایوسی و ناامیدی   کی تصویر  بنا ۔۔۔۔۔ہمارے سامنے  آجاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درماندہ اور بے اماں انسانوں کے ریوڑ ۔۔۔۔ بے سرو سامانی کے عالم میں کہیں سڑک کنارے تو کہیں چارپائیوں کی مدد سے بنائے جھونپڑوں میں سورج کی سخت تپش سے بچنے کی کوششوں میں مصروف   ۔۔۔۔۔۔ ایسا لگتا تھا ۔۔۔۔۔۔یہ کسی جنگل میں رہنے والے  جانور ہیں ۔۔۔۔۔۔۔جن کا کوئی والی وارث       کم از کم ہمیں نظر نہیں آرہا تھا ۔۔۔ہم شکار پور سے  شہداد  کوٹ کیطرف   رواں  دواں تھے ۔۔۔یہ سڑک  شکارپور   اورشہداد کوٹ  کو۔ رتو ڈیرو سے ہوتی ہوئی   خضدار  سے ملاتی  ہے ۔۔۔ ۔۔ دفاعی لحاظ سے اس کی بڑی  اہمیت   اس وجہ سے بھی ہے ۔ ۔۔۔۔۔کہ یہ خضدار میں موجود  پاکستانی فوج کے اسلحے کے سب سے بڑے ذخائر  کی ترسیل کیلئے   اہم گردانی جاتی ہے ۔۔۔۔ہم شہداد کوٹ کیلئے جب  صبح منہ اندھیرے  نکلے  تو سورج  ہمارے تعاقب   میں  اس سڑک تک آ گیا ۔۔۔سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ ملگجی روشنی ہر طرف    سیلابی پانی پر پڑ  رہی تھی ۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔ انہی راستوں پر  ۔۔۔۔۔۔سیلابی پانیوں میں سفر کرتے  ۔۔۔۔۔۔ اب گویا ہر منظر    ہمارا دیکھا بھالا تھا ۔۔۔۔۔۔اب کسی   جھونپڑی   یا کسی  خیمے    میں   کسی    کی شکل دیکھ کر ہمیں اندازہ ہو جاتا ۔۔۔۔۔کہ  وہ   کس طرح بے گھر ہونے کی اذیت سے دو چار ہے ۔۔۔۔۔سڑک کنارے   کسی جھونپڑ  پٹی میں دن کے اجالے میں بھی   ۔۔۔۔۔۔۔کوئی  نو جوان  چادر منہ پہ کئے  چارپائی   پہ لیٹا ہوتا ۔۔۔۔۔۔تو   ہم سمجھ جاتے  کہ وہ ضرور  کسی   بیماری سے پنجہ آزمائی  میں مصروف  ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔غرض  درد و الم کی  کہانیاں ۔۔۔ ہر  جانب چہارسو بکھری ہوئی تھیں ۔۔۔۔اور ہم کہ  کہانیوں کی تلاش میں۔۔ انکو رپورٹ کرنے کیلئے  دن رات  محو سفر رہتے   ۔۔۔۔۔۔اور اس طرح ہم  شہداد کوٹ پہنچ گئے ۔
شہداد کوٹ کے شمال مغرب کی  طرف   لوگوں نے  اپنی مدد آپ کے تحت دن رات ایک کر کے ایک 6  سے 7 فٹ  انچا بند بنا لیا تھا ۔ یہ بند  اس سڑک کے ساتھ ساتھ  بنایا گیا تھا  جو  شہداد کوٹ کو  شمال سے مغرب کی  طرف  ایک گول دائرے کی شکل میں  خضدار  کی سڑک سے ملاتی تھی ۔۔ یاں  یوں سمجھ لیں  یہ اس شہر کا بائی  پاس تھا ۔۔۔۔۔ پانی  اس  نئے نئے بنائے گئے بند  کے آخری  حصوں کو  چھو تا ہوا  گذر رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔  آنے والی  تباہی  کا خوف کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ ہم نے پہلی بار  یہاں   کے رہائشیوں   کے چہروں پر دیکھا ۔۔۔ اب تک  تو ہم نے صرف   تباہی کے گذرنے کے بعد کی داستانیں   دیکھیں تھی ۔۔ اب خوف کو مجسم  اپنے سامنے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر سارا وقت اس عارضی بنائے گئے  بند پر موجود رہتے ۔۔۔ ایک جگہ سے اس  بند میں ہمارے سامنے سوراخ   ہوا  اور جب  سیلاب کا منہ زور پانی  شہر کی جانب  بڑھنے لگا  تو  ہم نے لوگوں کو دیوانہ وار اس آفت سے لڑتے بھی دیکھا ۔۔۔۔ یہ آناً فاناً اس پانی کو روکنے کیلئے  جت گئے ۔۔ اور پھر  شہداد کوٹ   کے شمال میں جو سڑک  بلوچستان کے   گڑھی  خیرو  کو ملاتی تھی ۔۔۔۔۔۔وہاں سیلابی  پانی  کے ساتھ ساتھ  ۔۔۔۔ہم نے لوگوں  کو بآواز بلند   قرآن پاک رکھ کر  تلاوت کرتے دیکھا ۔۔۔ ۔ شاید یہ لوگ  بھی خوف کی آخری منزل پہ تھے ۔۔۔۔سب کچھ لٹ جانے کاخوف۔۔۔۔ موت کو قریب سے دیکھنے کا خوف ۔۔۔۔۔۔۔آنے والے  مصائب کا خوف ۔۔۔۔۔۔۔اور انہونی کے ہونے کا خوف ۔۔۔۔۔۔اور یہ سب خوف کی مجسم تصویر تھے ۔۔۔۔۔
 شہداد کوٹ  سندھ کا انتہائی  متمول شہر ہے ۔۔۔ یہاں کئی  فیکٹریاں قائم ہیں ۔۔ اور سندھ میں سونے کی تجارت کا سب سے بڑا مرکز ہے ۔۔ ۔۔۔۔ لیکن شہر کا  جائزہ لینے  جب ہم  شہر  کے اندر بڑھے  تو  پورا شہر ویران تھا ۔۔۔ انسان نام کی کوئی چیز پورے شہر میں ہمیں نظر نہیں آئی ۔۔۔۔۔ لوگ اپنے قیمتی اثاثے چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے  اور بھائیں بھائیں کرتے خالی شہر اپنے مکینوں کے خوف اور حیرت کی تصویر بن گئے ۔ صاحب حیثیت اور بے آسرا کے سارے فرق مٹ گئے ۔ اور محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے کر دئے گئے ۔۔۔۔۔ پختہ مکانوں کے مالک کھلے آسمان تلے بیٹھ گئے ۔ اور دینے والے ہاتھوں کو ہاتھ پھیلاتے ہوئے پیشانی پر پسینہ اور آنکھوں میں آنسوں آ تے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہر سے باہر نکلے تو
  انہی راستوں پر   ہمیں    اوستہ محمد کے  یہ باسی  نظر  آئے ۔۔۔۔۔ جو پہلے گڑھی خیرو ،۔۔۔۔ پھر شہداد کوٹ پہنچے۔۔۔۔۔ اور اب تھک ہار کر انہی راستوں پر ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے ۔۔ ۔
 انہی راستوں پر   ۔۔۔۔ ان جھونپڑ پٹیوں میں ہمیں 60 سالہ محمد پناہ نظر آیا   ۔۔۔۔۔ زندگی  کے مصائب   سے  ہونے والی اس کی ساری لڑائیاں اسکی پیشانی  پر تحریرتھیں ۔ ۔۔۔۔سفیدی  آئے بالوں میں  ۔۔۔۔۔۔اسکی زندگی کی ساری محرومیاں رقم تھیں ۔۔۔ہم کہانیوں کے متلاشی  اسکے ساتھ  اس جھونپڑے  میں  بچھی ایک چار پائی پر بیٹھ گئے ۔۔۔ ۔۔ اور اپنے جوتوں کے تسمے کھول لئے ۔۔۔۔۔اور محمد پناہ  نے گویا   ۔۔۔۔۔ زندگی کی بے وفائیوں کی ٹوکری کھول کر  ہمارے  سامنے رکھ دی ۔۔۔۔۔
اس  نے بتایا کہ  وہ  شہداد کوٹ کے قریب  کسی گاوں کا باسی ہے ۔    ۔۔۔۔۔۔ سیلابی پانی سے جان بچاکر ۔۔۔۔اپنے  بچوں  کو لیکر بمشکل وہ  اس سڑک تک پہنچا ۔۔۔۔۔۔ سر چھپانے کا ٹھکانہ تو اس نے  کچھ ڈنڈے گاڑ کے اور کچھ چارپائیاں  کھڑی کرکے ۔۔ ان پر چادریں  ڈال  کر بنا لیا ۔۔۔۔۔ مگر  اب کھائے کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نفسا نفسی کے اس دور میں ۔ پیٹ  کا دوزخ بھرنے کیلئے  کس سے کہے ۔۔۔۔۔ اور  امداد  کیلئے  کسی شہر تک کیسے پہنچے ۔۔۔۔۔کیونکہ سواریاں ناپید تھیں ۔۔۔۔۔۔۔اور اگر کوئی  سواری مل بھی جاتی ۔۔۔۔۔۔ یا  وہ  اپنی بوڑھی ٹانگوں پر بھروسا   کر بھی لے ۔۔۔لیکن گھر  کی خواتین کو   اس کھلی سڑک   پر کس کے آسرے چھوڑ  جاتا ۔۔۔۔۔۔
 محمد پناہ  اب  امید و بیم کی کیفیت میں ۔۔۔۔۔۔سڑک کنارے جھونپڑے میں بیٹھے۔۔۔۔۔۔ ہر زناٹے بھرتی گاڑی کو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ شاید کوئی امداد لے کے پہنچا ہو ۔ ۔۔۔۔۔ لیکن امیدیں شاید ٹوٹنے کیلئے  ہی ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔امیدوں کی رسی شاید  دنیا کی کمزور ترین رسی ثابت ہوتی ہے۔۔۔۔۔ اور  پھر غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی امیدیں تو اپنے رب سے وابستہ ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جتنا ایمان ۔۔۔ اور جتنی امیدیں  ۔۔۔۔۔اور جتنا یقین ان لوگوں کو رب کی  ذات پہ ہوتا ہے شاید   امیروں کو بھی نہیں  ہو تا ۔۔ کینوکہ انکی  زندگی  کی ڈور۔۔۔۔۔  امید کی رسی سے بندھی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔لیکن اب امداد کا انتطار کرتے کرتے  محمد پناہ کی  امیدوں کی ڈوریاں بھی ٹوٹنے لگی تھیں ۔۔۔۔۔۔کہ ابھی تک نہ تو کسی منتخب نمائندے نے اسکی خبر گیری کی تھی اور نہ ہی کوئی فلاحی تنظیم ان تک پہنچی تھی ۔۔۔۔۔۔
محمد پناہ جان گیا  تھا کہ کہ ووٹ کی طاقت سے ڈرنے والے عوامی نمائندے اس مشکل وقت میں انہیں تنہا چھوڑ گئے ہیں ۔ یہ اس بات پر جہاں رنجیدہ  تھا   وہاں اپنے نمائندوں کی بے وفائی بھی اسے اب کچھ کچھ سمجھ میں آ رہی  تھی ۔۔۔۔۔۔کہ ان راستوں پر لٹے  پھٹے  ا ن سینکڑوں لوگوں تک  نہ تو رضا کار پہنچے تھے اور نہی کسی شاہی سواری میں کسی وزیر با تدبیر نے قدم رنجہ فرمائے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم گذرشتہ کئی دنوں سے سیلاب ذدہ علاقوں کی کوریج میں تھے لیکن  ۔ غوث پور اور کرم پور سے لیکر گڑھی خیرو اور شہداد کوٹ تک ہمیں یہ عوامی نمائندے کہیں نظر نہیں آئے ۔ مصیبت کی گھڑی میں تسلی کے دو بول بھی
حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کر دیتے ہیں۔۔۔
اوستہ محمد اور روجھان جمالی کے لوگ ۔۔۔جو۔۔۔ اب لاڑکانہ اور اسکے گردو نواح میں اپنی تقدیر میں لکھی ٹھوکریں کھانے پر مجبور تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ انکے گھر کی خواتین کا جہاں بے پردہ ہو کر باہر نکلنا غیرت کے منافی سمجھا جاتا تھا ۔ آج اپنے زخمی وجود کو سنبھالے ۔۔۔۔ ڈرے سہمے ۔۔۔سڑکوں پر بیٹھنے پر مجبور  تھے ۔۔۔۔۔۔۔ ہم ابھی اس  جھونپڑے  میں محمد پناہ کے  ساتھ  اسکی زندگی  کے الم گن رہے تھے  کہ
انہی جھونپڑیوں میں ایک  دوسال کی بچی ہمیں بیماری کے ھاتھوں ایڑیاں رگڑتے نظر آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ لگتا تھا   اسکے جسم   میں خون  نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی  تھی ۔۔۔۔۔۔۔جسکی سانسوں کی رفتار وقت گذرنے کے ساتھ مدھم پڑ رہی تھی ۔ تکلیف  سے اسکی آنکھیں  باہر ابلنے لگی تھیں ۔۔۔۔۔پہلی نظر میں وہ ہڈیوں کا کوئی ڈھانچہ  نظر آتی تھی ۔۔۔۔۔۔نبض ٹٹول کر دیکھی جو بمشکل چل رہی تھی۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔ممتا کے ھاتھوں مجبور ہو کر اسکی ماں رونے لگی کہ شاید یہ اب اسکی زندگی کی آخری سانسیں ہیں ۔ کیونکہ انکے پاس ہاسپیٹل تک پہنچنے کیلئے کوئی ایمبو لینس نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔ بعض اوقات  انسان   محبت  کے ھاتھوں مجبور ہو کے بھی کتنا بے بس  ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔کہ اپنے پیاروں کو تکلیف میں دیکھ کر بھی  کچھ نہی کر پاتا ۔۔۔۔۔ اس لمحے انسان کو اپنی بے وقعتی  اور بے ثباتی   کا کتنا شدید احساس ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اسکی  ماں بھی شاید  اسی احساس تلے  آہستہ  آہستہ   ہچکیاں لے رہی تھی ۔۔۔
عوامی نمائندے تو ان تک نہ پہنچے ہم  نے اپنی گاڑی میں انہیں ایک نذدیکی میڈیکل کیمپ پہنچایا ۔۔۔۔۔۔۔  لیکن کیمپ میں موجود  فوجی ڈاکٹروں نے اسے  ڈرپ لگانے کیلئے  کینولا   لگانے کی کوشش کی ۔۔۔ تو کوئی نبض بھی ڈاکٹر کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھی ۔۔۔۔۔یا شاید  موت کی وادی میں جانے  والوں کو  واپس کھینچنے کی  ترکیب   اسکی فوجی ٹریننگ میں شامل نہ تھی ۔۔۔۔۔۔ موقع پر موجود  اس فوجی  نے اسے فوری طور پر  کسی  بڑے اسپتال پہنچانے کا کہا ۔۔۔۔۔۔ ہم تو کہانیوں کے متلاشی تھے  ۔۔۔۔ اور اب اس معصوم کی کہانی   ہمارےساتھ  سفر کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔  بعد ازاں ہم اسکی زندگی بچانے کیلئے اسے لیکر شہداد کوٹ ہاسپیٹل روانہ ہوئے ۔۔۔۔۔۔کہ کہانیوں سے ذیادہ  موت کی دہلیز  پر   ایک تڑپتی ہوئی بچی کی  زندگی اہم تھی ۔۔۔۔۔یہ ہماری   بھاگ دوڑ اور  محنتوں کا ثمر تھا  یا کسی ممتا کی دعاوں کا اعجاز۔۔۔ کہ اسے یہاں طبی امداد مل گئی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ اس ننھی کلی کی سانسوں کی رفتار باقی ہے یا نہیں ۔۔۔ ۔۔۔۔ لیکن انسانی بے بسی اور لاچارگی کے دوران عوامی نمائندوں کی اپنے عوام سے دوری ہمیں شدت سے محسوس ہوئی ۔۔۔۔ اور ہم ۔۔۔۔۔۔ہم ایک بار پھر  تلاش کے سفر پر رواں دواں تھے ۔۔۔۔۔۔



Friday 15 November 2013

المیے سے ۔۔۔۔ امید تک ۔۔3

سیلاب  2010 کی یادیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری ڈائری سے- 3



جب قدرتی آفات اور ڈزازسٹر کا زمانہ ہو تو ایک صحافی کی زندگی بھی فوجی زندگی بن جاتی ہے ۔۔۔۔ صبح ۔۔۔سورج کو کرنیں بکھیرنے  سے پہلے فیلڈ میں پکڑنا ۔۔اور پھر   سورج کی آخری چنگاری تک اپنی محنت میں جتے رہنا ۔ اور مغرب کے بعد  اپنے بیس کیمپ ۔۔۔یا۔۔۔یوں  کہیں سونے کے ٹھکانے کی طرف سفر کرنا  ۔۔۔۔۔اور تھک  ہار کر  رات 12  بجے جب  سونے کے لیے لیٹو تو   ۔۔۔۔ایک تھکے ہوئے   جواری کی طرح ۔۔۔۔دو جمع  دو ۔۔۔کرتے ہوئے  ،   اپنے دن کا محاسبہ کرنا کہ آج کتنا کام کیا اور  کل کی پلاننگ ۔ ۔۔۔۔ہمارا بھی یہی معمول تھا ۔
ہم نے  کل دریائے سندھ کے اندر  سفر کرنا تھا ۔ اور سیلاب کے زمانے میں دریا  کے بیچ سفر کرنا  شاید خطرات سے خالی نہیں تھا ۔ پر  جو بھوت سر پر سوار تھا  ۔ اسے ٹھکانے تو لگانا تھا۔۔۔۔ ۔ سیلابی حالات  میں کسی  کشتی  پر نہ تو  دریا میں  سفر کیا جا سکتا تھا ، اور نہ ہی کوئی بھی ماہر ملاح یہ خطرہ  مول لینے کیلئے آمادہ  تھا ۔
اس مقصد کیلئے ہم نے اپنی فون ڈائری کو ٹٹولنا شروع کیا  تو نیوی کے ایک پرانے مہربان کا نمبر  نظر آگیا ۔ صحیح وقت پر   موزوں بندے کا نمبر کیا ملنا تھا  ۔۔۔۔گو یا جوہری کو ہیرا ہاتھ اگیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔طے یہ ہوا  کہ  رسکیو کاموں میں مصروف  نیوی کے  ہاؤرکرافٹ   کے اندر ہمارے لئے دو افراد کی گنجائش نکالی جائیگی ۔   اورپھر پروگرام کی جذئیات طے کرتے  کرتے ، رات کے 12  بجتے  ہی  ہم ایسے لیٹے کے دوسرے ہی لمحے   نیند کی وادیوں میں تھے ۔
دوسری صبح  ہم نیوی کی ٹیم کے  ہمراہ   ایک نئےمحاذ پر جانے کیلئے  تیار تھے ۔۔۔۔
آج ہمارا ارادہ  دریائے سندھ کے اندر سکھر سے  شمال مشرق کی طرف  70  نائیٹیکل مائل  پر واقع کھڈاری گاؤں تھا ۔  جسکا محل وقوع   ۔۔۔اور  دریائے سندھ کے بلکل درمیان  میں ہونے کی وجہ سے  اسکی حساسیت۔۔۔۔۔   ہم پہلے ہی نقشوں کی مدد سے  ڈسکس کرچکے تھے۔۔۔۔ ۔  ہاؤر کرافٹ میں سوار ہونے سے پہلے ہم  نے لائف  جیکٹس پہن لیں ۔ تاکہ کسی بھی  خطرناک صورت  حال میں ۔ اپنا   بچاؤ کیا جا سکے۔۔۔۔ ۔ ہاؤرکرافٹ کا  پائلٹ دھیمی رفتار سے  دریائے سندھ  کے بہاؤکی مخالف سمت میں ہاؤر کرافٹ کو  ہانک  رہا تھا  ۔۔۔۔۔لیکن لگتا تھا  کہ انسانی  صناعی ۔۔۔سیلابی  دریا کی شکل میں موجود ۔۔۔  قدرت  کی طاقت سے  مار کھا رہی تھی۔۔۔ ۔  دریا کا منہ زور پانی  کا بہاؤ۔۔۔بار بار   ہاؤر کرافٹ کی اسپیڈ توڑ  کر  اسکا  رخ  دوسری جانب موڑ دیتا ۔۔۔۔ پائلٹ    کی  پریشانی ۔۔۔اسکی  پیشانی  سے واضح جھلک رہی تھی ۔  آخر کار اسے اپنی ٹریننگ   سے  کام لینا  پڑا ۔۔۔ اور اس نے  بپھرے دریا کے منہ لگنے کے بجائے ۔۔ ۔۔ جہاں  بہاؤ  کا دباؤکم تھا اس طرف سے  ہاؤر کرافٹ  کو آگے بڑھانا شروع  کیا ۔  اور  پائلٹ کی یہ کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوتی  ہوئی نظر آ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔  جیسے جیسے دریا کا پاٹ چوڑا ہوتا گیا    ۔۔۔۔پانی میں سمت کا اندازہ کرنا مشکل ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ''کو
پائلٹ ''نے کمپاس اور نقشوں کی مدد سے    پائلٹ کی مدد کرنا شروع  کی ۔۔۔۔۔۔
اور پھر کوئی  دو  گھنٹے  کے سفر کے بعد  ہمیں دور سے    دریا  کے اندر ایک گاؤں  کے آثار  نظر آنا شروع  ہوگئے ۔  گاوں کیا تھا ۔۔۔۔دور سے درختوں کے اندر گھرا  ہوا ۔۔۔۔۔اور  سارے درخت بھی مکمل طور پر پانی میں ڈوبے ہوئے۔۔۔۔جنکا صرف اوپر کا آخری  سرا ہی دکھائی دے رہا تھا ۔۔ اور گھر ۔۔۔۔کچھ یہی ماجرا   گھروں کے ساتھ بھی تھا ۔ جنکی   صرف چھتیں نظر  آ رہی ہیں ۔ دیواریں مکمل طور پر پانی میں ڈوبی ہوئیں۔۔اور  ان چھتوں پر  میرے ملک کے باسی ننگے بدن  ۔۔۔۔۔جسم پر صرف دھوتی باندھے ۔۔ موجود تھے ۔۔۔ان چھتوں پر انکا بچا کھچا  سامان بھی موجود تھا ۔ ایک  آدھ بچ جانے والی مرغیاں اور بکریاں  بھی سہمی ہوئی  ان چھتوں پر  انسانوں کے ساتھ کنڈلی مارے نظر آئیں ۔۔۔۔۔   بیشک  انسان بڑا ظالم اور سخت کوش ہے ۔۔۔۔۔۔۔
دریائے سندھ کے  پانی میں  مکمل طور پر  ڈو با ہوا یہ کھڈاری گاؤں  تھا  جو سانگی کے قریب واقع ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ ۔۔۔۔سیلاب آنے کے بعد  اس گاؤں  کے تمام  افراد اب تک اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھے اپنے بچے کھچے سامان کی حفاظت کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔۔ ہمیں نظر  آیا کہ انکے پاس ایک چھوٹی کشتی تو موجود  تھی ۔۔۔۔جو موٹر کے بغیر چپو کی  مدد سے چلتی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔لیکن دریا کے تیز بہاؤ  میں اسے لے جانا ممکن نہیں۔۔۔۔۔۔  ہاؤر کرافٹ  کی آواز  سن کر   یہ  لوگ اپنے گھروں کی چھتوں  سے اتر کر  اس کشتی کے زریعے   ہاؤر کرافٹ کے نزدیک آگئے ۔ اگرچہ یہ لوگ موت کی تلخ حقیقت کو گھر کی دہلیز پر دیکھ  رہے تھے  ۔ اور انکے سامنے زندہ رہنے کیلئے اندیشے سوال بن کر کھڑے ہو گئے  تھے ۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔ہمارے اور نیوی کے جوانوں  کے لاکھ سمجھانے بجھانے  کے با وجود بھی ۔۔۔۔ان میں سے 4 افراد کے علاوہ باقی نے اپنے گاؤں سے نکلنے سے انکار کرد یا  ۔ کیونکہ وہ کشتیوں میں آنے والے لٹیروں سے اپنے گھروں میں موجود سامان کو بچانا چاہتے  تھے ۔
اور  ہاؤر کرافٹ    کے ڈیک پہ کھڑا میں سوچنے لگا ۔۔۔ ہائے رے انسان   تیری محبت  کے پیمانے ۔۔۔۔ ۔۔سیلابی  پانی میں جہاں سانسوں کی ڈور   قائم رکھنے کیلئے   بھی  جان کے لالے پڑے ہوں ۔۔۔۔۔ موت بلکل حقیقت  کی طرح  انساں  کے سامنے عیاں ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔ انسان  اپنے  مال و متاع   چھوڑنے کیلئے  آمادہ نہیں تھے ۔۔۔۔ اور دوسری جانب ایسے بھی تھے جو اس قدرتی  آفت کے دوران بھی چوری چکاری سے باز  نہیں آ رہے تھے ۔۔۔۔۔ اور  یہ چوریاں بھی  دریا  کے اندر کشتیوں  کے زریعے  ہو رہی تھیں ۔۔۔ ۔۔اور میں سوچنے لگا کہ   ۔۔۔انسان   کا من نہ مانے  ۔۔۔۔ اسکا اندر نہ چاہے۔۔۔ تو   قدرت کی تنبیہات   بھی اسے سدھارنے کا کام نہیں کر سکتیں ۔۔۔۔۔
تباہی کے آثار نظر آنا الگ بات ۔۔۔۔۔ اور تباہی کو قریب سے دیکھنا بلکل الگ بات ۔۔۔  ہمیں  نظر آنے والے یہ خالی گھر اپنے اوپر گذرنے والی قیامت کا پتہ دے رہے تھے ۔بظاہر یہ گھر سلامت نظر آ رہے تھے  ۔ لیکن پانی میں ڈوبی انکی دیواریں کمزور ہو چکی تھیں۔ یہاں جگہ جگہ خالی گھر بتا رہے  تھے کہ۔۔۔۔۔ تباہی کا آسیب   ہنتی بستی زندگیوں کو روند چکا ہے۔۔۔ ۔ باقی بچ جانے والے اب بھوک اور بیماری کے چنگل سے پیچھا چھڑانے میں مصروف  تھے۔
نیوی اہلکاروں نے  ہاؤر کرافٹ سے  ان میں امدادی اشیاء  تقسیم کیں ۔ اور دریا  سے نکلنے   پر آمادہ  افراد  کو لیکر   ہم نے ایک بار پھر واپسی  کا راستہ ناپا ۔ ۔۔۔دریا  میں سفر کرتے میں نے اپنی ڈائری  کے نوٹس پڑھنا شروع  کئے جس میں حکومتی  اعداو  شمار کے گورکھ دھندے تھے ۔ 
حکومت وقت کے مطابق سیلاب سے سے مجموعی طور پر ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔ 1600 سے زائد انمول زندگیاں پانی میں بہہ گئیں ۔ جبکہ انفرا اسٹرکچر ، مویشی اور فصلوں کو ہونے والا نقصان 4 سے 6 ارب ڈالر لگایا گیا ۔سیلاب سے صوبہ خیبر پختونخوای کے 24 اضلاع ، سندھ کے 19 ، پنجاب کے 12 ، بلوچستان کے 10 اور گلگت بلتستان اور کشمیر کے 7.7 اضلاع متاثر ہوئے ۔ اعدادو شمار کے گورکھ دھندوں کے ماہرین کے مطابق سیلاب سے تیرہ لاکھ اسی ھزار پر کھڑی فصلیں اور بارہ لاکھ سے زائد مکان تباہ ہوئے ۔ جبکہ بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 75 لاکھ ہے ۔ 4 ھزار کلومیٹر سے زائد سڑکیں اور 1 ھزار پل دریا کے منہ زور پانی میں بہہ گئے ۔
 لیکن یہ سب اندازے  تھے۔ جو ڈی سی اوز اور ڈی ڈی اوز کے دفاتر میں بیٹھ کر لگائے گئے  اور  میں  سوچنے لگا کہ ۔۔۔۔ اس ملک کے حکمراں پچھلے 60 سالوں میں ایسا کوئی پیمانہ ایجاد نہیں کر سکے ۔ جن میں غریبوں اور انکی غربت کو ناپا جا سکے ۔۔۔۔کہ کتنے ہیں۔۔۔۔۔ ، مر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ یا جیتے ہیں۔۔۔۔ ۔ اقتدار کی بارگاہوں تک رسائی رکھنے والوں نے کبھی انکی صحیح تعداد جاننے کی کوشش نہیں کی ۔ ۔۔۔۔۔۔
رسکیو کا کام   ۔۔۔اب امدادی   مرحلے میں  داخل ہو رہا تھا ۔۔ اور اسکے بعد  لٹے پھٹے افراد کی بحالی کا مرحلہ  بھی آنا تھا ۔۔۔۔لیکن  سیاسی کارندو ں کی اس حکومت میں  ۔۔ان حکمرانوں میں ہمیں ایسا کوئی نظر نہیں آیا جو سیل زمانہ کا شناور ہو۔۔۔۔جسے اس مشکل گھڑی میں ہم نے اپنے عوام کے درمیان پایا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔

Wednesday 13 November 2013

اداس لڑکی


کل رات جب وہ  کتابی چہرے  (فیس بک ) پر میرے سامنے آئی تو بہت اداس تھی ۔  یوں تو میری اور اسکی شناسائی بہت پرانی تھی ۔ کسی میڈیا ٹریننگ کے دوران ایک ہوٹل میں اس سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ کسی ایف ایم اسٹیشن پر اپنی  آواز کا جادو جگاتی ، اور لوگوں کی سماعتوں کو مسحور کرتی تھی ۔ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہ کر ان کے دلوں پر حکمرانی کرنے کا فن شاید اسے آتا تھا ۔ اور میں تو صرف لفظوں کا پجاری۔۔۔۔۔۔ ، جسکا اوڑھنا بچھونا صرف اسکا  قلم ۔۔۔۔   اور اس سے نکلنے والے لفظ تھے ۔  ۔۔مگر کل رات  وہ بہت اداس تھی ۔۔۔۔اور جنجھلاہٹ اسکی باتوں  سےعیاں تھی ۔۔۔۔ مجھے محسوس ہوا وہ اپنے اندر سے اٹھنے والے سوالوں سے پریشان تھی۔۔۔۔۔۔۔ ''انسان اندر سے ٹوٹ جائے تو تعمیر حیات کی کتابیں بھی اسکی مدد نہیں کر سکتیں ''
کہیں پڑھا ہوا یہ جملہ میرے ذہن میں گونجنے  لگا ۔ شاید وہ اپنے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ ہی کا شکار تھی ۔ اور پھر وہ اپنے اندر اٹھنے والے طوفان کا شاید مقابلہ نہ کرسکی ۔ اور اسکے ذہن میں مچلنے والا خلجان  سوالوں میں ڈھل کر  میری اسکرین پر  جوابات کا متلاشی تھا ۔
میں نے اسے باتوں میں الجھانے کی کوشش کی کہ آپ نے میرا تازہ  بلاگ  پڑھا ۔؟۔۔ تو اس نے جواب دیا ۔۔کہ اچھا ہی ہو گا ۔۔۔ آپ نے لکھا ہے  تو۔اور ہر انسان کو اپنی تخلیق  سے پیار ہو تا ہے ۔ ۔۔۔۔
بس یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جہاں سے   میری  اور اس آواز کی ملکہ  کی گفتگو  شروع ہوئی ۔ میں نے اس   ساحرہ  سے کہا کہ  ہاں اپنی تخلیق سے سب کو پیار ہوتا ہے ۔ خالق کو بھی تو اپنی تخلیق سے پیار ہے نا ۔ جب ہم کوئی چیز بنانے کے بعد سوچتے ہیں کہ اس میں کوئی کمی نہ رہے ۔۔وہ تخلیق مکمل دکھائی دے ۔۔۔اس میں کوئی عیب نہ ہو ۔۔اس میں کوئی نقص دکھائی نہ دے ۔۔تو وہ خالق کائنات جس نے انسان کو بنایا ہے وہ بھی  تو یہی چاہتا ہے ۔۔ کہ اسکی تخلیق ۔۔یعنی انسان ۔۔۔پاکیزہ رہے ۔۔ اس میں کوئی نقص  نہ ہو ۔۔ اس میں کوئی برائی نہ ہو ۔۔۔۔اور سراسر  بھلائی ہی بھلائی ہو ۔۔میں نے اس سے  ہنستے ہوئے کہا ۔ویسے  معاف  کیجیئے گا ۔۔۔ میرا  بلاگ میری تخلیق نہیں ۔۔ کیونکہ ''لفظ ''تخلیق نہیں کئے جا سکتے ۔۔ یہ تو قدت  کا تحفہ ہوتے ہیں ۔۔ جو الہام کی صورت  ہمارے دلوں پر نازل ہوتے ہیں ۔۔۔ تخلیق کا کام تو بس ۔۔ اس ذات   ہی کو بھاتا ہے ۔۔۔ ہم انسان کہاں  اس  کے کام  میں گھسنے والے ۔۔۔ ۔۔۔
اس نے میری  بات کاٹ دی ۔۔۔ جو اسکی پرانی عادت تھی ۔۔۔وہ جب کبھی اس طرح  میری بات کاٹتی میں سمجھ جاتا کہ اب جو اسکے اپنے ذہن میں ہے وہ کہے گی  ۔۔ میری بات  نہیں سنے گی ۔۔۔او ر وہی ہوا ۔۔۔
وہ کہنے لگی ۔ ایک بات بتائیں  ۔۔ خواب دیکھنے کیلئے کیا عمر کی کوئی حد ہوتی ہے کیا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اسکے ذہن میں مچلنے  والا خلفشار  پہلا سوال بن کر میری اسکرین پر آیا ۔۔۔
" نہیں تو آپ سے کس نے کہا ''  میں نے دہرایا ۔۔
بس دھڑام سے دوسرا سوال آیا ۔۔۔یار یہ بتاو بندہ جیسے جیسے میچور ہوتا جاتا ہے ۔ اسکو دنیا  الگ  سی  کیوں  لگنے لگتی ہے ؟
میں نے مختصر جواب دیا کہ ۔۔۔۔  جب  انسان  ریئلٹی  ( حقیقت) کو محسوس کرتا ہے ۔۔ تو آج کی دنیا ۔۔اسکو اپنے کل کی دنیا سے الگ سی لگتی ہے ۔۔
اور پھر اسکے سوال مجھ پر جیسے    پتھروں کی صورت میں  برسنے لگے ۔۔
یار یہ بتاو کیا چیز ہے جو  انسان کو کسی  حال میں  بھی مطمئن  نہیں ہونے دیتی ؟؟؟ وہ اسی طرح مجھ سے فرینک  ہو کے بات کیاکرتی تھی ۔
میں  نے بتایا کہ انسان  جب سوچتا ہے  کہ کل  جس چیز کو   اس نے صحیح سمجھا تھا ۔ آج حالات  و واقعات  اور مشاہدات نے    اسکو غلط   ثابت کر دیا ہے ۔  ریئلٹی تو کچھ اور تھی ۔۔ حقیقت تو   مجھ پر  اب عیاں ہوئی ہے ۔  ۔۔۔ اسکے بعد گویا ۔ وہ حقیقت  ، اور اصلیت کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔ چیزوں کو دوسرے رخ سے پرکھنے  کی جستجو میں لگ جاتا ہے ۔۔۔ ۔۔ اور اصلیت جانچنے کی کوششش گویا  اسکی زندگی کا روگ بن جاتی ہے  اور  وہ کسی طور  مطمئن   نہیں ہو پاتا ۔

اور پھر میں  نے اس بات کو زرا    وضاحت سے  بتاتے ہوئے کہا کہ میں جب  ایک طالبعلم تھا  ، تو  اسٹوڈنٹ  لائف  میں ، طلبہ کے حقوق کیلئے جدو جہد کرنا میرا مشن تھا ۔۔۔۔اور میرا یہ مشن مجھے  اپنی زندگی سے عزیز تھا ۔۔۔۔میرے لئے موت و زندگی سوال تھا ۔۔۔۔ لیکن آج جب پیچھے مڑ کے سوچتا ہوں  ۔۔۔ تو ادراک ہوتا ہے کہ سب کچھ ایسا نہیں تھا ۔ زندگی و موت کا سوال تو  ہر گز نہیں تھا ۔۔۔
تو یہ جستجو ہوتی ہے ۔ جو ہمیں  ایک پل قرار نہیں  لینے   دیتی ۔ ہمیں    ہر دم ۔۔حقیقت   آشنا ہونے کیلئے  بے چین کئے رکھتی ہے ۔ اسے ہم سچائی کی تلاش  کا نام بھی  دے سکتے ہیں ۔
آپکا  مطلب ہے  کہ انسان کے خواب  اور  ترجیحات  وقت کے  ساتھ بدل جاتے ہیں ۔۔؟  ہاں  نا ؟۔۔۔۔   اس نے وضاحت چاہی ۔۔۔۔۔۔
لگتا تھا ۔۔ آج اس نے بھی   مجھے ادھیڑنے   کا  تہیہ   کیا ہو اتھا ۔
ہاں  بدل جاتی ہیں  ترجیحات  ۔۔۔۔۔لیکن اسکی وجہ وہی ہوتی ہے کہ حقیقت  اس پر منکشف ہو جاتی ہے ۔ میں نے مختصر جواب دیا ۔۔۔

میں نے کبھی پیسے کے بارے میں نہیں سوچا ، لیکن اب  سوچتی ہوں ۔۔۔لیکن اب میں  بہت سارا پیسہ کمانا چاہتی ہوں  ۔ڈھیر سارا پیسہ ۔۔۔پتہ  نہیں  میرا کیا ہونے والا ہے ؟۔۔ اور یہ کہتے کہتے وہ آواز کی جادو گرنی    پھر  اداس ہو گئی ۔
 اس نے گویا ایک خواہش کے روپ  میں اپنی ترجیحات اور    وشز  بتائی تھیں !
 میں  نے  لو ہا گرم دیکھا اور چوٹ مار دی ۔ کہ   ۔۔۔۔ہاں ہاں ۔۔ کماو ۔۔۔۔خوب سارا پیسہ ۔ ۔۔۔۔ کل کو جب  ڈھیر سارا  پیسہ کما لوگی ۔۔۔ تو آپ کو اسی پیسے سے نفرت ہو جائیگی ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ  حقیقت  کی تلاش  اور اسکی جستجو  ۔۔۔آپکی  ترجیحات  بدل دینگی  ۔۔۔ اور پھر آپ کبھی  مطمئن نہیں ہو پاؤگی ۔۔۔۔۔۔ اور  اطمینان  کی تلاش میں آپ کو پھر  یہ ڈھیر سا را پیسہ  مجھ جیسے  مسکینوں پہ خرچ کرنا پڑے گا ۔   
۔۔۔۔ بات اسکی سمجھ میں آ گئی تھی ۔ وہ اک ادائے دلربا ئی سے ۔۔ کہنے لگی کہ ۔۔ ہاں یہ تو ہے   ۔۔ درویشی  بھی کتنی مشکل ہے ۔۔۔اور دنیا داری بھی  ۔۔۔۔۔بندہ جئے تو ۔۔جئے  کیسے ؟
اب آئی نا آ پ  پوائنٹ پہ ۔۔۔  میں نے کہنا چاہا  ۔۔۔ میانہ روی ۔۔۔ بیچ کی راہ ۔۔۔۔ اعتدال کی راہ ۔۔ ۔۔ دین کی درویشی  بھی   اور ۔۔دنیا داری بھی  ۔۔۔۔۔اور دنیا داری بھی ایسی جو  آپ پہ کبھی حاوی نہ ہونے پائے ۔۔۔۔۔ آپ کی چاہتیں  آپکے پاوں  کی زنجیریں نہ بن پائیں ۔ ۔۔۔آپ کی محبتیں ۔۔۔آپ کی   شکل میں موجود خالق کائنات کی  تخلیق کو گدلا نہ کر  پائیں ۔۔۔۔آپ کے دل کا سرور   ۔۔اورخوشی۔۔  آپ کی پاکیزہ روح کو   ۔۔۔ میلا نہ ہونے دے ۔۔۔۔آپ کا  عشق  آپ کے اندر موجود   پاک  آسمانی چیز  کو ناپاک نہ کردے ۔۔۔  بس ایسی   میانہ روی ۔۔ ایسی دوستی ۔۔ ایسی دشمنی ۔ ایسی رشتہ داری ۔۔۔ بس سب کچھ یہی تو ہے ۔۔۔۔۔یہی تو زندگی کا راز ہے تم جس کی تلاش میں ہو ۔۔۔ جسکی جستجو تمہیں  بے چین کئے  رکھتی ہے ۔ جسکی تلاش  نے تمہیں بے کل کر رکھا  ہے ۔۔۔۔۔
  
اور پھر وہ حسینہ جیسے ھتھے سے اکھڑ گئی ۔۔۔۔ نہیں آتی مجھے   میانہ روی ۔۔ نہیں آتا  مجھے بیچ کی راہ پہ چلنا ۔۔۔میں انتہا پسند ہوں ۔۔۔ ہر بات  میں انتہا پہ پہنچنا چاہتی ہوں ۔۔۔
میں نے کہاں ۔۔۔۔ ہاں بعض اوقات    ہم سب انتہا پسند ہو جاتے ہیں ۔۔۔ لیکن ہمیں ہو نا نہیں چاہئے ۔۔۔ یہ انسان کی فطرت  ہے ۔۔کہ وہ ہر چیز میں  انتہا پہ جانا چاہتا ہے ۔۔۔۔بلندیوں کو چھونا  چاہتاہے۔۔۔۔آپ نے کبھی  ان  لوگوں  کو ٹی وی پہ کرتب دکھاتے دیکھا ہے ۔۔  جو  دو پہاڑوں کے بیچ سمندر کے اوپر  رسا باندھ کر   اس رسے پہ   بیلنس کرتے ہوئے   چلتے چلے جاتے ہیں ۔۔ انکے نیچے  سمندر  کی گہری کھائیاں  ہوتی ہیں ۔۔  بیلنس کی تھوڑی سی معمولی   غلطی بھی انہیں موت کی اتاہ گہرائیوں میں دھکیل  سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔  پر تمہیں معلوم ہے   موت کی وادی   میں رسی پر چلنے والے  اس گوشت پوست کے انسان کے پاس  کیا طاقت ہوتی ہے  جو اسے بے خوف کر دیتی ہے ۔۔۔۔موت سے بے پرواہ کر دیتی ہے ۔۔۔۔۔ وہ طاقت    ۔۔۔اسکا  اپنے اوپر اعتماد   ہوتا ہے ۔۔۔۔ اپنے اوپر  یقین ہوتا ہے ۔۔۔۔۔اسکا  کنفیڈینس   ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس  یہی  یقین اور اعتماد اپنی ذات  میں پیدا کرو ۔۔۔ اس یقین کو کبھی متذلزل  نہ ہونے دو ۔۔۔۔۔ میانہ روی  کا راستہ آسان ہو جائیگا ۔۔۔ آپ کو زندگی سے خوف نہیں آئے گا ۔۔۔ زندگی کی مشکلات  آپ کو  کبھی پریشان نہیں  کر پائینگی ۔۔۔۔۔ زندگی کے مصائب کو دیکھ کر  آپ کو مسکرانا آجائے گا ۔۔ بس بیلنس کرنا  سیکھ  لو ۔۔ توازن پیدا کرنا سیکھ  لو ۔۔۔
میرے جواب نے گویا  اسے کھونٹے  سے باندھ دیا ۔۔۔۔بھڑکتی  ہوئی آگ پہ پانی ڈال دیا ۔۔۔  کہنے لگی  ۔۔اگر پھر بھی نہ آیا تو ۔۔؟
میں نے کہا  کہ  ۔۔۔ پھر وقت ہمیں  سکھا دے گا ۔۔۔ وقت سے بڑا کوئی استاد نہیں ۔۔۔۔وقت سب سے بڑا ستاد ہے ۔۔۔۔کھرے اور کھوٹے کی تمیز بھی سکھا دیتا ہے ۔ چیزوں کی اصلیت بھی ہم پہ آشکار کر دیتا ہے ۔۔۔۔

کھڑاک سے ایک  اورسوال میرا منتظر تھا ۔
ہم  بڑے  کیوں  ہو جاتے ہیں ؟   ہم ہمیشہ  چھوٹے کیوں نہیں رہتے ؟

اس سوال  میں گویا  اسکی  بچپنے  کی واپسی  کی خواہش تھی ۔۔ میں نے  کہا  کہ ہم  بڑے نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔اس نے  حیران  ہو کر کہا ۔۔۔پھر ؟
میں نے جواب دیا ۔۔۔۔آپ  نے سنا ہے جب ہم  کسی اسٹور  سے کوئی   ایمرجنسی لائٹ  ۔۔ یا   ۔۔ ری چاراج ایبل ٹارچ  خریدتے ہیں ۔۔ تو اسکے ساتھ اسکا ایک مینوئل ہوتاہے ۔۔۔ جسمیں لکھا  ہوتا ہے  ۔۔۔ کہ انداز   500 مرتبہ  ری چاراج ایبل ہے ۔۔ یہ اسکی بیٹری  کی لائف کی نشاندہی ہوتی ہے ۔۔۔ جب ہم اسکو چارج کرکے  استعمال کر رہے ہوتے ہیں ۔۔ تو وہ اپنی  لائف کا ۔۔۔۔اپنی زندگی کا سرکل پورا  کر ہی  ہوتی ہے ۔۔۔۔ اپنا لائف ٹائم  سرکل  پورا کرنے کے بعد وہ بیٹری  ایکسپائر  ہو جاتی ہے ۔
بعینہ  ہم بھی اسی طرح اپنی زندگی  کا سرکل پورا کر رہے ہوتے ہیں ۔۔  ہم بڑے  نہیں ہوتے ۔۔ویسے کے ویسے  ہی رہتے ہیں ۔۔۔جب ہم اس سرکل میں چلتے  ہیں  تو چلتے چلتے ۔ ہمیں  سرکل کی دوسری جانب موجود چیزیں نظر آنا شروع ہوتی ہیں ۔۔۔ جیسے  ریل گاڑی   میں چلتے ہوئے  ہمیں   بہت سے منظر نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔اس سرکل میں چلتے  چلتے پہلے اگر ہمیں ایک چیز  کچھ اورمحسوس ہوئی تھی ۔ تو اب کچھ اور محسوس ہوتی ہے ۔۔۔ جیسے      دور سے  اندھیری رات  میں  کوئی سایہ  ہمیں بھوت نظر آتا ہے ۔۔ جب ہم اسکو قریب سے دیکھتے ہیں  تو  وہ بھوت نہیں آپکی طرح  ایک حسینہ ہوتی ہے ۔۔۔۔  بس ہم بڑے نہیں  ہوتے۔۔۔ سرکل میں چلتے چلتے  منظر بدل جاتے ہیں ۔ دور والی چیزیں قریب آ جاتی ہیں ۔۔۔بس صرف ہماری سوچ کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے ۔۔۔ہماری نظر کا زاویہ اور اینگل بدل جاتا ہے ۔۔۔۔  چیزیں ہمیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں ۔۔ حقیقتیں  ہم پر کھلنے لگتی ہیں  اور ہم سمجھتے  ہیں   کہ ہم بڑے  ہو گئے ہیں ۔۔۔۔ دراصل ہم  اپنے  ایکسپائری ٹائم  کی طرف بڑھ رہے   ہوتے ہیں ۔۔۔۔
 سنو  ۔۔۔اداس حسینہ   ۔۔۔ میں نے اسکو   ذیادہ متوجہ کرنے کیلئے کہا ۔
اس   کائنات   میں   اس زمین  پر جتنی بھی چیزیں  آپ کو نظر آتی  ہیں ۔  وہ سب مٹی سے  بنی ہیں ۔ اور انسان بھی ۔۔۔۔ چرند پرند ۔۔۔ گاڑیاں  ۔۔۔ بلڈنگیں ۔۔ ہوائی جہاز  ۔  غرض کوئی بھی  چیز  اٹھا کر  دیکھ  لو ۔۔۔ سب مٹی سے بنی ہیں ۔۔  انکی اصلیت  مٹی ہے ۔۔اگر کوئی  کسی دھات سے بنی ہے ۔ تواسکی اصلیت   بھی   آخر  میں مٹی  ہی  ملے گی ۔۔۔یہ سب  ایک دائرے  میں  اپنا کام کرر ہی ہیں ۔۔ اپنی زندگی کا سر کل پورا  کر رہی ہیں ۔۔۔۔۔ سب نے اپنا سرکل پورا  کرنا ہے اور واپس  اسی مٹی میں مل جانا ہے ۔۔۔ انسان کو بھی جب قبر  میں دفن کرتے ہیں  تو  کچھ عرصے کے بعد اسکی   باڈی مٹی  میں  مکس ہو جاتی ہے ۔ مٹی بن جاتی ہے ۔۔ جانور وں کو جب ہم کھاتے ہیں وہ  ہماری غذا بن کر  ۔۔۔ پھر ہمارے پیٹ سے نکل کر  ۔۔ پھر مٹی میں مل جاتے ہیں ۔۔۔۔اب  اس طرح سوچنا شروع  کرو  ۔۔۔ ہر چیز کو سو چو  اور خوب سو چو  ۔۔۔ آپ کو یہی جواب ملے گا ۔۔۔۔
اس کائنات  میں صرف  ایک چیز  ایسی ہے جو مٹی سے نہیں بنی ۔  اور وہ ایسی چیز ہے جو ہمیں نظر بھی نہیں  آتی ۔۔۔ ہے بھی ہمارے اندر ۔۔۔
چندا  یہ  ایک  ایسی چیز ہے  جو آسمانی ہے ۔۔۔۔ جو اس زمین پر اتاری گئی ہے ۔۔۔۔ یہ روح ہے   جو آسمانی ہونے کی وجہ سے پاکیزہ بن جاتی ہے ۔۔۔یہ اللہ پاک  کے نور کے ھزارویں  یا   لاکھویں   حصے  کی ایک  ہلکی سی چنگاری ہے ۔۔۔ جو ہمیں دی گئی ہے ۔۔۔یہ اللہ نے اپنی چیز  ہمیں دی ہے ۔  جو آسمانی ہے  جو پاکیزہ  ہے ۔۔۔۔ جب ہماری زندگی  کا سرکل پورا ہوتا ہے ۔۔۔۔فلم ختم ہوتی ہے ۔۔۔۔ تو یہ آسمانی چیز  واپس  اللہ تعالی  کے پاس چلی جاتی ہے ۔۔۔ کیونکہ یہ چیز یہاں کی ہے ہی نہیں ۔۔۔۔۔

بس  یہی  تو انسان  کو سوچنا ہے  کہ  جو چیز   آسمان سے  اتار کر  ہمیں  دی گئی ۔۔۔ پاکیزہ ۔۔۔۔۔ساف ستھری ۔۔۔ ہم اسکو  گندہ کر کے ۔۔۔ گدلا کر کے  پھر اللہ  میاں کے پاس  کیوں بھیجتے ہیں ۔۔ ہمیں تو اسکو صاف  ستھرا  کرکے چمکا کے واپس کرنا چا ہئیے نا ۔۔۔ جب ہم محلے میں  کسی گھر  سے  کوئی برتن  کچھ وقت کیلئے لیتے ہیں تو  اسے گندہ کرکے تو  واپس نہیں کرتے نا ۔۔۔  تو  اللہ کو  اسکی اپنی  پاکیزہ چیز۔۔۔ہم  گندی کرکے کیسے  واپس  کر رہے ہیں ۔ ۔۔

یہ لڑکی بھی شاید آج سب کچھ ہی اگلوانے کے موڈ میں تھی ۔ایک اور سوال داگ دیا ۔۔ کہنے لگی  کہ جب سب کچھ مٹی میں مل جانا ہیے ۔ تو یہ رشتے ناتے ۔۔ جاہ  و حشم کی طلب ۔۔ پیسے  کی محبت ۔۔ محبت نفرت ۔۔ حسد ۔۔کینہ۔۔۔  یہ سب کیا ہے پھر ؟

اسکے سوال نے  مجھے ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کردیا ۔۔۔۔آج یہ واقعی میرا دماغ  گھمانے  کے چکر میں تھی ۔۔۔۔۔ دماغ پر زور دیا تو کھڑاک سے ایک جواب آیا ۔۔
اور میں نے اس  سے کہا  کہ سنو پاگل  لڑکی ۔۔۔۔ تم نے کبھی ایکسرے دیکھا ہے ۔۔۔ ؟ کہنے  لگی ۔۔۔ ہاں !
دیکھو  آپ اپنے سامنے دو ایکسرے  رکھو ۔۔ ایک  اس بچے   کے پھیپھڑوں  کا جس کی پیدائش  کل ہوئی ہو ۔۔۔ اور  ایک اس سے  بڑی عمر کے آدمی کے پھیپھڑوں کا ۔۔ جو چین اسمو کر ہو ۔۔۔ آپ دیکھو گی  کہ  بچے کے پھیپھڑوں کا  ایکسرے صاف ستھرا  ہوگا  اور  چین اسموکر  کے پھیپھڑ ے  پورے کالے  اورسیاہ ہونگے ۔۔ سگریٹ کے ایک ایک  کش  نے اسکے پھیپھڑوں پہ اتنے داغ ڈالے ہونگے  کہ اب وہ پورا  داغدار ہوکر  بلکل سیاہ ہو گیا  ہوگا۔۔۔۔
بلکل  اسی طرح  ہماری روح  جب ہم پیدا ہوتے ہیں  ۔ تو اس بچے کے پھیپھڑوں کی طرح پاک صاف ہوتی ہے ۔۔، جب ہم گناہ کرتے ہیں  تو ہماری اس پا کیزہ صاف ستھری روح  پر ایک دھبہ   لگ جاتا ہے ۔۔۔۔ سیاہ داغ پڑ جاتا ہے ۔۔۔  پھر  داغ  پڑتے پڑتے  پوری  روح سیاہ ہو جاتی ہے ۔۔ اور پھر  ہم وہی گندی روح ۔۔۔  گدلی روح اللہ پاک   کو  واپس کر دیتے ہیں ۔۔۔آسمان   کی طرف بھیج دیتے ہیں ۔ کیونکہ وہ تو وہیں کی چیز ہے  نا ۔۔۔ وہیں سے آئی تھی نا ۔۔۔   تو حسد سے  ۔۔،  کینے   سے ۔۔۔ نفرت سے ۔۔۔۔غیبت سے  ۔۔ برائی سے ۔۔ پیسے اور  جاہ حشم کی محبت  ان سب چیزوں سے۔ اس پہ سیاہ دھبے بڑھتے جاتے  ہیں ۔    تو بس   نتیجہ  یہ نکلا  پاگل لڑکی کہ  سب نے   اپنا  سرکل پورا کرکے مٹی بن جانا ہے ۔ اور روح نے سرکل پورا کرکے  واپس آسمان پہ جانا ہے۔

وہ مسحور کن آواز والی حسینہ کہنے لگی ۔۔ کہ پھر تو ۔۔جو لوگ اپنے رب سے لو  لگاتے ہیں ۔  استغفار کرتے ہیں ۔ انکی روح  سے تو اللہ پاک کثافت دور  کر دیتا ہے   نا ۔۔۔۔؟  
میں نے  جواب دیا  ۔۔ بلکل ۔۔۔ اسکی ٹیوننگ ہو جاتی ہے ۔۔۔۔ جیسے ہم گاڑی  کی ٹیوننگ  کرتے ہیں ۔۔۔ تو کچھ عرصہ اور  نکال لیتی ہے وہ ۔۔ ٹیوننگ سے جیسے گاڑی کے کاربیٹر کی کثافت دور ہو جاتی ہے بلکل اسی طرح روح کی کثافت بھی دور  ہو جاتی ہے ۔

وہ  بے اختیار  کہہ گئی   کہ ۔۔۔۔۔پہلے تو آپ ایسے نہیں تھے ۔۔۔۔
اورپھر  کہنے لگی  ایک فرمائش کروں آپ سے ؟
میں نے کہا  ۔۔۔۔ پتا  نہیں  میں پوری کر پاوں یا  نہ  کر پاوں ۔۔ آپ  کہیں ۔
تو  اس نے کہا کہ آپ کہانی لکھا کریں ۔۔۔۔۔۔۔ اور آج میں نے  کہانی  لکھ کر  اسکی  فرمائش پوری کردی ۔۔۔۔۔۔۔