Monday 11 November 2013

المیے سے ۔۔۔۔ امید تک ۔1




سیلاب  2010 کی یادیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری ڈائری سے۔1

ہم نے  سیلاب  زدہ علاقوں میں جانے کی تیاریاں  تین دن سے شروع کر رکھی تھیں ۔ گرمیوں کے دن تھے ۔ ہلکے کپڑے  رکھنے تھے ۔ اور جیو کی ٹریننگ میں سکھائی گئی ایک چیز یاد آگئی  کہ  فیلڈ کیلئے  سب سے بہترین  لباس جینز   اور جو گرز ہیں  ۔ ہو سکتا ہے  کام کے دوران مٹی پہ بیٹھنا پڑے ۔ سیلابی پانی میں چلنا پڑے ۔ لیکن ایک بات نے پریشان کردیا کہ سیلابی علاقوں میں   بجلی کا نظام  درہم برہم ہوگا ۔  تو موبائل کیسے چارج ہونگے اور کمیو نیکیشن کیسے ہوگی ؟ یہ سوچ کر الیکٹرونک  مارکیٹ  پہنچے۔ اور اس مسئلے کے حل  کی کوئی چیز تلاش کرناشروع  کی ۔ آخر ایک دکاندار سے ایک ایسی ٹارچ مل گئی ۔  جس سے بوقت ضرورت آپ موبائل بھی چارج کر سکتے ہیں ۔ ٹارچ کیا ملی ۔ گویا  روشنی کی کرن  نظر آگئی  اور مشکل حل ہو گئی ۔ یہ مشکل حل ہوئی تو دوسری  منہ کھولے ہماری بے بسی پہ مسکرا رہی تھی ۔  اور وہ یہ کہ  فور بائی فور  گاڑی کراچی میں کہیں بھی دستیاب نہیں تھی ۔ کیونکہ  ساری گاڑیاں   سیلاب  کے موسم میں اپنی دکان چمکانے کیلئے  این جی اوز  نے اٹھا لی تھیں ۔  آخر کار اللہ اللہ کرکے ہمیں ایک گاڑی ہاتھ آہی گئی۔ اور جب سورج اپنی  شعائیں کھل کے  برسا رہا تھا ، ہم کراچی سے روانہ ہوئے ۔  ارادہ تو سکھر جانے کا تھا ، لیکن سوچا کہ  سکھر پہنچتے پہنچتے شام ہو جائے گی ۔ اور آج کا دن بغیر کام کے گذر جائیگا ۔ یہ سوچ کر فیصلہ کیا کہ دادو اور مورو  کے کچے کے علاقے کے   متاثرین سیلاب کے ساتھ کچھ وقت گذار کر آگے بڑھا جائے ۔  یہی سوچ کر  ہم مورو سے  مغرب میںدریائے سندھ کی جانب روانہ ہوئے ۔  مورو  اور دادو  ۔۔ دونوں جڑواں شہر  ہیں ۔ بلکل آمنے سامنے ۔ مورو  دریائے سندھ کے  مشرقی سائڈ    اور  دادو     دریائے  سندھ کے  مغربی کنارے  پر۔  دونوں شہروں کو ملانے کیلئے   دریا پر   ایک ۲ کلو میٹر  پل تعمیر کیا گیا ہے ۔  اور ہم اسی پل کی جانب  رواں تھے ۔
دریا اپنے پورے جوبن پر تھا ۔   آج دریا  بہت پر جوش بھی تھا ۔  کہ اسے جلد از جلد سمندر   سے ملنا تھا ۔سمندر ہی تو اسکی منزل تھا ۔سمندر ہی دریا کی محبت ہے۔ منزل  کی جستجو  اور  وصل کی آرزو میں  ہم دوسروں کی خوشیاں بھول جاتے ہیں ۔  ہماری راہ میں جو بھی آتا ہے  ہم اسے  تہس نہس کر دیتے ہیں ۔   دریا کنارے کھڑا میں یہی سوچ رہا تھا   کہ اس دریا کو بھی سمندر سے وصل کی کتنی جستجو  ہے ۔ کتنا شوق ہے ، کتنی آرزو ہے ۔  کہ اگر  یہ جلدی اپنے محبوب   تک نہ پہنچا تو شاید  کوئی اسے روک لیگا ۔  اور اسی جوش میں اس دریا نے کتنی ہی  ہنستی بستی بستیوں کو ویران کیا تھا ۔ کتنے ہی گھروں کو اجاڑا تھا ۔ جو اسکی  راہ میں حائل ہوا  اسے اکھاڑ کر پھنک دیا  ۔۔یا  اسکے وجود کے ٹکڑے اپنے ساتھ لئے لئے  پھرتا رہا ۔ ۔۔۔ مضبوط سے مضبوط چیز کو بھی تنکوں  کی طرح    بہا لے جاتا ہے یہ دریا ۔۔۔شاید اپنے محبوب سمندر کو دکھانے کیلئے  کہ دیکھو  تجھ سے ملنے کیلئے  میں نے کیا کچھ کر ڈالا ۔۔۔۔۔۔ وقت  بھی تو دریا کی طرح ہی ہے نا ۔۔۔ انسان کو  تنکوں کی طرح بہا لے جاتا ہے ۔۔۔اور آج ان ا نسانوں پہ ایسا  ہی وقت آیا تھا ۔
  پانی  دریا کے بچاو  بند سے ٹکرا رہا تھا ۔  اور کچے کے اس علاقے میں موجود اندازا 30 گاوں  کے ھزاروں مکین  اپنے گھروں کو ڈوبتا چھوڑ کر  بند پر آکر بیٹھ گئے تھے ۔   اس لمحے میرے ذہن میں خیال آیا کہ انسان  کتنا  خود غرض ہے ۔   جس  گھر کو بنانے کیلئے  وہ پوری زندگی داو پر لگا دیتا ہے ۔ جس کی تعمیر کے  لئیے   حلال  حرام کی تمیز کھو دیتا ہے ۔ جس کے لئے مرنے مارنے پہ تیار ہو جاتا ہے ۔  جب جان پہ بن آتی ہے تو سب کچھ  چھوڑ چھاڑ کے     بھاگ  کھڑا ہوتا ہے ۔ اور پھر کنارے  پہ کھڑے ۔ بہتے آنسووں کے ساتھ سب کچھ ڈوبتا ہوا دیکھتا ہے ۔  اور اس وقت اسکو اس دنیا کی بے سرو سامانی یاد آتی ہے ۔
ہم نے دیکھا  کے  ان لٹے پھٹے انسانوں  کے پڑاو کے نذدیک حکومتی مشینری نے  کچھ ٹینٹ  لگا کر  اپنی دکان بھی کھول  لی تھی ۔  جو لوگ کبھی اپنے پکے گھروں  میں آسودہ حال تھے ، آج بے گھر  ، بے یارو مدد گار اور بے حال تھے ۔  گھروں سے بے گھر اور  کھلے آسمان تلے موجود ان لوگوں  میں اگر کوئی امید کی کرن ہمیں نظر آئی تو وہ یہ کہ کبھی تو دریا  اترے گا اور یہ سب  اپنے گھروں کو لوٹینگے ۔
یہیں  دریا کنارے ہم نے ایک 18 سالہ نوجوان کی نعش رکھی دیکھی ۔  جو کسی سرکاری یا غیر سرکاری یمبو لینس کے انتظار میں تھی ۔  شدید  گرمی اور حبس میں جہاں  ہمارے کپڑے  بھی تقریبا  بھیک چکے تھے ۔  یہ لاش دھوپ میں رکھی تھی ۔  اور اسکی بوڑھی ماں نے   شاید  اپنے آنچل  سے اس پر کچھ سایہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔ ماں   ۔ جو  زندگی بھر  اپنے بچے  کو زمانے کے گرم و سرد سے بچاتی ہے ۔ اور تحفظ کی اسی جستجو میں اپنی پوری زندگی بتا دیتی ہے  ۔ آج  مرنے کے بعد بھی اپنے بچے کو   سورج کی  تپش سے بچا نے کی کوشش میں مصروف تھی ۔  ایک ایسی بوڑھی عورت۔۔۔۔  جسکے چہرے کی چمک کو افلاس کا میل کھا چکا تھا ۔ اور  محرومیوں کی داستان  اسکے جھریوں بھرے چہرے سے عیاں تھی ۔
پوچھنے پر معلوم ہوا کہ  نوجوان کا نام صدام حسین تھا ۔قریب ہی ہمیں اسکی بہنیں  بھی بین کرتی ہوئی نظر آگئیں ۔ صدام حسین کی ماں نے بتایا کہ جب سیلاب آیا  تو فوجی جوانوں   نے سب سے پہلے  بچوں اور خواتین کو  نکالا ۔ اور اسکے بعد مردوں  کو ۔۔ لیکن جنکی جمع پونجی پانی کی نذر ہو گئی تھی ۔ وہ اپنے مال مویشی اور سامان  چھوڑنے  کو تیار نہ تھے ۔ اور صدام حسین بھی ایسے ہی لوگوں کی صف میں تھا ۔ اور جو شخص سامان کے بغیر  نکلنے پر تیار نہ تھا  اسے وہیں چھوڑ دیا گیا ۔  صدام حسین بھی اپنے گرے ہوئے گھر کے چھپروں پر کمر تک  پانی میں ڈوبا ۔۔۔موجود تھا ۔۔۔کہ اسے سانپ نے کاٹ لیا ۔ ۔۔ شاید سانپ کو بھی کوئی پرانا  بدلا آج چکانا تھا ۔  یا اس نے آج صدام حسین کو   قدرت  کے آگے بے بس پاکر حملہ کیا تھا ۔  صدام حسین کو  ایک اور کشتی کے زریعے   دریا کے بچاو بند تک لایا گیا ۔ اور جگہ جگہ  میڈیکل کیمپ کے نام پر  کھلی دکانوں  میں گھمایا گیا ۔ لیکن  سانپ کا کاٹا  ایک ڈرپ  سے بھلا کہاں  جانبر ہو سکتا تھا ۔۔۔۔ سو یہی ہوا ۔۔۔  اور صدام حسین اپنی  جمع پونجی اور مال مویشی کی محبت  میں جان کی بازی ہار گیا ۔۔۔۔۔  ہائے رے محبت  تیرے روپ ۔۔ دریا کی محبت سمندر سے ۔۔۔۔  ماں کی  محبت  بیٹے سے ۔۔۔ بیٹے کی محبت  اپنے مال مویشی سے ۔۔۔۔ اپنے جوان سال  بیٹے کی کہانی سناکر بوڑھی اماں  پھر بین کرنے لگی ۔ اور غم کے ھاتھوں نڈھال ہوگئی ۔  جو گذرشتہ ایک گھنٹے سے اپنے جگر گوشے کی لاش کو   دھوپ میں رکھ کر کسی ایمبو لینس کی منتظر تھی ۔۔۔۔۔  اور ہم  ۔۔۔۔  ہم کہ ایک حساس دل رکھتے ہوئے بھی ۔۔ بے حس بن کر  آگے بڑھے ۔۔۔۔کہ ہمیں تو اور  کہانیاں  بھی ڈھونڈنی تھیں ۔ 

1 comment:

  1. سیلاب کہانی سے محبت کہانی تک کی اس روداد میں انسان کی اصلیت نظر آئی، دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والا دل ہو تو ہر موڑ پر جابجا بکھری کہانیاں قدم روک لیتی ہیں۔ اسی طرح اپنے قلم سے سوچ کے موتی بکھیرتے رہیں۔ دریا کی روانی دھیمی رفتار سے جاری رہے تو زمین کی زرخیزی برقرار رہتی ہے۔

    ReplyDelete