Friday 15 November 2013

المیے سے ۔۔۔۔ امید تک ۔۔3

سیلاب  2010 کی یادیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری ڈائری سے- 3



جب قدرتی آفات اور ڈزازسٹر کا زمانہ ہو تو ایک صحافی کی زندگی بھی فوجی زندگی بن جاتی ہے ۔۔۔۔ صبح ۔۔۔سورج کو کرنیں بکھیرنے  سے پہلے فیلڈ میں پکڑنا ۔۔اور پھر   سورج کی آخری چنگاری تک اپنی محنت میں جتے رہنا ۔ اور مغرب کے بعد  اپنے بیس کیمپ ۔۔۔یا۔۔۔یوں  کہیں سونے کے ٹھکانے کی طرف سفر کرنا  ۔۔۔۔۔اور تھک  ہار کر  رات 12  بجے جب  سونے کے لیے لیٹو تو   ۔۔۔۔ایک تھکے ہوئے   جواری کی طرح ۔۔۔۔دو جمع  دو ۔۔۔کرتے ہوئے  ،   اپنے دن کا محاسبہ کرنا کہ آج کتنا کام کیا اور  کل کی پلاننگ ۔ ۔۔۔۔ہمارا بھی یہی معمول تھا ۔
ہم نے  کل دریائے سندھ کے اندر  سفر کرنا تھا ۔ اور سیلاب کے زمانے میں دریا  کے بیچ سفر کرنا  شاید خطرات سے خالی نہیں تھا ۔ پر  جو بھوت سر پر سوار تھا  ۔ اسے ٹھکانے تو لگانا تھا۔۔۔۔ ۔ سیلابی حالات  میں کسی  کشتی  پر نہ تو  دریا میں  سفر کیا جا سکتا تھا ، اور نہ ہی کوئی بھی ماہر ملاح یہ خطرہ  مول لینے کیلئے آمادہ  تھا ۔
اس مقصد کیلئے ہم نے اپنی فون ڈائری کو ٹٹولنا شروع کیا  تو نیوی کے ایک پرانے مہربان کا نمبر  نظر آگیا ۔ صحیح وقت پر   موزوں بندے کا نمبر کیا ملنا تھا  ۔۔۔۔گو یا جوہری کو ہیرا ہاتھ اگیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔طے یہ ہوا  کہ  رسکیو کاموں میں مصروف  نیوی کے  ہاؤرکرافٹ   کے اندر ہمارے لئے دو افراد کی گنجائش نکالی جائیگی ۔   اورپھر پروگرام کی جذئیات طے کرتے  کرتے ، رات کے 12  بجتے  ہی  ہم ایسے لیٹے کے دوسرے ہی لمحے   نیند کی وادیوں میں تھے ۔
دوسری صبح  ہم نیوی کی ٹیم کے  ہمراہ   ایک نئےمحاذ پر جانے کیلئے  تیار تھے ۔۔۔۔
آج ہمارا ارادہ  دریائے سندھ کے اندر سکھر سے  شمال مشرق کی طرف  70  نائیٹیکل مائل  پر واقع کھڈاری گاؤں تھا ۔  جسکا محل وقوع   ۔۔۔اور  دریائے سندھ کے بلکل درمیان  میں ہونے کی وجہ سے  اسکی حساسیت۔۔۔۔۔   ہم پہلے ہی نقشوں کی مدد سے  ڈسکس کرچکے تھے۔۔۔۔ ۔  ہاؤر کرافٹ میں سوار ہونے سے پہلے ہم  نے لائف  جیکٹس پہن لیں ۔ تاکہ کسی بھی  خطرناک صورت  حال میں ۔ اپنا   بچاؤ کیا جا سکے۔۔۔۔ ۔ ہاؤرکرافٹ کا  پائلٹ دھیمی رفتار سے  دریائے سندھ  کے بہاؤکی مخالف سمت میں ہاؤر کرافٹ کو  ہانک  رہا تھا  ۔۔۔۔۔لیکن لگتا تھا  کہ انسانی  صناعی ۔۔۔سیلابی  دریا کی شکل میں موجود ۔۔۔  قدرت  کی طاقت سے  مار کھا رہی تھی۔۔۔ ۔  دریا کا منہ زور پانی  کا بہاؤ۔۔۔بار بار   ہاؤر کرافٹ کی اسپیڈ توڑ  کر  اسکا  رخ  دوسری جانب موڑ دیتا ۔۔۔۔ پائلٹ    کی  پریشانی ۔۔۔اسکی  پیشانی  سے واضح جھلک رہی تھی ۔  آخر کار اسے اپنی ٹریننگ   سے  کام لینا  پڑا ۔۔۔ اور اس نے  بپھرے دریا کے منہ لگنے کے بجائے ۔۔ ۔۔ جہاں  بہاؤ  کا دباؤکم تھا اس طرف سے  ہاؤر کرافٹ  کو آگے بڑھانا شروع  کیا ۔  اور  پائلٹ کی یہ کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوتی  ہوئی نظر آ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔  جیسے جیسے دریا کا پاٹ چوڑا ہوتا گیا    ۔۔۔۔پانی میں سمت کا اندازہ کرنا مشکل ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ''کو
پائلٹ ''نے کمپاس اور نقشوں کی مدد سے    پائلٹ کی مدد کرنا شروع  کی ۔۔۔۔۔۔
اور پھر کوئی  دو  گھنٹے  کے سفر کے بعد  ہمیں دور سے    دریا  کے اندر ایک گاؤں  کے آثار  نظر آنا شروع  ہوگئے ۔  گاوں کیا تھا ۔۔۔۔دور سے درختوں کے اندر گھرا  ہوا ۔۔۔۔۔اور  سارے درخت بھی مکمل طور پر پانی میں ڈوبے ہوئے۔۔۔۔جنکا صرف اوپر کا آخری  سرا ہی دکھائی دے رہا تھا ۔۔ اور گھر ۔۔۔۔کچھ یہی ماجرا   گھروں کے ساتھ بھی تھا ۔ جنکی   صرف چھتیں نظر  آ رہی ہیں ۔ دیواریں مکمل طور پر پانی میں ڈوبی ہوئیں۔۔اور  ان چھتوں پر  میرے ملک کے باسی ننگے بدن  ۔۔۔۔۔جسم پر صرف دھوتی باندھے ۔۔ موجود تھے ۔۔۔ان چھتوں پر انکا بچا کھچا  سامان بھی موجود تھا ۔ ایک  آدھ بچ جانے والی مرغیاں اور بکریاں  بھی سہمی ہوئی  ان چھتوں پر  انسانوں کے ساتھ کنڈلی مارے نظر آئیں ۔۔۔۔۔   بیشک  انسان بڑا ظالم اور سخت کوش ہے ۔۔۔۔۔۔۔
دریائے سندھ کے  پانی میں  مکمل طور پر  ڈو با ہوا یہ کھڈاری گاؤں  تھا  جو سانگی کے قریب واقع ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ ۔۔۔۔سیلاب آنے کے بعد  اس گاؤں  کے تمام  افراد اب تک اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھے اپنے بچے کھچے سامان کی حفاظت کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔۔ ہمیں نظر  آیا کہ انکے پاس ایک چھوٹی کشتی تو موجود  تھی ۔۔۔۔جو موٹر کے بغیر چپو کی  مدد سے چلتی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔لیکن دریا کے تیز بہاؤ  میں اسے لے جانا ممکن نہیں۔۔۔۔۔۔  ہاؤر کرافٹ  کی آواز  سن کر   یہ  لوگ اپنے گھروں کی چھتوں  سے اتر کر  اس کشتی کے زریعے   ہاؤر کرافٹ کے نزدیک آگئے ۔ اگرچہ یہ لوگ موت کی تلخ حقیقت کو گھر کی دہلیز پر دیکھ  رہے تھے  ۔ اور انکے سامنے زندہ رہنے کیلئے اندیشے سوال بن کر کھڑے ہو گئے  تھے ۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔ہمارے اور نیوی کے جوانوں  کے لاکھ سمجھانے بجھانے  کے با وجود بھی ۔۔۔۔ان میں سے 4 افراد کے علاوہ باقی نے اپنے گاؤں سے نکلنے سے انکار کرد یا  ۔ کیونکہ وہ کشتیوں میں آنے والے لٹیروں سے اپنے گھروں میں موجود سامان کو بچانا چاہتے  تھے ۔
اور  ہاؤر کرافٹ    کے ڈیک پہ کھڑا میں سوچنے لگا ۔۔۔ ہائے رے انسان   تیری محبت  کے پیمانے ۔۔۔۔ ۔۔سیلابی  پانی میں جہاں سانسوں کی ڈور   قائم رکھنے کیلئے   بھی  جان کے لالے پڑے ہوں ۔۔۔۔۔ موت بلکل حقیقت  کی طرح  انساں  کے سامنے عیاں ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔ انسان  اپنے  مال و متاع   چھوڑنے کیلئے  آمادہ نہیں تھے ۔۔۔۔ اور دوسری جانب ایسے بھی تھے جو اس قدرتی  آفت کے دوران بھی چوری چکاری سے باز  نہیں آ رہے تھے ۔۔۔۔۔ اور  یہ چوریاں بھی  دریا  کے اندر کشتیوں  کے زریعے  ہو رہی تھیں ۔۔۔ ۔۔اور میں سوچنے لگا کہ   ۔۔۔انسان   کا من نہ مانے  ۔۔۔۔ اسکا اندر نہ چاہے۔۔۔ تو   قدرت کی تنبیہات   بھی اسے سدھارنے کا کام نہیں کر سکتیں ۔۔۔۔۔
تباہی کے آثار نظر آنا الگ بات ۔۔۔۔۔ اور تباہی کو قریب سے دیکھنا بلکل الگ بات ۔۔۔  ہمیں  نظر آنے والے یہ خالی گھر اپنے اوپر گذرنے والی قیامت کا پتہ دے رہے تھے ۔بظاہر یہ گھر سلامت نظر آ رہے تھے  ۔ لیکن پانی میں ڈوبی انکی دیواریں کمزور ہو چکی تھیں۔ یہاں جگہ جگہ خالی گھر بتا رہے  تھے کہ۔۔۔۔۔ تباہی کا آسیب   ہنتی بستی زندگیوں کو روند چکا ہے۔۔۔ ۔ باقی بچ جانے والے اب بھوک اور بیماری کے چنگل سے پیچھا چھڑانے میں مصروف  تھے۔
نیوی اہلکاروں نے  ہاؤر کرافٹ سے  ان میں امدادی اشیاء  تقسیم کیں ۔ اور دریا  سے نکلنے   پر آمادہ  افراد  کو لیکر   ہم نے ایک بار پھر واپسی  کا راستہ ناپا ۔ ۔۔۔دریا  میں سفر کرتے میں نے اپنی ڈائری  کے نوٹس پڑھنا شروع  کئے جس میں حکومتی  اعداو  شمار کے گورکھ دھندے تھے ۔ 
حکومت وقت کے مطابق سیلاب سے سے مجموعی طور پر ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔ 1600 سے زائد انمول زندگیاں پانی میں بہہ گئیں ۔ جبکہ انفرا اسٹرکچر ، مویشی اور فصلوں کو ہونے والا نقصان 4 سے 6 ارب ڈالر لگایا گیا ۔سیلاب سے صوبہ خیبر پختونخوای کے 24 اضلاع ، سندھ کے 19 ، پنجاب کے 12 ، بلوچستان کے 10 اور گلگت بلتستان اور کشمیر کے 7.7 اضلاع متاثر ہوئے ۔ اعدادو شمار کے گورکھ دھندوں کے ماہرین کے مطابق سیلاب سے تیرہ لاکھ اسی ھزار پر کھڑی فصلیں اور بارہ لاکھ سے زائد مکان تباہ ہوئے ۔ جبکہ بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 75 لاکھ ہے ۔ 4 ھزار کلومیٹر سے زائد سڑکیں اور 1 ھزار پل دریا کے منہ زور پانی میں بہہ گئے ۔
 لیکن یہ سب اندازے  تھے۔ جو ڈی سی اوز اور ڈی ڈی اوز کے دفاتر میں بیٹھ کر لگائے گئے  اور  میں  سوچنے لگا کہ ۔۔۔۔ اس ملک کے حکمراں پچھلے 60 سالوں میں ایسا کوئی پیمانہ ایجاد نہیں کر سکے ۔ جن میں غریبوں اور انکی غربت کو ناپا جا سکے ۔۔۔۔کہ کتنے ہیں۔۔۔۔۔ ، مر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ یا جیتے ہیں۔۔۔۔ ۔ اقتدار کی بارگاہوں تک رسائی رکھنے والوں نے کبھی انکی صحیح تعداد جاننے کی کوشش نہیں کی ۔ ۔۔۔۔۔۔
رسکیو کا کام   ۔۔۔اب امدادی   مرحلے میں  داخل ہو رہا تھا ۔۔ اور اسکے بعد  لٹے پھٹے افراد کی بحالی کا مرحلہ  بھی آنا تھا ۔۔۔۔لیکن  سیاسی کارندو ں کی اس حکومت میں  ۔۔ان حکمرانوں میں ہمیں ایسا کوئی نظر نہیں آیا جو سیل زمانہ کا شناور ہو۔۔۔۔جسے اس مشکل گھڑی میں ہم نے اپنے عوام کے درمیان پایا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment