Friday 8 November 2013

دائروں کا سفر


ہم وہ قوم ہیں  جو دائروں میں سفر کرتی ہے ۔  اور دائروں کا کبھی کوئی آغاز اور کوئی اختتام نہیں  ہوتا ۔  جیسے موت کے کنویں کا دائرہ ۔ کولہو کے بیل کا دائرہ ،  مولوی کی مسجد کا دائرہ ۔    
اور دائروں کا یہ سفر نہ ختم ہونے والا سفر ہوتا ہے ۔   جب دائروں کا سفر لا متناہی ہے تو ایسے سفر کی کبھی کوئی منزل نہیں  ٹہرتی ۔ اور جس سفر کی کوئی منزل نہ ہو ، اس راہ کے مسافر  کبھی   آشنائے راز نہیں ہو پاتے ۔   سفر اور  راہ ، یہاں تک راہ رواں بھی  اسکے لئے ایک بھید بن جاتے ہیں ۔ جسےدائروں کے مسافر کبھی کھوج نہیں پاتے۔۔۔ جان نہیں پاتے ۔ ۔اس لئے دائروں کا یہ سفر دنیا کا سب سے برا بھید بھی ہے ۔
اور پاکستانی قوم کو بھی کولہو کے بیل کی طرح  دائروں کے اس سفر میں الجھا دیا گیا ہے ۔کبھی اسے سمجھایا جاتا ہے ۔ مظلوم مسلمان بھائیوں کیلئے لڑنا جہاد ہے ، تو کبھی اسے کہا جاتا ہے ۔ کہ پرائے معاملات  میں  ٹانگ  اڑانا  دہشت گردی ہے ۔  کبھی اسے بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں بسنے والا مسلمان  تیرا بھائی ہے تو کبھی کہا جاتا ہے ، سب سے پہلے پاکستان ۔  کبھی اس پہ تیس لاکھ مہاجرین کا بوجھ  لاد دیاجاتا ہے ۔ تو کبھی ایک سفیر کا بوجھ بھی برداشت نہیں کیا جاتا اور دنیا کے سارے مسلمہ اصولوں کو نظرانداز کرکے اسے غیروں کے ھاتھوں بیچ دیا جاتا ہے ۔
 کبھی اخبار میں ایک خبر لگانے والا ، اور بلوچستان کے پسماندہ علاقے کا  ایک  روٹی مانگنے والا  غدار ٹہرتا ہے ،  تو کبھی   44ملکوں کے ایجنٹوں کو  ویزے جاری کرکے انہیں غدار بھرتی کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے  
کبھی کمشنری نظام ، کبھی ضلعی نظام حکومت ،  پھر کمشنری سسٹم اور پھر وہی ضلعی  بلدیاتی نطام ۔ وہی دائرے کا سفر ۔
شاید  یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہر شخص  نے اپنی ذات کےگرد ایک دائرہ  کھینچ دیا ہے ، اور وہ کسی کو اپنے دائرے میں جھانکنے  نہیں دیتا ۔ یہ دائرہ  اسکے لئے مسجد کی طرح مقدس  بن گیا ہے ۔ اور انہی دائروں میں رہتے رہتے ہم نے شاید خود کو انہی دائروں کا قیدی بنا ڈالا ہے ۔ زندگی کو مختلف  دائروں میں بانٹ دیا ہے ۔ ایک مذھب کا دائرہ ۔ ایک سیاست کا دائرہ ۔ ایک معیشت کا دائرہ ۔ کوئی بھی کسی کو بھی اپنے دائرے میں گھسنے نہیں دیتا اور دوسرے کو اپنے دائرے میں آنے نہیں دیتا ۔ ایسا لگتا ہے ۔ ہم دائروں کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں ۔ شاید کبھی دائروں سے  نکل کر دیکھیں تو ایک دوسرے کو سمجھ سکیں ۔ 
اگر اپنے دائروں سے نکل نہ سکیں تو کم از کم اپنے دائرے دوسروں کے دائروں سے ملا ہی دیں ۔ تو شاید ہمارے دائروں ہی میں کچھ طاقت آ جائے ۔ بھنور کے دائرے بھی تو ایک دوسرے سے ملے ہوتے ہیں ، جڑے ہوتے ہیں ۔ کتنے مضبوط ہوتے ہیں ۔ ہلا کے رکھ دیتے ہیں ۔   
   دائروں کے اس سفر کی  کوئی سمت نہیں ، کوئی منزل نہیں ۔ اور اب تو  میڈیا کے زریعے  کولہو کے بیل کی آنکھوں پہ پٹی بھی باندھ  دی  گئی ہے ۔  اب جہاں چاہو  جس طرح چاہو  اسے گھماو ، جس طرح چاہے  چلاو  ۔  یہ قوم ہمیشہ  یہی سمجھے گی کی یہ آگے کی طرف بڑھ رہی ہے ،  سفر  کٹ رہا ہے ۔   لیکن  اسے کون سمجھائے کہ دائروں کے سفر میں  ، سفر کبھی نہیں کٹتا ۔۔ کون بتائے  کہ دائروں کا سفر  ، سفر ہی نہیں ہوتا ۔   ۔اب اس قوم کے لئے  سفر ، اور راہ  ۔۔یہاں تک کے  راہ رواں بھی ایک بھید  بن چکے ہیں ۔


1 comment:

  1. اپنے قلم سے لکھا پہلا لفظ ،پہلی تحریر،ہماری زندگی میں آنے والے ننھے مہمان کی طرح ہوتا ہے ،جو ہمیں اپنی نظروں میں معتبر بنا دیتا ہے دوسروں کی ستائش اور توجہ سے بے نیاز ۔ روانی اور سچائی کی نوید دیتی آپ کی یہ پہلی تحریر زندگی کے دائرے کو امید کے دائرے میں سموتی محسوس ہوتی ہے ۔ پڑھتے چلیں Ghulam Mustafa

    ReplyDelete