Tuesday 12 November 2013

المیے سے ۔۔۔۔ امید تک۔۔2

سیلاب  2010 کی یادیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری ڈائری سے۔2


وہ  اندھیری  رات تھی ۔   فور بائی فور کا ڈرائیور  110 کی اسپیڈ  سے   ہائی وے پر پڑے گڑہوں    سے انتہائی مہارت  سے  گاڑی نکالتے ہوئے    سکھر کی جانب  رواں دواں تھا ۔  روڈ پر ذیادہ تر   امدادی  قافلوں  کی گاڑیاں ، فوجی ٹرک  یا پھر  سیلاب میں کام کرنے والی این جی اوز    ۔۔۔۔یا پھر  لٹے  پھٹے خاندانوں کے ۔۔۔ہنستے بستے شہروں میں  مقیم  رشتہ دار  محو سفر تھے ۔
سکھر ۔۔۔۔جسکی ہر گذرگاہ  اور خالی جگہ پر  سیلاب  کے ھزاروں  متاثرین نے  اپنے لئے   خیمے گاڑ رکھے تھے ۔۔۔ رات 12 بجے  سکھر پہنچنے پر ہم نے رات گذارنے کیلئے کئی ھوٹلوں  کے چکر کاٹے  پر  ہر جگہ     ۔۔۔۔سارے  روم بک ہیں۔ ۔۔ ہی سننے کو ملا ۔ اجنبی شہر کے اجنبی راستوں پر ۔۔۔رات کے 12 بجے  ۔۔۔۔رات  گذارنے کا کہیں  کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔ ۔۔ایسے میں پرانے  رابطے  یاد آئے  ۔۔۔۔کسی دوست کا نمبر ملایا  اور اپنی مشکل اسکے سامنے رکھی ۔۔۔کچھ دیر بعد  انہوں نے بتایا کہ اس وقت ہوٹل ملنا تو مشکل  ہے آپ  سکھر سے باہر نکلیں ۔۔۔ دریا  کے کنارے پر ایک گاوں  ہے ۔۔۔ وہاں ایک اوطاق میں آپکو چارپائیاں  مل جائینگی اور رات  گذارنے  کا سامان  ہو جائیگا ۔
کچے راستوں  پر ۔۔۔۔اندھیری رات میں ۔۔۔۔۔رات 1 بجے  گاوں کی اوطاق پہنچے ۔ تو اس ملک کے لوگوں کے خلوص  نے آنکھوں  میں آنسوں  بھر دئے ۔  کوئی  60 سال کی   عمر  کے  بوڑھے ہمارے لئے  نیند  سے اٹھ کر چارپائیاں  بچھا رہے تھے ۔ اور پھر ان پر بستر بھی لگا دئے گئے ۔  رمضان کا مہینہ تھا    ۔۔ان غریبوں نے   ہمارے لئے سحری کا بھی انتظام کیا ۔ جسمیں  انکا خلوس، انکی محبت ۔۔انکی مہمان نوازی  ۔۔اوراجنبیوں سے  انکی عقیدت  سب  شامل  تھی ۔  اس بوڑھے اجنبی نے بتایا  کہ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت  دریا کے بند پر رات  کو لائٹنگ  کا انتظام کیا ہے ۔  کمزور پشتوں پر خود مٹی ڈالتے ہیں ۔  دریا کے بند میں چوہوں کے کھودے ہوئے سوراخوں پر نظر رکھتے ہیں ۔ سب لوگ جاگ  کر دریا کے بند  پر  پہرہ دیتے ہیں  ۔ کہ کہیں  بے خبری میں  بپھرتا دریا اپنا وار نہ کر جائے ۔  کیونکہ  امید فاضلی نے  شاید  کسی ایسے  ہی موقعے کیلئے یہ شعر کہا ہوگا   کہ
بند بنا کر سو  مت جانا
دریا آخر دریا ہے
ہم نے اپنے میزبانوں کو مزید تکلیف سے بچانے کیلئے   فجر کے بعدہی رخت سفر باندھنے  کا فیصلہ کیا ۔ کیونکہ ہماری وجہ سے یہ لوگ پہلے ہی کافی ڈسٹرب ہو گئے تھے ۔  گاوں  کی اس اوطاق سے رخصت  کے وقت  اس بوڑھے میزبان کی آنکھوں میں خلوص اور محبت کے آنسوں جبکہ ہماری  آنکھوںیں انکے لئے احساس تشکر کے  ستارے جھلملا رہے تھے ۔  گاوں  سے نکل کر ہم نے سورج کی پہلی کرن کے ساتھ  سکھر شہر کا ایک چکر لگانے کا فیصلہ کیا ۔ لیکن اس چکر نے ہمیں  چکرا کر رکھ دیا ۔ ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے  کہ سارے میڈیا نے سکھر ہی  میں  ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔ اور سب کی رپورٹنگ میں ایک سی یکسانیت نظر آئی ۔ وہی کیمپوں کی زندگی ، راشن کے حصول پر جھگڑے ۔ یہ دیکھ کر ہم نے  اپنے اس اصول  کو ایک بار پھر  آزمانے کا فیصلہ کیا ۔ جس نے  میری17 سالہ  صحافتی زندگی میں  ہمیشہ  مجھ پر  کامیابیوں کے در وا کئے  ۔ اور وہ یہ کہ جہاں سارا  میڈیا ہو۔۔۔ وہاں   سے دور ہو جاو ۔  اپنے آپکو تکلیفوں میں ڈال کر لوگوں   سے قریب ہونے کی کوشش کرو ۔ نئی کہانیاں اور زندگی کی نئی رمزین تلاش کرنے کی کوشش کرو ۔  بس  ایک منٹ میں  فیصلہ ہو گیا ۔ اور ہم نے شکارپور سے  مشرق  میں  کشمور اور کندھ کوٹ کی جانب   بڑھنے کا فیصلہ کیا ۔ اب زندگی ہمارے امتحانوں  کیلئے ہمارے سامنے  کھڑی مسکرا رہی تھی ۔  سڑک  کی دونوں جانب  دور دور تک کھیت کھلیان ، آبادیاں  سب سیلابی پانی  میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ تارکول  کی کالی سڑک  اس پانی میں ایک لکیر  کی مانند دکھائی دے رہی تھی ۔ اور ایک مقام پر جا کر یہ لکیر  بھی پانی میں  گم  ہو گئی ۔ اب ہمارے  چاروں طرف صرف پانی ہی پانی تھا ۔ اکا دکا  دیہاتی لوگ  سیلابی پانی  میں ۔۔۔۔سر پر سامان  کی گھٹڑیاں  اٹھائے۔۔۔۔۔پانی میں   گم   کردہ اس   کالی لکیر پر چلتے  جا رہے تھے۔  اب زندگی  نے ہمارا امتحان لینا تھا ۔  آگے  جائیں یا واپس لوٹ  چلیں ۔  ہمیں شاید  اپنی فور بائی فور پر ناز تھا ۔ لیکن  یہ ہماری بھول تھی ۔ ۔سیلابی پانی نے  لکیر کی مانند  اس  سڑک  کی دونوں  اطراف   کاٹ  دیں تھیں ۔  اور دونوں طرف کی مٹی  پانی بہا کر لے گیا تھا ۔جس سے ہم مکمل طور پر  لاعلم تھے ۔ کیونکہ یہ کنارے  پانی میں ہونے کی وجہ سے  ہمیں نظر نہیں آرہے تھے ۔ ۔۔ پانی کے اندر  ہمیں اس بات کا بلکل بھی اندازہ  نہیں تھا ۔ کہ ایک دم ہماری گاڑی۔  کا ایک ٹائر  سڑک سے نیچے اترا ۔ اور پوری گاڑی  ٹیڑھی ہو گی ۔  جس  طرف گاڑی اتری  اس طرف انداز ا چار فٹ کی گہرائی تھی ۔ اور پھر دوسرے لمحے ہم اپنے کپڑوں  اور جوگرز سمیت پانی میں تھے ۔ حالت یہ تھی ہم گاڑی کو پکڑ کر واپس سڑک پر چڑھانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ اور منہ زور سیلابی  پانی  ہمیں گاڑی سمیت  دوسری جانب بہا  کے لے جانے کیلئے بے تاب تھا ۔  آخر کار وہی  پیدل چلنے والے دیہاتی کام آئے   ۔۔۔۔قریبا 20 افراد  ہماری گاڑی کو  اٹھا کر واپس  سڑک پر  لائے ۔ہم سب کے اترنے اورگاڑی کا وزن  کم ہونے سے ایسا لگ رہا تھا کہ ہماری گاڑی پانی میں تیر رہی ہے ۔  دیہاتیوں  کے مشورے پر ہم ایک بار پھر   گاڑی میں سوار ہو گئے اور انہیں بھی پچھلی سائڈ پر  بٹھا لیا تاکہ گاڑی  کے اندر وزن بڑھ جائے ۔ اور  سیلابی پانی کو  ایک بار پھر  اپنا وار کرنے کا موقہ نہ ملے ۔  اور پھر شاید قدرت کو ہم پر رحم آگیا  ۔ پانی آھستہ آھستہ کم ہونا شروع ہوا ۔ اور ایک بار پھر  ہم  لکیر کی مانند   سڑک پر آگئے تھے ۔ لیکن دوبارہ گاڑی کو پانی میں ڈالنے  کا بھوت  اب ہمارے سر سے اتر چکا تھا ۔ اب ہم  7 کلومیٹر  مزید چلے   تو  ایک بار پھر سڑک پانی میں ڈوب رہی تھی۔  ہمارے نذدیک ترین  کرم پور کا شہر تھا ۔ جسے   سیلابی پانی نے  چاروں طرف سے  گھیر رکھا تھا ۔ ۔   اب ہم نے اپنی فور بائی فور کو وہیں  چھوڑا  اور  ایک ٹریکٹر ٹرالی کرائے پر لیکر  کرم پور شہر کی طرف روانہ ہوئے ۔  مقامی لوگوں نے  بتایا کہ ایک چھوٹی لڑکی سیلابی پانی  میں   ڈوبتی ہوئی ملی تھی ۔ لوگوں نے اسے نکال کر   ایک مندر میں پہنچایا ہے ۔ اب ایک کہانی  ہمارا انتطار کر رہی تھی  ۔ کہانیوں  ہی کی تلاش میں تو ہم  نے سکھر کو چھوڑا تھا ۔
آٹھ فٹ کے پانی سے گذر کر کرم پور پہنچنے کا ہمارا ایک مقصد ۔۔ جیو کے زریعے اس بچی کو اپنے پیاروں سے ملانا بھی تھا ۔۔ لیکن راستہ بڑا خطرناک تھا ۔ اگر ڈرائیور کو راستے کے اندازے کی تھوڑی بھی چوک ہو جاتی تو ہمارا جو حشر ہوتا وہ ہمیں اسی پانی میں ڈوبے ہوئے ایک ٹریکٹر کو دیکھ کر ہو گیا تھا ۔ کہ اس ٹریکٹر  کا صرف  اوپر کے سائلنسر کا  ایک ٹکڑا پانی میں نظر آ رہا تھا ۔ لیکن فرض کی پکار اہم تھی ۔ اور ہم اس ٹریکٹر

 ٹرالی کے زریعے  کرم پور پہنچ ہی گئے ۔
مندر پہنچ کر  یہاں  ہمیں ایک 70 سالہ بابا  نظر آئے  جو  ڈوبنے والی  اس لڑکی کی دیکھ بھال  کر  رہے تھے ۔
بروچکی زبان بولنے والے اس بابا نے بتایا کہ شروع میں اس لڑکی نے اپنا نام وزیراں اور والدہ کا نام جگل بتایا تھا ۔ جبکہ یہ سوڈھی نام کے کسی گاوں کا حوالہ دے رہی تھی ۔ مگر اب یہ گنگ ہے ۔ شاید ۔۔۔ انہونی ۔۔ کے ہوجانے کے بعد کی ۔۔۔بے یقینی کی کیفیت نے۔۔۔ اسے ذھنی عدم توازن کا شکار کردیا تھا ۔ 
بابا   کی باتوں سے ہم نے جو  نتیجہ اخذ کیا اسکے  مطابق 9 سالہ وزیراں بھی کبھی اپنے ہم جولیوں کے ساتھ ہنستی کھیلتی تھی ۔۔۔۔ مگر اب یہ کچھ نہیں بولتی ۔۔۔۔ اپنے اوپر گذرنے والی قیامت کے بعد اسکی زبان گنگ اور آنسوں خشک ہو گئے تھے ۔ یہ ننھی کلی بھی کسی کے دل کی ٹھنڈک اور کسی کی آنکھوں کا تارا ہو گی ۔۔۔ لیکن غوث پور کیطرف سے آنے والے سیلابی ریلے نے اسے اپنے پیاروں سے جدا کردیا ۔۔ کرم پور کے نذدیک کچھ لوگوں نے اسے سیلابی پانی میں بہتے ہوئے نکالا اور اسے کرم پور کے اک مندر میں چھوڑ گئے ۔ ۔۔۔۔ شاید وزیراں ابھی تک اس خوف سے باہر نہیں آ سکی کہ وہ سیلابی پانی سے زندہ بچ گئی ہے ۔ اسی مندر میں پناہ گزیں ایک  مائی رحمت اسکی دیکھ بھال کر رہی تھی  جو بوڑھے بابا  کی زندگی کی ساتھی تھی ۔  جن کو اس عمر میں خود ایک سہارے کی ضرورت  تھی ۔  مگر یہ دیوانے اب بھی دوسروں   کا سہارا بن کر  ہم پر زندگی کے نئے راز آشکار  کر رہے تھے ۔
وزیراں کی کہانی  مل گئی اب ہمارا اگلا  ٹارگٹ اس  کہانی کو جلد از جلد جیو پہ نشر کرانا تھا   ۔ شاید ٹی وی پہ اسکی کہانی سن کر  کوئی اسے پہچان لے  اور یہ اپنے پیاروں سے  مل جائے ۔   یہ سوچ کر ہم نے واپسی  کی راہ لی ۔ واپسی پر جگہ جگہ ہمیں خیمہ بستیاں نظر آئیں ۔  اور  گاڑی  کے ساتھ   آگے پیچھے  دوڑتے  منظروں  کے ساتھ میں سوچنے لگا  کہ
سیلاب کی تباہ کاریوں نے معاشی طور پر لوگوں کی کمر جھکا دی ہے۔ نہ جانے اس قوم کو کن ناکردہ گناہوں  کی سزا  بھگتنی پڑ رہی ہے ۔ کہ جن
گھروں کو یہ جائے امان سمجھتے تھے۔۔۔ زمین بوس ہو گئے ۔۔۔جو خوشحال اور تونگر تھے ایسے بدحال ہوئے کہ جائے پناہ تک نہ رہی ۔ گھر کی چار دیواری میں محفوظ زندگی گزارنے والی خواتین اب سر راہ بیٹھی اس ادھیڑ بن میں ہیں کہ شکوہ خدا سے کریں یا انسانوں سے ۔۔۔۔ اب سمجھوتہ کریں یا انکار ۔۔۔لیکن انہیں   شاید انتخاب کا حق نہیں ۔۔۔۔
یقیناً ان لوگوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ زندگی انہیں ایسے کڑے امتحان سے گذارے گی ۔۔۔ مگر اب ایسا ہو چکا ہے اب تخریب سے ترتیب اور تباہی سے ترقی کا راستہ ڈھونڈنا ہوگا ۔۔۔۔۔اور یہی سوچتے سوچتے  رات  نے  اپنے سائے پھیلانے  شروع کئے ۔۔۔۔۔  اور ہم واپس سکھر پہنچ گئے ۔  


1 comment:

  1. خوبصورت اور پُراثر اندازِتحریر۔۔۔ جس میں چھوٹی چھوٹی جزئیات کے ساتھـ بڑی مہارت سے حالات وواقعات کو بیان کیا گیا ہے۔ اور ایک حساس دل کے جذبات بھی بخوبی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
    مثبت رپورٹنگ زندہ باد

    ReplyDelete