Wednesday 13 November 2013

اداس لڑکی


کل رات جب وہ  کتابی چہرے  (فیس بک ) پر میرے سامنے آئی تو بہت اداس تھی ۔  یوں تو میری اور اسکی شناسائی بہت پرانی تھی ۔ کسی میڈیا ٹریننگ کے دوران ایک ہوٹل میں اس سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ کسی ایف ایم اسٹیشن پر اپنی  آواز کا جادو جگاتی ، اور لوگوں کی سماعتوں کو مسحور کرتی تھی ۔ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہ کر ان کے دلوں پر حکمرانی کرنے کا فن شاید اسے آتا تھا ۔ اور میں تو صرف لفظوں کا پجاری۔۔۔۔۔۔ ، جسکا اوڑھنا بچھونا صرف اسکا  قلم ۔۔۔۔   اور اس سے نکلنے والے لفظ تھے ۔  ۔۔مگر کل رات  وہ بہت اداس تھی ۔۔۔۔اور جنجھلاہٹ اسکی باتوں  سےعیاں تھی ۔۔۔۔ مجھے محسوس ہوا وہ اپنے اندر سے اٹھنے والے سوالوں سے پریشان تھی۔۔۔۔۔۔۔ ''انسان اندر سے ٹوٹ جائے تو تعمیر حیات کی کتابیں بھی اسکی مدد نہیں کر سکتیں ''
کہیں پڑھا ہوا یہ جملہ میرے ذہن میں گونجنے  لگا ۔ شاید وہ اپنے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ ہی کا شکار تھی ۔ اور پھر وہ اپنے اندر اٹھنے والے طوفان کا شاید مقابلہ نہ کرسکی ۔ اور اسکے ذہن میں مچلنے والا خلجان  سوالوں میں ڈھل کر  میری اسکرین پر  جوابات کا متلاشی تھا ۔
میں نے اسے باتوں میں الجھانے کی کوشش کی کہ آپ نے میرا تازہ  بلاگ  پڑھا ۔؟۔۔ تو اس نے جواب دیا ۔۔کہ اچھا ہی ہو گا ۔۔۔ آپ نے لکھا ہے  تو۔اور ہر انسان کو اپنی تخلیق  سے پیار ہو تا ہے ۔ ۔۔۔۔
بس یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جہاں سے   میری  اور اس آواز کی ملکہ  کی گفتگو  شروع ہوئی ۔ میں نے اس   ساحرہ  سے کہا کہ  ہاں اپنی تخلیق سے سب کو پیار ہوتا ہے ۔ خالق کو بھی تو اپنی تخلیق سے پیار ہے نا ۔ جب ہم کوئی چیز بنانے کے بعد سوچتے ہیں کہ اس میں کوئی کمی نہ رہے ۔۔وہ تخلیق مکمل دکھائی دے ۔۔۔اس میں کوئی عیب نہ ہو ۔۔اس میں کوئی نقص دکھائی نہ دے ۔۔تو وہ خالق کائنات جس نے انسان کو بنایا ہے وہ بھی  تو یہی چاہتا ہے ۔۔ کہ اسکی تخلیق ۔۔یعنی انسان ۔۔۔پاکیزہ رہے ۔۔ اس میں کوئی نقص  نہ ہو ۔۔ اس میں کوئی برائی نہ ہو ۔۔۔۔اور سراسر  بھلائی ہی بھلائی ہو ۔۔میں نے اس سے  ہنستے ہوئے کہا ۔ویسے  معاف  کیجیئے گا ۔۔۔ میرا  بلاگ میری تخلیق نہیں ۔۔ کیونکہ ''لفظ ''تخلیق نہیں کئے جا سکتے ۔۔ یہ تو قدت  کا تحفہ ہوتے ہیں ۔۔ جو الہام کی صورت  ہمارے دلوں پر نازل ہوتے ہیں ۔۔۔ تخلیق کا کام تو بس ۔۔ اس ذات   ہی کو بھاتا ہے ۔۔۔ ہم انسان کہاں  اس  کے کام  میں گھسنے والے ۔۔۔ ۔۔۔
اس نے میری  بات کاٹ دی ۔۔۔ جو اسکی پرانی عادت تھی ۔۔۔وہ جب کبھی اس طرح  میری بات کاٹتی میں سمجھ جاتا کہ اب جو اسکے اپنے ذہن میں ہے وہ کہے گی  ۔۔ میری بات  نہیں سنے گی ۔۔۔او ر وہی ہوا ۔۔۔
وہ کہنے لگی ۔ ایک بات بتائیں  ۔۔ خواب دیکھنے کیلئے کیا عمر کی کوئی حد ہوتی ہے کیا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اسکے ذہن میں مچلنے  والا خلفشار  پہلا سوال بن کر میری اسکرین پر آیا ۔۔۔
" نہیں تو آپ سے کس نے کہا ''  میں نے دہرایا ۔۔
بس دھڑام سے دوسرا سوال آیا ۔۔۔یار یہ بتاو بندہ جیسے جیسے میچور ہوتا جاتا ہے ۔ اسکو دنیا  الگ  سی  کیوں  لگنے لگتی ہے ؟
میں نے مختصر جواب دیا کہ ۔۔۔۔  جب  انسان  ریئلٹی  ( حقیقت) کو محسوس کرتا ہے ۔۔ تو آج کی دنیا ۔۔اسکو اپنے کل کی دنیا سے الگ سی لگتی ہے ۔۔
اور پھر اسکے سوال مجھ پر جیسے    پتھروں کی صورت میں  برسنے لگے ۔۔
یار یہ بتاو کیا چیز ہے جو  انسان کو کسی  حال میں  بھی مطمئن  نہیں ہونے دیتی ؟؟؟ وہ اسی طرح مجھ سے فرینک  ہو کے بات کیاکرتی تھی ۔
میں  نے بتایا کہ انسان  جب سوچتا ہے  کہ کل  جس چیز کو   اس نے صحیح سمجھا تھا ۔ آج حالات  و واقعات  اور مشاہدات نے    اسکو غلط   ثابت کر دیا ہے ۔  ریئلٹی تو کچھ اور تھی ۔۔ حقیقت تو   مجھ پر  اب عیاں ہوئی ہے ۔  ۔۔۔ اسکے بعد گویا ۔ وہ حقیقت  ، اور اصلیت کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔ چیزوں کو دوسرے رخ سے پرکھنے  کی جستجو میں لگ جاتا ہے ۔۔۔ ۔۔ اور اصلیت جانچنے کی کوششش گویا  اسکی زندگی کا روگ بن جاتی ہے  اور  وہ کسی طور  مطمئن   نہیں ہو پاتا ۔

اور پھر میں  نے اس بات کو زرا    وضاحت سے  بتاتے ہوئے کہا کہ میں جب  ایک طالبعلم تھا  ، تو  اسٹوڈنٹ  لائف  میں ، طلبہ کے حقوق کیلئے جدو جہد کرنا میرا مشن تھا ۔۔۔۔اور میرا یہ مشن مجھے  اپنی زندگی سے عزیز تھا ۔۔۔۔میرے لئے موت و زندگی سوال تھا ۔۔۔۔ لیکن آج جب پیچھے مڑ کے سوچتا ہوں  ۔۔۔ تو ادراک ہوتا ہے کہ سب کچھ ایسا نہیں تھا ۔ زندگی و موت کا سوال تو  ہر گز نہیں تھا ۔۔۔
تو یہ جستجو ہوتی ہے ۔ جو ہمیں  ایک پل قرار نہیں  لینے   دیتی ۔ ہمیں    ہر دم ۔۔حقیقت   آشنا ہونے کیلئے  بے چین کئے رکھتی ہے ۔ اسے ہم سچائی کی تلاش  کا نام بھی  دے سکتے ہیں ۔
آپکا  مطلب ہے  کہ انسان کے خواب  اور  ترجیحات  وقت کے  ساتھ بدل جاتے ہیں ۔۔؟  ہاں  نا ؟۔۔۔۔   اس نے وضاحت چاہی ۔۔۔۔۔۔
لگتا تھا ۔۔ آج اس نے بھی   مجھے ادھیڑنے   کا  تہیہ   کیا ہو اتھا ۔
ہاں  بدل جاتی ہیں  ترجیحات  ۔۔۔۔۔لیکن اسکی وجہ وہی ہوتی ہے کہ حقیقت  اس پر منکشف ہو جاتی ہے ۔ میں نے مختصر جواب دیا ۔۔۔

میں نے کبھی پیسے کے بارے میں نہیں سوچا ، لیکن اب  سوچتی ہوں ۔۔۔لیکن اب میں  بہت سارا پیسہ کمانا چاہتی ہوں  ۔ڈھیر سارا پیسہ ۔۔۔پتہ  نہیں  میرا کیا ہونے والا ہے ؟۔۔ اور یہ کہتے کہتے وہ آواز کی جادو گرنی    پھر  اداس ہو گئی ۔
 اس نے گویا ایک خواہش کے روپ  میں اپنی ترجیحات اور    وشز  بتائی تھیں !
 میں  نے  لو ہا گرم دیکھا اور چوٹ مار دی ۔ کہ   ۔۔۔۔ہاں ہاں ۔۔ کماو ۔۔۔۔خوب سارا پیسہ ۔ ۔۔۔۔ کل کو جب  ڈھیر سارا  پیسہ کما لوگی ۔۔۔ تو آپ کو اسی پیسے سے نفرت ہو جائیگی ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ  حقیقت  کی تلاش  اور اسکی جستجو  ۔۔۔آپکی  ترجیحات  بدل دینگی  ۔۔۔ اور پھر آپ کبھی  مطمئن نہیں ہو پاؤگی ۔۔۔۔۔۔ اور  اطمینان  کی تلاش میں آپ کو پھر  یہ ڈھیر سا را پیسہ  مجھ جیسے  مسکینوں پہ خرچ کرنا پڑے گا ۔   
۔۔۔۔ بات اسکی سمجھ میں آ گئی تھی ۔ وہ اک ادائے دلربا ئی سے ۔۔ کہنے لگی کہ ۔۔ ہاں یہ تو ہے   ۔۔ درویشی  بھی کتنی مشکل ہے ۔۔۔اور دنیا داری بھی  ۔۔۔۔۔بندہ جئے تو ۔۔جئے  کیسے ؟
اب آئی نا آ پ  پوائنٹ پہ ۔۔۔  میں نے کہنا چاہا  ۔۔۔ میانہ روی ۔۔۔ بیچ کی راہ ۔۔۔۔ اعتدال کی راہ ۔۔ ۔۔ دین کی درویشی  بھی   اور ۔۔دنیا داری بھی  ۔۔۔۔۔اور دنیا داری بھی ایسی جو  آپ پہ کبھی حاوی نہ ہونے پائے ۔۔۔۔۔ آپ کی چاہتیں  آپکے پاوں  کی زنجیریں نہ بن پائیں ۔ ۔۔۔آپ کی محبتیں ۔۔۔آپ کی   شکل میں موجود خالق کائنات کی  تخلیق کو گدلا نہ کر  پائیں ۔۔۔۔آپ کے دل کا سرور   ۔۔اورخوشی۔۔  آپ کی پاکیزہ روح کو   ۔۔۔ میلا نہ ہونے دے ۔۔۔۔آپ کا  عشق  آپ کے اندر موجود   پاک  آسمانی چیز  کو ناپاک نہ کردے ۔۔۔  بس ایسی   میانہ روی ۔۔ ایسی دوستی ۔۔ ایسی دشمنی ۔ ایسی رشتہ داری ۔۔۔ بس سب کچھ یہی تو ہے ۔۔۔۔۔یہی تو زندگی کا راز ہے تم جس کی تلاش میں ہو ۔۔۔ جسکی جستجو تمہیں  بے چین کئے  رکھتی ہے ۔ جسکی تلاش  نے تمہیں بے کل کر رکھا  ہے ۔۔۔۔۔
  
اور پھر وہ حسینہ جیسے ھتھے سے اکھڑ گئی ۔۔۔۔ نہیں آتی مجھے   میانہ روی ۔۔ نہیں آتا  مجھے بیچ کی راہ پہ چلنا ۔۔۔میں انتہا پسند ہوں ۔۔۔ ہر بات  میں انتہا پہ پہنچنا چاہتی ہوں ۔۔۔
میں نے کہاں ۔۔۔۔ ہاں بعض اوقات    ہم سب انتہا پسند ہو جاتے ہیں ۔۔۔ لیکن ہمیں ہو نا نہیں چاہئے ۔۔۔ یہ انسان کی فطرت  ہے ۔۔کہ وہ ہر چیز میں  انتہا پہ جانا چاہتا ہے ۔۔۔۔بلندیوں کو چھونا  چاہتاہے۔۔۔۔آپ نے کبھی  ان  لوگوں  کو ٹی وی پہ کرتب دکھاتے دیکھا ہے ۔۔  جو  دو پہاڑوں کے بیچ سمندر کے اوپر  رسا باندھ کر   اس رسے پہ   بیلنس کرتے ہوئے   چلتے چلے جاتے ہیں ۔۔ انکے نیچے  سمندر  کی گہری کھائیاں  ہوتی ہیں ۔۔  بیلنس کی تھوڑی سی معمولی   غلطی بھی انہیں موت کی اتاہ گہرائیوں میں دھکیل  سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔  پر تمہیں معلوم ہے   موت کی وادی   میں رسی پر چلنے والے  اس گوشت پوست کے انسان کے پاس  کیا طاقت ہوتی ہے  جو اسے بے خوف کر دیتی ہے ۔۔۔۔موت سے بے پرواہ کر دیتی ہے ۔۔۔۔۔ وہ طاقت    ۔۔۔اسکا  اپنے اوپر اعتماد   ہوتا ہے ۔۔۔۔ اپنے اوپر  یقین ہوتا ہے ۔۔۔۔۔اسکا  کنفیڈینس   ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس  یہی  یقین اور اعتماد اپنی ذات  میں پیدا کرو ۔۔۔ اس یقین کو کبھی متذلزل  نہ ہونے دو ۔۔۔۔۔ میانہ روی  کا راستہ آسان ہو جائیگا ۔۔۔ آپ کو زندگی سے خوف نہیں آئے گا ۔۔۔ زندگی کی مشکلات  آپ کو  کبھی پریشان نہیں  کر پائینگی ۔۔۔۔۔ زندگی کے مصائب کو دیکھ کر  آپ کو مسکرانا آجائے گا ۔۔ بس بیلنس کرنا  سیکھ  لو ۔۔ توازن پیدا کرنا سیکھ  لو ۔۔۔
میرے جواب نے گویا  اسے کھونٹے  سے باندھ دیا ۔۔۔۔بھڑکتی  ہوئی آگ پہ پانی ڈال دیا ۔۔۔  کہنے لگی  ۔۔اگر پھر بھی نہ آیا تو ۔۔؟
میں نے کہا  کہ  ۔۔۔ پھر وقت ہمیں  سکھا دے گا ۔۔۔ وقت سے بڑا کوئی استاد نہیں ۔۔۔۔وقت سب سے بڑا ستاد ہے ۔۔۔۔کھرے اور کھوٹے کی تمیز بھی سکھا دیتا ہے ۔ چیزوں کی اصلیت بھی ہم پہ آشکار کر دیتا ہے ۔۔۔۔

کھڑاک سے ایک  اورسوال میرا منتظر تھا ۔
ہم  بڑے  کیوں  ہو جاتے ہیں ؟   ہم ہمیشہ  چھوٹے کیوں نہیں رہتے ؟

اس سوال  میں گویا  اسکی  بچپنے  کی واپسی  کی خواہش تھی ۔۔ میں نے  کہا  کہ ہم  بڑے نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔اس نے  حیران  ہو کر کہا ۔۔۔پھر ؟
میں نے جواب دیا ۔۔۔۔آپ  نے سنا ہے جب ہم  کسی اسٹور  سے کوئی   ایمرجنسی لائٹ  ۔۔ یا   ۔۔ ری چاراج ایبل ٹارچ  خریدتے ہیں ۔۔ تو اسکے ساتھ اسکا ایک مینوئل ہوتاہے ۔۔۔ جسمیں لکھا  ہوتا ہے  ۔۔۔ کہ انداز   500 مرتبہ  ری چاراج ایبل ہے ۔۔ یہ اسکی بیٹری  کی لائف کی نشاندہی ہوتی ہے ۔۔۔ جب ہم اسکو چارج کرکے  استعمال کر رہے ہوتے ہیں ۔۔ تو وہ اپنی  لائف کا ۔۔۔۔اپنی زندگی کا سرکل پورا  کر ہی  ہوتی ہے ۔۔۔۔ اپنا لائف ٹائم  سرکل  پورا کرنے کے بعد وہ بیٹری  ایکسپائر  ہو جاتی ہے ۔
بعینہ  ہم بھی اسی طرح اپنی زندگی  کا سرکل پورا کر رہے ہوتے ہیں ۔۔  ہم بڑے  نہیں ہوتے ۔۔ویسے کے ویسے  ہی رہتے ہیں ۔۔۔جب ہم اس سرکل میں چلتے  ہیں  تو چلتے چلتے ۔ ہمیں  سرکل کی دوسری جانب موجود چیزیں نظر آنا شروع ہوتی ہیں ۔۔۔ جیسے  ریل گاڑی   میں چلتے ہوئے  ہمیں   بہت سے منظر نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔اس سرکل میں چلتے  چلتے پہلے اگر ہمیں ایک چیز  کچھ اورمحسوس ہوئی تھی ۔ تو اب کچھ اور محسوس ہوتی ہے ۔۔۔ جیسے      دور سے  اندھیری رات  میں  کوئی سایہ  ہمیں بھوت نظر آتا ہے ۔۔ جب ہم اسکو قریب سے دیکھتے ہیں  تو  وہ بھوت نہیں آپکی طرح  ایک حسینہ ہوتی ہے ۔۔۔۔  بس ہم بڑے نہیں  ہوتے۔۔۔ سرکل میں چلتے چلتے  منظر بدل جاتے ہیں ۔ دور والی چیزیں قریب آ جاتی ہیں ۔۔۔بس صرف ہماری سوچ کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے ۔۔۔ہماری نظر کا زاویہ اور اینگل بدل جاتا ہے ۔۔۔۔  چیزیں ہمیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں ۔۔ حقیقتیں  ہم پر کھلنے لگتی ہیں  اور ہم سمجھتے  ہیں   کہ ہم بڑے  ہو گئے ہیں ۔۔۔۔ دراصل ہم  اپنے  ایکسپائری ٹائم  کی طرف بڑھ رہے   ہوتے ہیں ۔۔۔۔
 سنو  ۔۔۔اداس حسینہ   ۔۔۔ میں نے اسکو   ذیادہ متوجہ کرنے کیلئے کہا ۔
اس   کائنات   میں   اس زمین  پر جتنی بھی چیزیں  آپ کو نظر آتی  ہیں ۔  وہ سب مٹی سے  بنی ہیں ۔ اور انسان بھی ۔۔۔۔ چرند پرند ۔۔۔ گاڑیاں  ۔۔۔ بلڈنگیں ۔۔ ہوائی جہاز  ۔  غرض کوئی بھی  چیز  اٹھا کر  دیکھ  لو ۔۔۔ سب مٹی سے بنی ہیں ۔۔  انکی اصلیت  مٹی ہے ۔۔اگر کوئی  کسی دھات سے بنی ہے ۔ تواسکی اصلیت   بھی   آخر  میں مٹی  ہی  ملے گی ۔۔۔یہ سب  ایک دائرے  میں  اپنا کام کرر ہی ہیں ۔۔ اپنی زندگی کا سر کل پورا  کر رہی ہیں ۔۔۔۔۔ سب نے اپنا سرکل پورا  کرنا ہے اور واپس  اسی مٹی میں مل جانا ہے ۔۔۔ انسان کو بھی جب قبر  میں دفن کرتے ہیں  تو  کچھ عرصے کے بعد اسکی   باڈی مٹی  میں  مکس ہو جاتی ہے ۔ مٹی بن جاتی ہے ۔۔ جانور وں کو جب ہم کھاتے ہیں وہ  ہماری غذا بن کر  ۔۔۔ پھر ہمارے پیٹ سے نکل کر  ۔۔ پھر مٹی میں مل جاتے ہیں ۔۔۔۔اب  اس طرح سوچنا شروع  کرو  ۔۔۔ ہر چیز کو سو چو  اور خوب سو چو  ۔۔۔ آپ کو یہی جواب ملے گا ۔۔۔۔
اس کائنات  میں صرف  ایک چیز  ایسی ہے جو مٹی سے نہیں بنی ۔  اور وہ ایسی چیز ہے جو ہمیں نظر بھی نہیں  آتی ۔۔۔ ہے بھی ہمارے اندر ۔۔۔
چندا  یہ  ایک  ایسی چیز ہے  جو آسمانی ہے ۔۔۔۔ جو اس زمین پر اتاری گئی ہے ۔۔۔۔ یہ روح ہے   جو آسمانی ہونے کی وجہ سے پاکیزہ بن جاتی ہے ۔۔۔یہ اللہ پاک  کے نور کے ھزارویں  یا   لاکھویں   حصے  کی ایک  ہلکی سی چنگاری ہے ۔۔۔ جو ہمیں دی گئی ہے ۔۔۔یہ اللہ نے اپنی چیز  ہمیں دی ہے ۔  جو آسمانی ہے  جو پاکیزہ  ہے ۔۔۔۔ جب ہماری زندگی  کا سرکل پورا ہوتا ہے ۔۔۔۔فلم ختم ہوتی ہے ۔۔۔۔ تو یہ آسمانی چیز  واپس  اللہ تعالی  کے پاس چلی جاتی ہے ۔۔۔ کیونکہ یہ چیز یہاں کی ہے ہی نہیں ۔۔۔۔۔

بس  یہی  تو انسان  کو سوچنا ہے  کہ  جو چیز   آسمان سے  اتار کر  ہمیں  دی گئی ۔۔۔ پاکیزہ ۔۔۔۔۔ساف ستھری ۔۔۔ ہم اسکو  گندہ کر کے ۔۔۔ گدلا کر کے  پھر اللہ  میاں کے پاس  کیوں بھیجتے ہیں ۔۔ ہمیں تو اسکو صاف  ستھرا  کرکے چمکا کے واپس کرنا چا ہئیے نا ۔۔۔ جب ہم محلے میں  کسی گھر  سے  کوئی برتن  کچھ وقت کیلئے لیتے ہیں تو  اسے گندہ کرکے تو  واپس نہیں کرتے نا ۔۔۔  تو  اللہ کو  اسکی اپنی  پاکیزہ چیز۔۔۔ہم  گندی کرکے کیسے  واپس  کر رہے ہیں ۔ ۔۔

یہ لڑکی بھی شاید آج سب کچھ ہی اگلوانے کے موڈ میں تھی ۔ایک اور سوال داگ دیا ۔۔ کہنے لگی  کہ جب سب کچھ مٹی میں مل جانا ہیے ۔ تو یہ رشتے ناتے ۔۔ جاہ  و حشم کی طلب ۔۔ پیسے  کی محبت ۔۔ محبت نفرت ۔۔ حسد ۔۔کینہ۔۔۔  یہ سب کیا ہے پھر ؟

اسکے سوال نے  مجھے ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کردیا ۔۔۔۔آج یہ واقعی میرا دماغ  گھمانے  کے چکر میں تھی ۔۔۔۔۔ دماغ پر زور دیا تو کھڑاک سے ایک جواب آیا ۔۔
اور میں نے اس  سے کہا  کہ سنو پاگل  لڑکی ۔۔۔۔ تم نے کبھی ایکسرے دیکھا ہے ۔۔۔ ؟ کہنے  لگی ۔۔۔ ہاں !
دیکھو  آپ اپنے سامنے دو ایکسرے  رکھو ۔۔ ایک  اس بچے   کے پھیپھڑوں  کا جس کی پیدائش  کل ہوئی ہو ۔۔۔ اور  ایک اس سے  بڑی عمر کے آدمی کے پھیپھڑوں کا ۔۔ جو چین اسمو کر ہو ۔۔۔ آپ دیکھو گی  کہ  بچے کے پھیپھڑوں کا  ایکسرے صاف ستھرا  ہوگا  اور  چین اسموکر  کے پھیپھڑ ے  پورے کالے  اورسیاہ ہونگے ۔۔ سگریٹ کے ایک ایک  کش  نے اسکے پھیپھڑوں پہ اتنے داغ ڈالے ہونگے  کہ اب وہ پورا  داغدار ہوکر  بلکل سیاہ ہو گیا  ہوگا۔۔۔۔
بلکل  اسی طرح  ہماری روح  جب ہم پیدا ہوتے ہیں  ۔ تو اس بچے کے پھیپھڑوں کی طرح پاک صاف ہوتی ہے ۔۔، جب ہم گناہ کرتے ہیں  تو ہماری اس پا کیزہ صاف ستھری روح  پر ایک دھبہ   لگ جاتا ہے ۔۔۔۔ سیاہ داغ پڑ جاتا ہے ۔۔۔  پھر  داغ  پڑتے پڑتے  پوری  روح سیاہ ہو جاتی ہے ۔۔ اور پھر  ہم وہی گندی روح ۔۔۔  گدلی روح اللہ پاک   کو  واپس کر دیتے ہیں ۔۔۔آسمان   کی طرف بھیج دیتے ہیں ۔ کیونکہ وہ تو وہیں کی چیز ہے  نا ۔۔۔ وہیں سے آئی تھی نا ۔۔۔   تو حسد سے  ۔۔،  کینے   سے ۔۔۔ نفرت سے ۔۔۔۔غیبت سے  ۔۔ برائی سے ۔۔ پیسے اور  جاہ حشم کی محبت  ان سب چیزوں سے۔ اس پہ سیاہ دھبے بڑھتے جاتے  ہیں ۔    تو بس   نتیجہ  یہ نکلا  پاگل لڑکی کہ  سب نے   اپنا  سرکل پورا کرکے مٹی بن جانا ہے ۔ اور روح نے سرکل پورا کرکے  واپس آسمان پہ جانا ہے۔

وہ مسحور کن آواز والی حسینہ کہنے لگی ۔۔ کہ پھر تو ۔۔جو لوگ اپنے رب سے لو  لگاتے ہیں ۔  استغفار کرتے ہیں ۔ انکی روح  سے تو اللہ پاک کثافت دور  کر دیتا ہے   نا ۔۔۔۔؟  
میں نے  جواب دیا  ۔۔ بلکل ۔۔۔ اسکی ٹیوننگ ہو جاتی ہے ۔۔۔۔ جیسے ہم گاڑی  کی ٹیوننگ  کرتے ہیں ۔۔۔ تو کچھ عرصہ اور  نکال لیتی ہے وہ ۔۔ ٹیوننگ سے جیسے گاڑی کے کاربیٹر کی کثافت دور ہو جاتی ہے بلکل اسی طرح روح کی کثافت بھی دور  ہو جاتی ہے ۔

وہ  بے اختیار  کہہ گئی   کہ ۔۔۔۔۔پہلے تو آپ ایسے نہیں تھے ۔۔۔۔
اورپھر  کہنے لگی  ایک فرمائش کروں آپ سے ؟
میں نے کہا  ۔۔۔۔ پتا  نہیں  میں پوری کر پاوں یا  نہ  کر پاوں ۔۔ آپ  کہیں ۔
تو  اس نے کہا کہ آپ کہانی لکھا کریں ۔۔۔۔۔۔۔ اور آج میں نے  کہانی  لکھ کر  اسکی  فرمائش پوری کردی ۔۔۔۔۔۔۔

2 comments:

  1. Bohat acha column hai..masha Allah..alfaz ka chunao bohat acha hai

    ReplyDelete
  2. thanks Irfan , Apki sataish ar Mohabatoon ka Mamnoon hon.

    ReplyDelete