Friday 29 November 2013

اپنی تلاش کا سفر


 نامعلوم   سے معلوم کی طرف سفر  ازل سے انسان کی فطرت میں رہا ہے ۔  جستجو ، طلب اور تلاش کایہ سفر رب کائنات کی مقرب ترین ہستیوں  کا سفر رہا ہے ۔۔۔۔تلاش متحرک رکھتی ہے ، حرکت زندگی کا راز ہے ، ۔۔۔۔تلاش انسان کی جبلت ہے ۔۔۔۔یہ اسکا اصل ہے ، اس کا خمیر ہے، اسکی سرشت ہے ۔۔۔ اور جسے ۔۔اور کوئی تلاش نہ ہو  وہ اپنے آپ کو تلاش  کرتا ہے ۔ ۔۔اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔۔اپنی تلاش کا یہ سفر آج بھی جاری ہے ۔۔۔۔تلاش کا یہ سفر اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان  کی اپنی ہستی کا سفر ، ۔۔۔۔۔ قابل داد ہیں وہ لوگ جو اس سفر کا انتخاب کرتے ہیں اور قابل رشک ہیں وہ لوگ جو  اس سفر میں اپنی انگلیوں کو قلم کرکے  اپنی زندگی کو  دھیرے دھیرے  سلو پوائزن کی طرح کسی مقصد کیلئے وار دیتے ہیں ۔۔۔اور جاننے اور پہچاننے کے اس سفر میں شمع کی مانند  دوسروں کو تاریک راہوں میں اجالوں کا پتہ دیتے ہیں ۔ ایسے ہی با مقصد اور  با وفا لوگوں کی ایک  محفل اسلام اآباد کے پر شکوہ  میریٹ ہوٹل میں تھی۔۔۔۔ جاننے اور پہچاننے کیلئے اس شمع کے پروانوں   کو  ملک کے کونے کونے سے  انڈیوجیوئل لینڈ  نے اکٹھا کیا تھا ۔ جنکی دن رات  کی محنتوں نے اس گلشن  میں مہکتی خوشبووں کے ساتھ  اجالوں کے رنگ بکھیرے تھے ۔

اس گلشن میں مہکتے سارے پھولوں کو سجانے کا سہرا ایک ننھی سی نہتی  خاتون  گل مینا  بلال  کے سر ہے ۔ ملک کے چوتھے ستون  کودرپیش مسائل اورانکا حل  ۔۔۔۔اور اس راہ کے مسافروں کو  ٹریننگ  کی شکل میں زاد راہ  دیکر بہترین صلاحیتوں سے  لیس کرنے کا جو بیڑہ انہوں نے اٹھایا ہے۔۔۔۔  یقیناً لائق تحیسن ہی نہین قابل فخر بھی ہے ۔ دو  روز تک   خوشبوئیں بکھیرتی اس محفل میں  جہاں ملک بھر کے صحافیوں  کو درپیش مسائل کا احاطہ کیا گیا وہیں اسکے حل کی جانب  نکلنے والی راہوں کی نشاندہی بھی کی گئی ۔  فاٹا اور بلوچستان کے صحافیوں  کے درد کو محسوس کیا گیا تو  کراچی کے رہنے والوں کی زندگیوں کو  لاحق خطرات بھی  زیر بحث آئے ۔
اور پھر  گلشن کے ان پھولوں کی آبیاری کیلئے  ، ملک کے اچھے ، قابل فخر ، سچے ، کھرے اور نڈر صحافیوں  کی رہنمائی فراہم کرکے  گویا ننھی کلیوں کو نئی کھاد د ی گئی ، جو اگلے کئی برسوں تک انکے لئے زاد راہ کا کام دیگی ۔
رائٹ  ٹو انفارمیشن  کے قانون سے لیکر ، سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے  اثرو رسوخ  ، نیوز  روم کے اندر کے مسائل سے لیکر  میڈیا کے کمرشل کردار جیسے  حساس  موضوعات پر جس ماہرانہ انداز میں  گہرائی کے ساتھ سمجھاکر مستقبل کی  نقشہ گیری کی گئی  وہ سب قابل تحسین ہے ۔ یہ سارا کام بس اپنی تلاش کا کام تھا ۔۔اپنی تلاش کا سفر تھا ۔۔۔ جو کام  شاید   اربوں روپے کے فنڈز رکھنے والی وزارت  اطلاعات کو  کرنا چاہئے تھا ۔ وہ  طوفانوں سے لڑنے والی تن تنہا ایک عورت نے کر دکھایا ۔ جو ثابت کرتا ہے کہ اس قوم میں ایسے جوہر ابھی موجود ہیں ، جو اسے نشان منزل کا پتہ دینے کیلئے اپنی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اور یہ کہ ،قوم ابھی اتنی بھی بانجھ نہیں ہوئی کہ  اس میں اب  بھی  بصیرت کے حامل  ایسے دیدہ ور لوگ موجود ہیں ۔
اس ملک کے سچے  اور کھرے  صحافیوں  جن میں  مظہر عباس ،  مطیع اللہ جان ، اے ایچ خانزادہ  ، شہزادہ ذولفقار، سلیم  شاہد ،  جیسے جو ہر نایاب  جمع کرکے ، ان سے زندگی کے تجربے کشید کرنے کا جوعمل وہاں نظر آیا ۔ وہ اس محفل کی جان تھا ۔۔۔یہ لوگ شا ید آج کے گئے گذرے زمانے میں صحافت کے آسمان پہ چمکتے ہوئے ستارے ہیں ۔جن کی کرنوں سے  آنے والوں نے اپنے آپ کو منور کیا ۔۔۔ ، یا شایدآج کے اس نفسا نفسی  کے زمانے میں  ان جیسے لوگ اس زمین کا نمک ہیں ۔ جنکی وجہ سے صحافت کے ذائقے کو بقا  اور دوام حاصل ہے ۔ ایسے لوگوں کی اصل جھلک خانزادہ صاحب  کے ان اشعار میں نظر آتی ہے جو یقیناً اسکی عملی تصویر بھی ہیں ۔

شام غم  ، ظلمت شب ، صبح الم بولتے ہیں
جب کوئی اور نہیں  بولتا ، ہم بولتے ہیں
بول جب بند تھے سب کے تو ہم ہی بولتے تھے
بولتا  کوئی نہیں آج بھی،   ہم ہی  بولتے  ہیں
دیدہ ور ،اہل صفا ،  اہل جنوں  چپ ہی رہے
سچ کو لکھتے ، جو ہوئے ہاتھ قلم   بولتے  ہیں


جب تک  بولنے کا یہ عمل جاری ہے ،  جاننے اور پہچاننے کا سفر جاری رہے گا ، اور میرے جیسے تشنہ لب  کاسہ گدائی لیکر اپنے ظرف  کے مقدور بھر اپنی تشنگی بجھاتے اپنی تلاش کے سفر پر گامزن رہینگے ۔ 

No comments:

Post a Comment