Saturday 9 November 2013

شہادتوں کا سفر


اس ملک میں پرو پیگنڈے کی جنگ  اور اسکے نتیجے میں لکھی جانے والی تحریروں  نے میرے ملک کو عملا  دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے ۔پوری قوم کو دو انتہاوں پہ پہنچا دیا ہے۔  اس قوم میں  ایک ایسی ذہنی خلیج  پیدا کردی ہے  جسے پاٹنے میں شاید   کئی برس بیت جائیں ۔
میرے ملک کے  کے وہ نامہ نگار اور کالم لکھنے والے جنکی روزی روٹی  کا منبع  بیرونی آمدنی ہی ہے ۔  جس شدو مد کے ساتھ  میری قوم کی تاریخ کو مسخ کر رہے ہیں ۔ اس پر اہل علم اور اہل قلم کی خاموشی حیران کن  ہی نہیں   فکر انگیز بھی ہے ۔  ان روشن خیال لوگوں میں سے ایک  کو  تو صرف اس بات پر چڑ ہے کہ میری قوم کی شہادتوں کی تاریخ اور فہرست لمبی کیوں ہوتی جا رہی ہے ۔ ؟ وہ تو اس بات  کو لیکے روتے ہیں کہ انہوں نے تو بچپن میں صرف  لیاقت علی خان شہید ، اور راشد منہاس شہید کے بارے میں  اسکول میں پڑھا تھا ۔ یہ فہرست اتنی لمبی کیوں ہوتی جا رہی ہے ۔
انہیں کون    بتائے کہ  شہادتوں کایہ  سفر تو اس عظم ہستی کی معیت میں  جنگ بدر سے شروع ہو اتھا ۔ جس پر  غیر متزلزل  یقین کے بغیر شاید ہمارا ایمان  بھی  مکمل نہیں  ہوتا ۔ اور  پھر شہادتوں کے اس سفر کو نکتہ عروج پہ  نواسہ  رسول حسین ابن علی نے پہنچایا ۔ اور رہتی دنیا تک  شہادتوں کا راستہ متعین کر گئے  کہ ظلم کے خلاف  ڈٹے رہنا ، مظلوموں کا ساتھ دینا ،  خدا کی برتری کے آگے  کسی کی برتری تسلیم نہ کرنا ہی   شہادتوں کا  راستہ ہے ۔ اسی راستے  پہ  محمد بن قاسم ، طارق ابن زیاد اور  موسیٰ بن نصیر اورصلاح الدین ایوبی چلے ۔  اور جب کبھی  شہادتوں کا یہ راستہ میری قوم کی نظروں سے اوجھل ہوا ۔  شہادتوں کے امین لوگوں نے اس  راستے اور اس منزل  کے  نشان راہ کو اپنی قوم کو دکھایا ۔  بالاکوٹ   کی وادیوں میں  اپنے سر ہتھیلی پہ سجاکر پیش کرنے والے   سید  احمد شہید  اور احمد  شاہ ابدالی  بھی اسی شہادتوں کے  راستے کے امین تھے ۔ اس ملک کی جغرافیائی سرحدوں  کے پاسداری کیلئے اگر راشد منہاس شہید اس قافلے میں شامل ہوئے تو اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کیلئے
افغانستان میں  لڑنےو الے عبداللہ عزام شہید بھی اسی راستے کے  راہ رو تھے ۔  تو جنرل اختر عبد الرحمان اور جنرل ضیاء الحق  بھی اس قافلے کا حصہ تھے ۔ یہ سب اس قوم کے ھیروں ہیں ۔ جنہوں نے  اس قوم کو  جہاد کا بھولا ہوا سبق ایک بار  پھر تازہ کرکے شہادتوں کے سفر پر گامزن  کیا ۔ اس ملک میں تو ایسی ھزاروں   مائیں ہیں جنہوں نے  اپنے جگر گوشوں کو شہادتوں  کے اس قافلے  کا حصہ بنا کراس  سفر کے تسلسل کو برقرار رکھا ۔

شہادت تو ایک سفر ہے ۔ ایک راہ ہے اور اس راہ پہ چلنے والوں  میں ایک تسلسل ہے جو کبھی نہیں ٹوٹا ، کل کوئی حسین ابن علی نانا کے دین سے پیا ر کرتے ہوئے اس راہ پہ چلا ۔ اور آج  وزیرستان  کا کوئی بچہ  اس کلمے سے محبت  کی وجہ سے اس درجے پہ فائز ہوتا ہے ۔  صرف کردار  تبدیل ہوئے ہیں ۔ تسلسل  تو نہیں ٹوٹا ۔۔صرف مقامات بدل گئے ہیں ۔ سفر تو ایک ہی ہے ۔ جذبہ تو ایک ہی ہے ۔  اس قوم کے نام نہاد روشن خیال  سمجھتے ہیں کو  وہ اپنی تحریروں سے یہ تسلسل  توڑ دینگے تو یہ انکی خام خیا لی ہے ۔یہ شہادتوں کے امین ہی اس قوم کے اصل ہیرو ہیں ۔ یہی اس قوم کیلئے  عظمتوں کے مینار ہیں  جنکی زندگیوں میں یہ اپنے  لئے بلندیوں کی   اور شہادتوں کی منزل تلاش کرتی ہے ۔ یہی  شہادتوں کا سفر اس قوم کیلئے    مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں  چراغ  راہ کا کام کرتا ہے ۔  لیکن میری قوم کے نام نہاد  روشن خیال  ان سے امید کا یہ چراغ بھی چھیننا  چاہتے ہیں ۔ ان سے ان کے ھیرو چھین کر انہیں  زیرو بنانا  چاہتے ہیں۔ پروپیگنڈے کی اس جنگ میں دہشت گردی کا  لیبل لگاکر  انہیں  شہادتوں کے اس سفر سے ہٹانا چاہتے ہیں ۔ ایک مسلسل  جنگ ہے جسکے نتیجے میں یہ اپنے قلم کے زریعے  اس قوم میں  سوچ کی ایک ایسی خلیج  بنانا چاہتے ہیں جسے پاٹنا اسکے لئے نا ممکن ہو جائے ۔
یاد رکھئے جب کبھی اس قوم پہ بیرونی تسلط کی صورت میں برا وقت آیا ۔ شہادتوں کے  قافلے کے  امین  یہ لوگ ہی اپنے سروں کی فصل کٹوائینگے ۔    بیرونی آقاوں کے پیسوں پر یہ کالم لکھنے والے  اس ملک سے  بھاگ چکے ہونگے

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں  ہونا


2 comments:

  1. ڈروں حملے محض انسانوں کا قتل ِعام نہیں بلکہ ہماری نوجون نسل کی سوچ کو بھی مفلوج کر رہے ہیں اور اس میں ہمارے پڑھے لکھے قلم قبیلے کا بھی برابر کا ہاتھ ہے۔"شہادت" کا لفظ گواہی کے معنوں میں بھی آتا ہے اور واقعی یہ اُس انسان اور اللہ کے درمیان راز ونیاز کی بات ہے۔ بندے کی نیت اور رب کی بےنیازی کا سودا ہے۔ ۔ہم کون ہوتے ہیں تنہائی کے راز طشت ازبام کرنے والے۔عام انسان تو دور کی بات کوئی بڑے سے بڑا عالمِ دین یا مفتی اعظم بھی اس معاملے میں حتمی رائے یا فتوٰی دینے کا اہل نہیں ۔ آج کل صرف ڈرائنگ روم کی سیاست ہو رہی ہے اور عملی طور پر کچھ بھی نہیں۔ اللہ ہمیں اجتماعی طور پر عقل وشعور کی دولت عطا فرمائے کہ ہم اصل نقل اور دوست دُشمن کی پہچان کر سکیں۔۔
    جناب "غلام مصطفٰٰٰی صاحب آپ کے یہ لفظ بارش کا پہلا قطرہ لگے۔ بے حسی ، خودغرضی اور ذہنی افراتفری کے اس حبس زدہ ماحول میں اللہ آپ کے قلم میں سچے جذبوں کی چاشنی ہمیشہ برقرار رکھے ۔آمین ۔

    ReplyDelete