Sunday 20 April 2014

دعا وں کا حصا ر

میں اسپتال  کی راہداری میں  موجود تھا کہ اتنے میں  کانپتے جسم اور   لرزتے ہاتھوں کے ساتھ ایک انتہائی ضعیف  شخص  میرے قریب آیا  اور  مجھ  سے کہنے لگا  "بیٹا حامد میر کی طبیعت اب  کیسی ہے ؟ "  یہ پوچھتے  ہوئے بھی اسکی آواز کپکپا رہی تھی اور ہونٹ لرز رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ میں نے انہیں تسلی  دی اور  میر صاحب کی خیریت کا بتایا  کہ انکی طبیعت اب بہتر ہے ۔۔۔۔۔ بعدا ازاں  ان سے تعارف ہوا    تو کہنے لگے کہ بیٹا میں ایک عام سا انسان ہوں ، بس میر صاحب کی جرات اور انکی سچائی  سے پیار کرتا ہوں ۔۔۔ رات ساری رات مصلے پر سجدے میں سر رکھ  کر   انکی زندگی کی دعائیں  مانگتا رہا ، اور اب رہا نہ گیا  تو دل کے ھاتھوں مجبور  ہو کے اسپتال چلا آیا ۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ مڑے اور  جانے لگے ۔۔ میں  نےایک بار پھر انہیں تسلی دی ۔۔۔۔جاتے جاتے کہنے لگے بیٹا   بس دل کو سکون مل گیا ۔  اللہ پاک انہیں اپنی  حفظ و امان میں  رکھے ۔۔۔یہ کہتے ہی وہ نحیف شخص  میری نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔۔۔۔۔
سچ اور  سچائی  سے محبت  کرنے والے  اس بوڑھے کے جانے کے بعد۔۔۔۔  میں اسپتال کے صوفے پر ایک  جانب بیٹھ گیا ۔  ۔۔۔۔تو مجھے  وہ  اسی سالہ  اماں یاد آگئیں ۔۔۔جو ہمیشہ مجھے اپنا بیٹا کہتی ہیں ۔۔۔اکثر مجھے  وہ  نفلی  روزے رکھے ہوئے   ۔۔ اور  رب کے حضور  سجدے میں  ملتیں ۔ ۔۔۔۔ باتوں باتوں میں بتاتی کہ بیٹا  حامد میر کی زندگی  اور حفاظت   کیلئے  دعا کرتی ہوں ۔۔اللہ اسکو  لمبی زندگی  عطا فرمائے ۔۔۔ یہ ضعیف اماں  جس سے  چلا بھی نہیں جاتا ۔۔۔جو کسی کا ہاتھ  پکڑ کر گھر کی دہلیز پار کرتی ہیں ۔۔۔۔یہ اماں  مسنگ پرسنز  کے کیمپ میں شرکت کیلئے  اسلام آباد پہنچ گئیں ۔۔۔ اور جب  حامد  صاحب  نے مسنگ پرسنز پر پروگرام   کئے ،  تو  وہ اسمیں  بھی شریک ہوئیں ۔۔۔۔اس  اماں کے دو  جوان  بیٹوں کو غائب  ہوئے  کئی  ماہ  ہو چکے تھے ۔۔۔۔اور  بالآخر   چھ ماہ کی کوششوں   کے بعد  انہیں بے گناہ  اور کلیئر کرکے چھوڑ دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن حامد  میر  اس بوڑھی  اماں کی دعاوں  میں ہمیشہ  رہتا  ہے ۔۔۔۔ایک ھفتہ  پہلے  اس بوڑھی  اماں  سے  ملنے  انکے گھر گیا  دعا  کی درخواست  کی ۔۔۔۔ تو کہنے لگیں ۔۔۔۔ بیٹا  کہنے کی ضرورت  نہیں تم اور  حامد میر ہمیشہ  میری دعاوں  میں رہتے  ہو ۔۔۔۔۔
مجھے  یاد آیا  کہ  وہ اکتوبر 2005 کی  ایک اداس شام تھی ۔۔۔۔۔پاکستان کی تاریخ  کا خطرناک  زلزلہ آئے   ہفتہ بھر ہونے کو تھا ۔۔۔اور مجھ  پر  جیو کیطرف  سے مظفر آباد  بیس کیمپ کی ذمہ داری تھی ۔۔۔۔۔کہ حامد میر  صاحب مظفر آباد  سے  پروگرام کرنے آئے ۔۔۔۔ اس دن مجھ پر حا مد میر  صاحب کی شخصیت   کے کچھ اور پہلو  بھی  آشکار  ہوئے ۔۔۔ میں  تو اگرچہ ایک بہت ہی معمولی سا رپورٹر تھا ۔۔۔۔لیکن میر صاحب نے کئی ایک بریکنگ  نیوز مجھے  دیکر   مجھ سے  بریک کروائیں ۔۔۔اور اس طرح   ایک چھوٹے رپورٹر  کی حوصلہ افزائی  کی ۔۔۔اور مختلف پہلووں پر  رپورٹس   بنانے  کیلئے   کئی ایک ٹپس  دیں ۔۔۔جو زندگی بھر رپورٹنگ  کے دوران  میری رہنمائی کرتی رہیں ۔۔۔۔ جن میں سب سے بڑی بات ۔۔۔ سچ بات کو ڈٹ کر  کہنا اور بے خوف و خطر ہو کر رپورٹنگ کرنا  سب سے اہم تھی ۔۔۔۔۔
آج ہاسپیٹل  کی اس لابی میں بیٹھ  کر میں سوچنے لگا  کہ   میر صاحب  نے جس بات  کا درس 2005 میں  مجھے دیا ۔۔آج  خود اسی  سچ کی وجہ سے ہسپتال پہنچ گئے ہیں ۔۔۔۔۔ خبر کی تلاش ۔۔۔ جستجو ۔۔۔۔اور طلب  کی یہ صفات  میں  نے  میر صاحب سے 2005 کے زلزلے میں سیکھیں ۔۔۔۔اور تلاش کا یہ سفر ہی ہے جو انسان کو متحرک  رکھتا ہے ۔۔۔اور  میر صاحب ہمیشہ  متحرک ہی  رہے ۔۔۔۔۔سچ کی تلاش کا یہ سفر  آج بھی جاری ہے ۔۔۔اور قابل داد ہیں وہ لوگ  جو  اس  سفر میں  اپنی انگلیوں کو قلم  کرکے اپنی زندگی کو دھیرے دھیرے  سلو پوائزن کی طرح کسی مقصد  کیلئے  وار  دیتے    ہیں ۔۔۔۔۔اور سچ کو جاننے  اور پہچاننے   کے اس  سفر میں  شمع کی مانند ہم جیسوں  کو تاریک  راہوں  میں اجالوں کا پتہ دیتے  ہیں ۔  میر صاحب جیسے  لوگ آج کے گئے گزرے زمانے میں  صحافت کے آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے ہیں ۔۔۔۔جن کی کرنوں سے  آنے والوں  نے اپنے آپ کو منور کرنا ہے ۔۔۔یا شاید آج کے اس نفسا نفسی کے دور  میں  حامد میر جیسے لوگ  اس زمین  کا نمک ہیں ۔۔۔جنکی وجہ سے صحافت  کے ذائقے  کو  بقا اور دوام حاصل ہے ۔۔۔شاعر نے شاید ایسے ہی سچے اور کھرے لوگوں کیلئے کہا ہے کہ
شام غم  ، ظلمت شب ، صبح الم بولتے ہیں
جب کوئی اور نہیں  بولتا ، ہم بولتے ہیں
بول جب بند تھے سب کے تو ہم ہی بولتے تھے
بولتا  کوئی نہیں آج بھی،   ہم ہی  بولتے  ہیں
دیدہ ور ،اہل صفا ،  اہل جنوں  چپ ہی رہے
سچ کو لکھتے ، جو ہوئے ہاتھ قلم   بولتے  ہیں
 جب تک سچ  بولنے کا یہ عمل جاری ہے ۔۔۔جاننے اور  پہچاننے کا سفر جاری رہے گا ۔۔۔۔۔اور لاکھوں  لوگوں کی دعائیں  سچ بولنے والوں  کواپنی حفاظت  کے حصار میں رکھیں گی ۔۔۔