Tuesday 22 September 2015

لٹیرے 2

یہ کہانی ہے سندھ کی زمینوں کی لوٹ مار کی ۔۔۔ سابق صدر کے دنیا کے امیر ترین شخص بننے کے خواب کی اور  دولت کی ہوس کی ۔
سندھ کی سرکاری زمینوں  کی لوٹ مار عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ اب یہ سرکاری زمین    ملک کی بااثر سیاسی شخصیت کے پھلتے پھولتے  کاروبار  اور صرف  سندھ میں 14 شگر ملز تک پہنچنے والے  صنعتی یونٹوں کے نام منتقل کی جارہی ہے ۔ اور ان زمینوں کے نام پر  پر قومی بینکوں کو لوٹنے کی نئی سکیمیں بھی بنائی جارہی ہیں ۔ یہ کہانی   اومنی گروپ کے نام سے کام کرنے والے  سابق  صدر آصف علی زرداری کے فرنٹ مین اور انکے کاروبار کے رکھوالے  انور مجید کے گرد گھومتی ہے ۔ سرکاری زمینوں  کو اپنے نام الاٹ کرانے کی ذمہ داری سابق صدر کے منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی  بخوبی نبھا رہے ہیں ، تو کارپوریٹ  سیکٹر  کی طرز پر  کاروبار کو چلانے اور ان زمینوں پر بینکوں سے قرضہ  لینے  کےمعاملات کی دیکھ بھال انور مجید کر رہے ہیں ۔ 
صنعتی اعتبار سے  کاروبار کو وسعت دینے کیلئے  دھونس ، دھمکی دھاندلی اور قبضوں سمیت ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے ۔  راقم کے اس دعوے کی  سچائی  کی گواہی   دیوان یوسف بھی دینگے جنکی دو شگر ملز  کھوسکی شگر ملز  اور تلہار شوگر  ملز کو سابق صدر کے دور  میں زبردستی ان  سے ہتھا لیا گیا ۔   اور مطالبے  یہاں تک پہنچے کے دیوان  سٹی جہاں  دیوان موٹر  سمیت   دیوان گروپ کی پانچ مختلف فیکٹریز قائم ہیں ۔ بلاول  کو پسند آگئی ہیں ۔ لہذا  یہ انکے حوالے کی جائیں ۔  اور تاریخ گواہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے سابق دور میں دیوان گروپ کو  اتنا تنگ کیا گیا کہ دیوان یوسف  ملک چھوڑ کر لندن سدھار گئے ۔ اور انکی واپسی  نواز شریف   کے  اقتدار میں آنے کے بعد ہی ہو سکی ہے ۔ جبکہ اس وقت  بھی سندھ کے سابق گورنر   اور  معروف کاروباری  کمیونٹی   سے تعلق  رکھنے والے اشرف تابانی  کی  دو شگر ملوں  ٹنڈو محمد خان  شگر ملز اور سیری شگر ملز  پر  سندھ پولیس کے کمانڈوز  تعینات  کردئے گئے ہیں ۔ اور گذرشتہ دو سال سے ملز کے مالک کو  نہ تو اپنی مل کے اندر داخل ہونے کی  اجازت دی جارہی ہے اور نہ  ہی انہیں چلانے کی ۔ بلکہ انہیں دھمکایا جا رہا ہے کہ دونوں ملز اونے پونے  اومنی گروپ کو فروخت کردی جائیں ۔  لیکن جو کہانی ہم آپ کو آج سنانے جارہے ہیں ۔ وہ کہانی ہے  سندھ کی زمینوں کے ساتھ کھلواڑ کی  اور زمینوں  کی بندر بانٹ  کی ۔  
  سندھ  کے مختلف  اضلاع کی محکمہ جنگلات کی26 ھزار 800 ایکڑسے زائد زمیں  سندھ کی ایک با اثر سیاسی شخصیت اور سابق صدر  نے  پانچ مختلف کمپنیاں  بنا کر   لیز کر وا لی ہے ۔ جن اضلاع  کی زمین  دی  گئی  ہے  ان میں  ضلع بدین ، دادو ، سجاول  اور ٹھٹہ  شامل ہیں ۔  
15 فروری 2005 کو جاری ہونے والی   سندھ ایگرو فاریسٹ  پالیسی کے تحت  محکمہ جنگلات کی زمین  کسی این جی او ، کسی کمیونٹی ا ٓرگنائیزیشن  اور کسی   صنعت کار کو الاٹ نہیں کی جا سکتی ۔  بلکہ  یہ زمین انفرادی طور پر لوگوں کو الاٹ کی جائے گی ۔ اور کسی بھی فرد کو  40 ایکڑ سے زائد زمین  الاٹ نہیں کی جا سکتی ۔ جبکہ یہ تمام لیز اوپن آکشن کے زریعے  دی جائے گی ۔ جبکہ  قریبی ا ٓباد دیہاتیوں کو ترجیح دی جائے گی ۔
لیکن سندھ کی بیورو کریسی  میں شامل ایک باخبر زریعے نے راقم کو بتایا کہ   ملک کی با اثر شخصیت  کی ہدایت پر انکے کاروباری  فرنٹ  مین کو فائدہ پہنچانے کیلئے 24 دسمبر      2010 میں سندھ فاریسٹ  پالیسی میں راتوں رات تبدیلی کا ایک نوٹیفکیشن  جاری کیا گیا ۔   
مذکورہ  شخصیت    کو فائدہ پہنچانے کیلئے   2010 میں پالیسی کے کلاس6 میں تبدیلی کرتے ہوئے  40 ایکڑ سے ذیادہ   لیز  نہ دینے کی پابندی کو ختم کردیا گیا ۔ ۔ تاکہ ھزاروں ایکڑ زمین  کو اپنے تصرف میں لایا جا سکے ۔  جبکہ30 مئی   2012 میں دوبارہ   ایک نوٹیفکیشن کے زریعے   سندھ  فاریسٹ پالیسی کے پیرا 5 میں تبدیلی کرتے ہوئے  اسے این جی اوز  اور کارپوریٹ سیکٹر  کو لیز کرنے کی اجازت دے دی گئی ۔ اسطرح   ملک کی باثر سیاسی شخصیت کے فرنٹ مین کیلئے   ھزاروں ایکڑ حکومتی ملکیتی  زمین  دینے کیلئے راہ ہموار کرتے  ہوئے     قانونی  پیچیدگیاں  اور اس راہ مین حائل ساری رکاوٹوں  کو دور کر دیا  گیا ۔   مذکورہ  شخصیت کے فرنٹ مین   انور مجید  نے اس مقصد کیلئے پانچ ڈمی کمپنیاں  بنائیں جن میں   بدین  ایگرو ڈولپمنٹ   فارم پرائیویٹ لمیٹڈ  ، ایگرو فارم  ٹھٹہ  ، سدرن ایگرو  فارم، دادو ایگرو ڈولپمنٹ فارمز پرائیویٹ لمیٹڈ  اور  سجاول ایگرو  فارمز پرائیویت لمیٹد شامل ہیں ۔حیرت انگیز امر یہ ہے  ان تمام  ڈمی کمپنیوں کے دفاتر  لیاقت بیرکس  ہاکی کلب کے  فرسٹ فلور  اور سیکنڈ فلور  پر  ظاہر کئے گئے  جو کہ اومنی گروپ ہی کا دفتر ہے۔   اومنی  گروپ کی یہ تمام  ڈمی  کمپنیاں ایک ہی فون نمبر ، ایک ہی فیکس نمبر اور ایک ہی ای میل ایڈریس  استعمال کرتی ہیں ۔ ایک شخص اسلم مسعود کو  تین کمپنیوں  کا  کرتا دھرتا طاہر کیا گیا ہے ۔  یہی شخس ٹھٹہ ایگرو  اور سدرن ایگرو میں بیک وقت دونوں کا مینیجر ہے ،  جبکہ یہی شخص  دادو ایگرو کمپنی کا سیکریٹری بھی ہے ۔   کہتے ہیں کہ  مجرم کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو  اس سے اپنے جرم کی کوئی  نہ کوئی نشانی چھوٹ ہی جاتی ہے ۔  یہی انور مجید کے ساتھ  بھی ہوا ۔  ان ساری کمپنیوں کی ملکیت  داٗودی مورکاس کے نام سے  ظاہر کی گئی ۔ اور پھر چور کا کھرا یوں ملا  کہ  ساری ڈمی  کمپنیوں کے لیٹر ہیڈ  پہ جو  ای  میل ایڈریس  استعمال کیا گیا ۔ اسکا ڈومین  اومنی گروپ  ہی کا استعمال کیا گیا ۔ 
  کرپشن کی گنگا  کو سسٹم کا حصہ بناتے ہوئے محکمہ جنگلات سندھ کے افسران ، سندھ کی سول بیو کریسی اور سیاستدانوں نے خوب محنت سے کام کیا اور پھر  سب  مل کر اس بہتی  گنگا میں  نہاتے رہے ۔   اس طرح اومنی گروپ کی ڈمی کمپنی  سجاول ایگرو کے نام 8 ھزار 300 ایکڑ  ،  سدرن ایگرو فارم کے نام 3 ھزار 515 ایکڑ، ٹھٹہ ایگرو فارم کے نام 3 ھزار  998 ایکڑ،   بدین ایگرو فارم کے نام 2 ھزار ایکڑ اور دادو ایگرو فارم کے نام سے 500 ایکڑ ز سرکاری زمین  کوڑیوں  کے مول      الاٹ  کردی گئی ۔14 مئی  2014 کو  فاریسٹ  ڈپارٹمنٹ  گورنمنٹ آف سندھ نے یک ہی دن ایک ہی لیٹر   کے زریعے ان پانچ کمپنیوں کے نام 16800 ایکڑ  زمین ایک جھٹکے میں الاٹ  کردی ۔ نہ الاٹ کرنے والوں کو کوئی ہچکچاہٹ  محسوس ہوئی اور نہ ہی  سرکاری زمین ہڑپ کرنے والوں نے کوئی  ڈکار لی ۔۔ ایک ہی ہلے  میں سب کچھ ہضم۔۔۔۔۔
   فاریسٹ  پالیسی کے مطابق محکمہ جنگلات کی زمین  لوگوں کو اس لئے الاٹ  کی جاتی ہے  تاکہ وہ اس پر  جنگلات لگائیں ، اور ساتھ ساتھ  حکومت کی آمدن میں بھی خاطر خواہ   اضافہ ہو لیکن    اس  زمین پر فاریسٹ تو کیا اگائے جاتے  اومنی گروپ نے  اس زمین  پر مچھلیوں کے تالاب بنا ڈالے ۔ اور قریب سے گذرنے والے بیراج سے غیر قانونی طور پر  ایک نہر نکال کر ان مچھلیوں  کے  تالابوں کو سیراب  کیا جا رہا ہے ۔
لیکن جن قانونی موشگافیوں کا سہارا لیکر   یہ زمین الاٹ کی گئی وہ قانونی نوٹیفکیشن  سندھ گزٹ میں شائع ہی نہیں کیا گیا ۔  اور اصولا  کوئی قانون  اس وقت تک لاگو نہیں ہوتا  جب تک کہ وہ سندھ گزٹ  میں شائع  نہ ہو ۔  اس طرح   عملی طور پر   سندھ  فاریسٹ   ایگرو  پالیسی   میں جو تبدیلیاں  کی گئیں  قانونی لحاظ سے  وہ ساری   غیر موثر  رہیں ۔ جس سے اس زمین کی قانونی ملکیت پر سوالات پیدا ہو گئے ہیں ۔  اومنی گروپ میں موجود    کچھ زرائع نے  راقم کو بتایا کہ اب اس زمین پر قومی بینکوں سے اربوں روپے قرضہ لینے کی تیاریاں کی جارہی ہیں ۔ اور کئی بینکوں کو قرضے کیلئے درخواستیں بھی جمع کرادی  گئی ہیں ۔ اور اس طرح  ان کمپنیوں کے زریعے سندھ کے  پانچ اضلاع کی قیمتی زمین نجی صنعتی گروپس کے کاروبار کے فروغ کیلئے اومنی گروپ  کے قبضے میں دے دی گئی
لیکن زمینوں کی بندر بانٹ کی یہ کہانی  صرف یہیں ختم نہیں ہوتی ۔۔۔  بلکہ ان پانچ  کمپنیوں کو زمین  الاٹ کرنے کے ٹھیک 15 دن بعد  یعنی 30 مئی 2014  کو   کھنڈرات  میں تبدیل شدہ  ٹھٹہ شگر مل کے نام پر بھی  10 ھزار ایکڑ  زمین  الاٹ کردی گئی
  چیف کنزرویٹر  آف فاریسٹ  حیدرآباد نے  بتاریخ   ۔15 مئی 2014  کو ٹھٹہ شگر مل کے نام پر  الاٹ  کی گئی زمین کا  جو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے  اسکے مطابق  یہ ایڈیشنل ایریا  ہے ۔ جسکا مطلب کہ اس  سےپہلے بھی  کافی زمین الاٹ کی گئی ۔ جو میڈیا کی نظروں میں نہیں آ سکی ہے ۔
 زرائع کے مطابق  ٹھٹہ سجاول ، دادو اور بدین  میں موجود  محکمہ جنگلات  کی زمین  بلاکس کی شکل میں موجود ہے ۔ اگر 80 ایکڑ کے ایک بلاک سے 30 ایکڑ   الاٹ  کی گئی تو بقایا زمین پر ویسے ہی قبضہ کر لیا گیا ہے ۔ اسطرح    کاغذوں اور سرکاری فائلوں میں یہ زمین اگر 26 ھزار  800 ایکڑ ہے تو   قبضہ کی گئی   زمین 60 ھزار ایکڑ سے زائد ہے ۔ زرائع کے مطابق   10 ارب روپے سے زائد یہ سرکاری زمین  جو صدر زرداری  کے فرنٹ  مین کی ڈمی کمپنیوں  کو  الاٹ  کی گئی  اومنی گروپ نے  اسکے لئے صرف  سات کروڑ ، 21 لاکھ 86 ھزار 740 روپے  فیس ادا کی ۔
10 ارب  روپے سے زائد   کا یہ میگا اسکینڈل ، پی پی کی صوبائی  حکومت کا ایسا  کارنامہ ہے ، جو سندھ میں پیپلز پارٹی کی بد انتطامی کی اعلیٰ  مثال ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا  سندھ کی پوری سرکاری مشینری میں کوئی ایک بھی ایسا باقی نہ بچا جو اس کرپشن کے  آگے  بند باندھتا ؟
ٹھٹہ ، بدین ، سجاول اور زیرین  سندھ کے لاکھوں لوگ   پوچھتے ہیں کہ کیا   کرپشن کو سسٹم کا حصہ   بنانے کے بعد  سندھ کی سر کاری  زمینوں کی لوٹ  مار جاری رہیگی ؟
سندھ  میں کرپشن کی تیسری   کہانی  اگلی قسط میں  ملاحظہ کیجئے گا ۔


No comments:

Post a Comment