Wednesday 7 December 2016

پاکستانی میڈیا کو درپیش 10چیلنجز


ایک حالیہ  سروے کے مطابق پاکستانی  ٹی وی کے63 فیصد  ناظرین اب نیوز چینل چھوڑ کر  انٹر ٹینمنٹ چینلز ، اسپورٹس اور ترکش  سوپ دیکھ رہے ہیں ۔ صرف 37 فیصد  ناظرین  کی دلچسپی نیو ز  چینلز میں برقرار ہے  ۔ ان 37 فیصد میں  سے بھی 16  فیصد لوگ جیو نیوز دیکھتے ہیں  جبکہ بقیہ  21 فیصد باقی سارے چینلز  کا طواف کرتے ہیں  ۔ پاکستانی ناظرین کی نیوز چینلز میں دن بہ دن  کم ہوتی  دلچسپی   کی سب سے بڑی  وجہ   خراب ہوتی نیوز اسکرین ہے ۔ جو دیکھنے والوں میں ایک ھیجانی کیفیت  پیدا کر دیتی ہے ۔  نیو ز رپورٹ کرنے کے بجائے  نیوز  تخلیق کرنے کے  فروغ  پاتے نئے  رجحان  نے   پیشہ صحافت اور  پیشہ ورصحافیوں کیلئے  نت نئے چیلیجنز کو جنم دیا ہے ۔ 
بارشوں کے نتیجے میں  آنے والے سیلاب کو روکنے اورکنٹرول کرنے کیلئے  دریاوں پہ بند بنائے جاتے ہیں ، بیراج   اور ڈیم تعمیر کرکے سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔  کیونکہ اگر سیلابی پانی کو کنٹرول نہ کیا جائے تو  وہ بستیوں کو تہہ و بالا کردیتا ہے صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے ۔ اور سیلابی پانی  پی کر قوم  بیمار ہوجاتی ہے بعینہ   اسی طرح اس وقت   ملک میں انفارمیشن اور معلومات کا ایک سیلاب ہے جو پرنٹ میڈیا ، الیکٹرونک میڈیا  اور سوشل میڈیا  کے زریعے  ہر لمحہ تیز  سے تیز تر ہو تا  جا رہا ہے ۔  حتیٰ  کہ   ایک ایک منٹ میں ہمارے واٹس اپ پہ اتنی  معلومات  موصول  ہو رہی ہوتی ہیں کہ ہم اسے دیکھنے اور پڑھنے سے قا صر ہو جاتے ہیں ۔  
 انفارمیشن کے اس  سیلاب کے آگے بند باندھنے کیلئے نیوز رومز میں ۔  ڈیسک کا کام  ، کوالٹی کنٹرول پرو ڈیوسرز ،  وڈیو ایڈیٹنگ ڈیسک      دراصل وہ   بیراج اور ڈیم اور بند ہیں جن کے زریعے سے  انفارمیشن کے اس  سیلاب کو  کنٹرول کیا جاتا ہے ، خبر کو ٹریٹ کیا جاتا ہے اور ایڈیٹنگ  اور  چیک کےمراحل سے گذارا  جاتا ہے ۔ لیکن میڈیا ھاوسز میں کمزور اور دن بہ دن معدوم ہوتا   ایڈیٹوریل  انسٹیٹیوتشن   اس سیلاب کو کنٹرول کرنے اس کے آگے بند باندھنے سے قاصر ہے  ۔ جسکے نتیجے میں  ان ٹریٹڈ   اور ان ایڈیٹڈ   انفارمیشن  قوم تک  پہنچا کر قوم کو ذھنی مریض   بنا دیا گیا ہے ۔  ھیجانی کیفیت میں  ٹی وی اسکرین دیکھنے والی قوم کو    بیمار   بنا دیاگیا ہے ۔
اسیے حالات میں کہ جب ایک اور  کھلونا   ہر رپورٹر کو تھمایا جا رہا ہے ۔  کہ اپنے موبائل فون سے شوٹ  بھی خود کرو ،اسکرپٹ خود لکھ کر اسی موبائل فون سے وائس اور  بھی خود کرو  اور  اسی اسمارٹ فون سے وڈیو ایڈیٹنگ کرکے   خبری پیکج  ڈائریکیٹ  نیوز روم کو بھیج دو ۔ اسکے نتیجے میں مستقبل قریب میں ٹی وی اسکرین  مزید خراب ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ اندازہ ہے کہ اس کے نتیجے میں   ٹی وی دیکھنے والے ناظرین کی تعداد 37 فیصد سے بھی مزید کم ہو جائے گی ۔
ایسے حالات میں پاکستان میں  پیشہ صحافت اور صحافیوں کو  10 بڑے چیلنج درپیش ہیں  جن کا مقابلہ کرنا   وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
1۔  اس  وقت  پاکستانی میڈیا   دو حصوں میں منقسم ہے  ، جسمیں سے ایک خود ساختہ    مین اسٹریم میڈیا  ( قومی  میڈیا ) کہلاتا ہے  ، جبکہ دوسرے کو ریجنل میڈیا   یا  لوکل میڈیا کا نام دیا جاتا ہے ۔  خود مین اسٹریم میڈیا  بھی سیاسی بنیادوں پر  تقسیم کا شکار ہے ۔  غیر جانبدار  قومی بیانیہ     کی بحث    جو کہ  مین اسٹریم میڈیا   کا اہم کام ہے ۔  مین اسٹریم میڈیا  اپنا وہ فرض   نبھاتا ہوا نظر نہیں آتا ۔  کشمیر  مین اسٹریم میڈیا میں صرف  تب نظر آتا ہے  جب   زلزلہ آتا ہے ۔۔۔۔ خیبر ایجنسی    مین اسٹریم  میڈیا یں تب نظر  آتی ہے جب وہاں   کوئی خود کش بمبار پھٹتا  ہے ۔۔۔۔۔۔ بلو چستان مین اسٹریم میڈیا  میں تب نظر آتا ہے جب وہاں کوئی دہشت گردی کا وقعہ  رونما ہوجائے ۔۔۔۔جبکہ   دوسری جانب یہی  مین اسٹریم  میڈیا  کسی نہ کسی سیاسی پارٹی  کا ایجنڈا   ٹوہ کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔  جسکا اظہار   اسکی نیوز فارمیٹنگ  اور  پرو گرامنگ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔
 2۔دوسری جانب یہی  مین اسٹریم میڈیا  لوکل میڈیا   یا   ریجنل میڈیا کی طرف سے اٹھائے گئے ان عوامی مسائل کو  اجاگر  کرنے میں ناکام رہا ہے جو واقعی   عوامی مسائل اور عوامی اشوز ہیں ۔  بعض اوقات   مین اسٹریم میڈیا  کی تمام ترھیڈلائنز صرف سیاسی بیانات اور پولیٹیکل  پارٹیز   کے بیانات کا احاطہ کرتی نظر آتی ہیں ۔    مین اسٹریم میڈیا کے اس رویے نے  عوام الناس کو    نیوز چینل سے بد ظن کرکے  انٹرٹینمنٹ چینل دیکھنے پر مجبور  کیا ہے ۔   جسکی واضح مثال  اس دن کی ہے جب کراچی میں ملیر کے  ایس پی راو انوار کو معطل کیا گیا ۔ دوسری جانب اسی دن خیبر ایجنسی  کی مسجد میں بم دھماکے میں درجنوں لوگ  جاں بحق ہو گئے ۔ لیکن مین اسٹریم میڈیا کیلئے  راو انوار کی معطلی کی  خبر اہم  تھی ، کئی گھنٹوں تک  اہم قومی چینلز  کی ھیڈ لائن اسٹوری تھی ۔ جبکہ خیبر ایجنسی  میں انسانی جانوں کا ضیاع  اس  نام نہاد  قومی میڈیا  میں  جگہ  نہیں  بنا  پایا ۔   
یعنی  عوام جسے خبر سمجھتے ہیں ۔۔۔۔ مین اسٹریم  میڈیا   اسے  خبر ہی نہیں گردانتا ۔۔۔۔ نہ مین اسٹریم میڈیا میں اس اشو کیلئے کوئی جگہ ہوتی ہے ۔  محسن بھوپالی نے ایسے ہی میڈیا   کیلئے کہا تھا ۔
 جو دل  کو ہے خبر  ۔  نہیں ملتی کہیں خبر
ہر روز اک  عذاب ہے  اخبار  دیکھنا
3۔  دنیا بھر میں ( ھارڈ پوسٹنگ )  کی ایک اصطلاح رائج ہے ۔ کہ جہاں  جس علاقے میں خظرات ذیادہ ہوں  ،  کنفلکٹ  زون  ہو وہاں  پر متعین صحافی کے  پرکس اور  اسکو ملنے والی سہولیات    اور مراعات عام صحافی   کی بنسبت   زیادہ ہوتی ہیں ۔ مثلا   نیویارک میں کام کرنے والے  سی این این  کے ایک رپورٹر کی تنخواہ اور  اور اسکی مراعات   اس رپورٹر  سے  کم ہونگی جو افغانستان   میں خدمات سرانجام دے رہا ہے ۔  کابل میں  خدمات  دینے والے صحافی  کا معاوضہ اور  اسکی مراعات    عام صحافیوں  سے ہر حال میں     ذیادہ ہونگی ۔  
لیکن بد قسمتی سے پاکستانی  میڈیا   میں اسکے بلکل برعکس ہے ۔  بلوچستان اور فاٹا   کے کنفلکٹ زون ہوں  ، یا سندھ کے ریگستانی علاقے ہوں  وہاں کام  کرنے والے صحافیوں کی اجرت اور اسکی مراعات    بلکل  معمولی ہوتی ہیں ۔   جبکہ اسکے  مقابلے  میں کراچی ، لاہور  اور اسلام آباد   کے ائر کنڈیشننڈ  نیوز روم میں  کام کرنے والے صحافی کی مراعات   اس ھارڈ  پوسٹنگ والے صحافی سے ذیادہ  ہوتی ہیں ۔   پاکستانی میڈیا انڈسٹری  میں اس تصور  کو بدلنا ہوگا  ۔ یہی ا س وقت کا  تیسرا  بڑا چیلنج ہے ۔ 
4۔   پاکستانی میڈیا  کا المیہ یہ ہے کہ  پاکستانی میڈیا  کیمرہ ڈومنیٹڈ  میڈیا ہو گیا ہے ۔  سمجھا یہ جاتا ہے کہ جس کے پاس کیمرہ نہیں   شاید وہ صحافی نہیں   اسکی اب کوئی اہمیت ہی نہیں ۔  جبکہ   ایک پروفیشنل  رپورٹر یا ایک پریزینٹر  کی حیثیت  سے   اگر  کیمرہ آپ پر ہے ،  تو آپ کی کوشش ہونی چاہئیے  کہ آپ جتنا جلدی ممکن ہو کیمرہ سے جان چھڑائیں ۔  کیونکہ جتنی دیر آپ کیمرہ  پہ رہینگے   آپ  کی شخصیت ایکسپوز ہونا   شروع  ہو جاتی ہے ۔ آپ کی کمزوریاں  اور کوتا ہیاں  لوگوں پر آشکار ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ ۔ کیمرہ   پہ آنے والے   رپورٹرز   کے ھاتھ میں کبھی نوٹس    نہیں  ہوتے ۔  یہ نوٹس ایک رپورٹر  کی  خبر کو رپورٹ کرنے میں  بہترین مددگار  ثابت ہوتے ہیں ۔ لیکن   بغیر نوٹس کے بولے  چلے  جانے کی روش نے بھی   عام ناظر کو نیوز  چینل سے دور کیا ہے ۔
5۔  پاکستانی صحافت کو ایک بہت بڑا چیلنج   یہ بھی درپیش ہے کہ  اسے اب فوری طور پر اینکر پرسن ، پریزینٹر  اور   ایک صحافی  کی کیٹیگری کو الگ کرنا ہو گا ۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک صاحب جسکا     صحافت   سے  دور دراز سے بھی کوئی واسطہ  نہیں  ہوتا ۔ جس نے کبھی زندگی  میں  بنیادی رپورٹنگ  نہیں کی ہوتی ۔۔۔۔ٹی وی اسکرین پر دو چار پروگرام پریزنٹ کرکے   اپنے آپکو صحافی سمجھ رہا ہوتا ہے ۔ اور پوری قوم اسے ہی صحافی  گردان رہی ہوتی ہے ۔اور یہی وہ  نام نہاد صحافی ہوتا ہے  جو مرنے والے کے لواحقین سے پوچھ رہا ہوتا ہے  کہ آپ کیسا محسوس  کررہے ہیں ۔۔۔۔  اور اس سے جو  بھی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں  وہ سب اہل صحافت کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں ۔  پاکستان  کے  صحافیوں کو اب   بہت جلد  یہ کیٹیگریز بنانا ہونگی  کہ  آیا کوئی شخص   صحافی ہے یا  اینکر اور پریزنٹر ۔ ۔۔۔۔ اینکر پریزنٹر  اور صحا فی کی کیٹیگریز الگ الگ  کرنا ہوں  گی
6۔ یہ اب ایک عام معملول بن گیا ہے  کہ سوشل میڈیا  پر چلنے والی  ایک افواہ   کچھ ہی دیر میں   نیوز چینل کی اسکرین پر   خبر کی شکل میں چلتی ہوئی نظر آتی ہے ۔  لوگ  جب کسی صحافی کو سوشل میڈیا  پہ  فالو  کرتے ہیں تو  وہ آپ سے   کسی نیوز کی توقع کر رہے ہوتے ہیں افواہ کی نہیں ۔ اور اگر  اسکے بدلے انہیں  ایک افواہ   ملے تو وہ بد ظن ہو جاتے ہیں ۔ لہذا    افواہ کو نیوز چینل کی خبر میں بدلنے  کے رجحان   کو ختم کرنا ہو گا ۔۔۔  
7۔    لائیو نیوز کے کلچر کے بعد   نیوز رومز کے اندر  اب لازما    یہ کیٹیگریز بننی چاہییں    کہ کون سا رپورٹر لائیو   نیوز کور کریگا  اور کون نہیں ۔۔۔۔ کون سا  رپورٹر لائیو بیپر دیگا اور  کون نہیں ۔   ۔۔۔۔ کونسا رپورٹر   حساس  رپورٹنگ اور   اشوز کو کور کریگا   اور کون نہیں ۔۔۔۔۔اور سب سے  اہم بات یہ ہے کہ اب  ہر صحافی   کو بذات خود    صحافتی ضابطوں اور اقدار کی پیروی کرنی ہوگی ۔
8۔  ریٹنگ کے  دور میں  اب پاکستانی میڈیا  اس انتہا پہ پہنچ  گیا ہے کہ وہ  خبرکو رپورٹ  کرنے کے بجائے       خبر  کو تخلیق   کرنے پر تل گیا ہے ، جو کسی طوربھی قابل قبول  نہیں ہے ۔   اس خطرناک رجحان نے    صحافت کی بنیادیں  ہلا کر رکھ دی ہیں ۔۔۔۔نیوز  روم کی جانب سے   ایک رپورٹر سے یہ فرمائش کی جاتی ہے   کہ کوئی خبر بناو  ۔۔۔۔ کسی خبر میں مصالحہ لگاو ۔۔۔۔ اس خبر میں کچھ ڈالو ۔۔۔۔۔ خبر کو تخلیق  کرنا کسی طور پر بھی درست نہیں  اور  میڈہیا مینیجرز کو اپنی اس روش کو  اب بدلنا ہوگا ۔
9۔  ہمیں تو بیس سالوں تک   استادوں نے   نیوز رومز  میں یہی سکھایا کہ     سارا جرنلزم کرنٹ افیئر کا کھیل  ہے ۔۔۔  لیکن ہمارے ہاں   نئے رجحان یہ ہیں کہ کرنٹ  افیئر  صرف سیاست ہے ۔   جو کسی طور درست  نہیں ۔۔۔۔ کرنٹ افیئر کے سارے پروگرام صرف  سیاسی بیان بازی کا  احاطہ  کرتے نظر آتے  ہیں ۔  ہمیں  ایسے میڈیا مینیجرز کیلئے ایک  نئی کھڑکی بنا کر انہیں دکھانا  اور سمجھانا ہوگا  کہ  جو کچھ ہماری روز مرہ کی زندگیوں کو افیکٹ  کر رہا ہے  ۔ وہی کرنٹ افیئر ہے ۔وہی اب ہمارے پروگراموں کا سبجیکٹ ہونا چاہئیے۔   اس رجحان  کو نئے سرے سے دیکھنے اور بدلنے کی ضرورت ہے ۔
10۔   ایک اور بڑا اور خطرناک رجحان  جو پروان چڑھ رہا ہے ۔ جسے چیلنج سمجھ کر بدلنا ہے  وہ ہے خواہشات  کو زرائع بنانا۔  رپورٹر ٹی وی اسکرین پہ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ زرائع کا یہ کہنا ہے ۔۔۔   یا مبصرین  کا خیال ہے ۔۔۔۔ یہ کوئی زرائع اور مبصرین نہیں ہوتے  یہ رپورٹر کی خواہشات ہوتی ہیں جسے وہ خبر بنا کر پیش کر رہا ہوتا ہے ۔ ۔۔۔ ( ہم سمجھتے ہیں کہ زرائع اور سورس  بہت مقدس ہیں لیکن  خواہشات کو  زرائع  کہنا ۔ یا مبصر کا لبادہ اڑھانا کسی طور قابل قبول نہیں ۔

یہ وہ  چیدہ چیدہ چیلینجز ہیں    جن سے   نبرد آزما ہو کر ہم   صحافت  کو  اور ٹی وی اسکرین   کو کسی حد تک   عوام کیلئے  قابل قبول بنا سکتے ہیں ۔ 

Monday 31 October 2016

کراچی کی سماجی اور گروہی سیاست میں جکڑا صحافی


1870 میں 13 اسکوئر کلومیٹر پر مشتمل کراچی شہر آج پھیل کر 3600 کلو میٹر پر محیط  ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے 1300  کلو میٹر  کا علاقہ تعمیرات   سے بھر گیا ہے ۔۔۔۔۔
16 ملین آبادی کا شہر کراچی  3600  کلو میٹر پرپھیلا ہوا ہے ۔ ۔۔کراچی کے ارتقا ء، پھیلا و اور معاشی ترقی کی کہانی درحقیقت ایک ایسی کہانی ہے جس نے کل کے کراچی کو ایک چھوٹے سے گاوں سے آج ایک بڑے وسیع و عریض ترقی یافتہ شہر میں تبدیل کردیا ہے ۔ کراچی شہر کے تیزی سے پھیلاو کی وجہ 50/60 کی دہاء ی میں بوجہ تقسیم ہند نظر آتی ہے ۔ لیکن 70/80 کی دہائی میں دیہی علاقوں کی جانب سے معاشی بنیادوں پر انتقال آبادی  کے باعث  شہر کو جغرافیائی حدود ، نظم و نسق ۔ اور دوسرے متنوع مسائل کا سا منا کرنا پڑ رہا ہے ۔
۔۔۔ آج کے   مہنگے سماج میں بھی کراچی کا  شمار  دنیا  کے تین بڑے سستے شہروں میں  کیا جاتا ہے ، جہاں ایک مزدور بیس روپے میں  کھانا کھا سکتا ہے ۔   کراچی  کی ہمہ گیری ، اور اسکے تنوع  نے یہاں  بتدریج  مختلف   سماجی  تبدیلیوں کی راہ ہموار کی ہے ، جسکے باعث یہاں  کے مسائل   کی بھی مختلف جہتیں ہیں ۔ صنعتی ترقی سے جہاں شہر کی جغرافیائی حدود میں اضافہ ہوا ہے ۔ وہاں نظری اور عملی نظم و نسق کے مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔
یہ ایک ایسا ملک ہے جس  میں دیہی ، شہری  اور صوبائی سطح پر   سماجی اور  معاشی  طور پر واضح تفریق  موجود ہے ۔ اس سماجی  تفریق نے  معاشرے  میں  معاشی ناہمواری میں بھی  اہم کردار ادا کیا ہے ۔  جس کےنتیجے کے طور پر   بہتر روز گار کے حصول  اور معاشی  ناہموری   کی دلدل سے نکلنے کیلئے    اندرون ملک بڑے پیمانے پر ھجرت ہوئی ۔ اس ھجرت کے بہاو کا رخ کراچی کی جانب ہی رہا ۔ جس نے اس شہر میں مختلف  قومیتوں ، مختلف زبان بولنے والوں کو اپنی گود میں سمیٹا اور انہیں روزگار فراہم کیا ۔ لیکن  شہر کے نطام میں اتنی وسعت  نہیں تھی کہ  وہ ان قومیتوں  کو اپنے اندر سمو پاتا ، اسکے نتیجے میں  یہاں مختلف گروہوں نے  اپنا اسپیس   لینے کیلئے اس شہر کو ٹکڑیوں اور  علاقوں میں بانٹ لیا ۔  گروہی تقسیم  نے  اس شہر  کی سیاسیات پر بھی  گہرے اثرات  ڈالے  جس کی جڑیں معاشی مفادات سے وابستہ رہیں ۔ شہر کی وسعت اور ہمہ گیری  نے  مذھبی انتہا پسندوں کو بھی اسے جائے  فرار و قرار  سمجھنے  پر مجبور کیا اور انکی کمین گاہین  بھی اس شہر کا حصہ بن گئیں ۔
اور انہی گروہی  مسائل میں گھرا  کراچی اور اسکا صحافی  بھی  ان مسائل کا شکار رہا ۔۔اور نتیجتا یہاں کا صحافی  گروہی اور معاشی مفادات  کی زد پر آنے کی وجہ سے ہمیشہ  خطرات سے دو چار رہا ، جسکی واضح  مثال گذرشتہ سالوں میں  ایک  بڑے میڈیا ھاوس سے وابستہ صحافی ولی خان بابر کا  قتل تھا ۔ جو اسی  گروہی  سیاست کی بھینٹ چڑھا ۔ جبکہ حالیہ دنوں  میں  میڈیا ھاوسز اور انکی املاک پر ہونے والے حملے بھی  اس شہر کی اس سماجی اور گروہی وسعت کو ظاہر کرتے ہیں جس کا اوپر ذکر ہوا ۔ 
اپنے مفاد ات پرپڑنے والی زد کا غصہ ہر گروہ   اس چلتے پھرتے  میڈیا کے ڈبوں پر نکالتا ہے ، جنہیں ڈی ایس این جی کا نام دیا جاتا ہے ۔  نتیجتا  ان ڈی ایس این جیز پر متعین میڈیا ورکرز اپنی جان سے ھاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ کراچی کے علاقے  بہادر آباد میں اسی طرح  ڈی ایس این جی وین پرہونے والے حملے میں ایک میڈیا کارکن اپنی  جان گنوا بیٹھے ۔
یہاں کا  ہر گروہ ، اپنے معاشی  اور سیاسی مفاد کی ہر خبر کو اپنے اینگل اور اپنے نظریے  کی عینک سے اسکرین پر دیکھنا  چاہتا ہے ، اور اس مقصد کے حصول کے لئے  اس کی پہلی نظر  اس رپورٹر اور کیمرہ مین پر پڑتی ہے  جس کے ھاتھ میں مائیک اور جس کے کندھے پہ کیمرہ رکھا ہوتا ہے ۔    ۔ہر گروہ کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک پروفیشنل صحافی بن کر نہیں بلکہ اسکے گروہ کا ترجمان بن کر قلم چلائے ۔نتیجتا یہاں کا صحافی خوف اور تشدد کے ماحول میں  اپنی ذمہ داریوں کو  ادا کرتا ہے ، جس سے پیدا ہونے والا اسٹریس  اسکی زندگی کا روگ بن جاتا ہے ۔  
اس  شہر کے صحافی کی نہ تو املاک محٖفوظ ہے اور نہ ہی اسکے آنے جانے کے روٹس   پر اسے تحفظ حاصل ہے ۔   جسکی واضح  مثال کراچی کے ایک صحافی کو اسکے گھر کے دروازے پر قتل کیا جانا ہے ۔ ان ساری مشکلات میں گھرے کراچی کے صحافی کو  اپنے اداروں کی جانب سے بھی  خاطر خواہ   تحفظ  حاصل نہیں ، نہ انکی لائف انشورنس ، اور نہ ہی کسی ناگہانی کے بعد انکے بچوں کی کفالت جیسے  مسائل ان   اداروں کی ترجیحات میں شامل ہیں ۔
دھونس ، دھمکیوں ، جان کے خطرات   کے خدشات میں گھرا کراچی کا صحافی  ایک ایسی منزل کا مسافر ہے  جس کے راستے میں آنے والا ہر موڑ  اسے یہ پیشہ ترک کرے   کوئی اور پروفیشن اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے  ۔۔۔لیکن اسکے با وجود یہاں کے صحافی کی اپنے پیشے سے ان مٹ کمٹمنٹ   اور سیاسی و سماجی  گروہوں کے درمیان رہ کر بھی آگ اور کھائی کے درمیان  موجود پتلی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے  اپنی ذمہ داریوں  کو احسن طریقے سے انجام دینے کی لگن  اسے ملک  بھر کے  دوسرے صحافیوں سے ممتاز کرتی ہے  

Tuesday 26 July 2016

تحقیقاتی صحافت ۔۔۔۔۔ اور سیکیورٹی معاملات


تصور کریں کہ آپ جیسے ہی اپنا  میل ان بکس  کھولتے ہیں آپ کو ایک ایسی  ای میل موصول ہوتی ہے  جوکسی   نامعلوم شخص کی جانب سے کہ وہ  آپ سے انتہائی اہم رازوں سے پردہ اٹھانا چاہتا ہے۔ یا  انتہائی اہم  معلومات شئیر کرنا چاہتا ہے ، اور آپ سے  پروٹیکشن بھی چاہتا ہے  ؟  تو آپ کیا کرینگے ؟

اس مضمون کا مقصد آج کی ڈیجیٹل    دنیا  میں   صحافیوں  اور میڈیا   آرگنائیزیشن  کو یہ بتانا ہے کہ معلومات کی سیکیورٹی  کس طرح یقینی بنائی جائے ۔  کس طرح اپنے کام ، اپنی سورسز اور  اپنی کمیونیکیشن کو  محفوظ بنایا جائے ۔  تاکہ تحقیقاتی صحافت  کرنے والے عامل صحافیوں ، اور  ان کی سورسز کو لاحق  ان خطرات سے بچا یا جا سکے جو خطرات کے  انتہائی رسک پہ ہیں ۔
انفارمیشن سیکیورٹی ، یا انفو سیک   کا مطلب ہے کہ معلومات کو  غیر مجاز    رسائی سے کیسے روکا جائے ۔  وہ معلومات  آپ کے وہ اسٹوری آئیڈیاز بھی ہو سکتے ہیں  جن پہ آپ کام کر رہے ہیں ۔، ان اسٹوریز سے متعلق فائلز بھی ہو سکتی  ہیں ۔۔۔۔  آپ کی سورسز کی  شناخت بھی ہو سکتی ہے ۔  انکے ساتھ آپ کی کمیونیکشن بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔۔ اور ایسے  وقت  پہ خود آپ کی اپنی شناخت بھی  آپ  کو مسائل سے دوچار کر سکتی ہے ۔ اور آپ کی زندگی کو لاحق خطرات میں اضافہ کر سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔  وقت سے پہلےیہ معلومات  لیک ہونے سے  آپ کی زندگی  خظرات سے دو چار ہو سکتی ہے ۔ ہمارےئ پاکستانی معاشرے میں  جسکی واضح مثال ہمارے سامنے جیو نیوز کے رپورٹر والی خان بابر  کی ہے جو کچھ ایسی اسٹوریز پر کام کر رہے تھے ۔  جن کے لیک ہونے سے وہ اپنی زندگی سے ھاتھ دھو بیٹھے ۔
حالیہ  دو عشروں میں ملکی سیکیورٹی اداروں کے امریکہ   کے ساتھ  قریبی سیکیورٹی تعاون  نے ہماری ملکی ایجنسیز کو بھی اس قابل بنایا ہے کہ    وہ   کمیونیکشن کو  انٹر سیپٹ کریں  اور   کسی بھی پرسنل کمپیوٹر پر غیر مجاز ڈیٹا تک رسائی  حاصل کر لیں ۔  تحقیقاتی سحافت  کے میدان میں کام کرنے والے صحافیوں کیلئے یہ  ایک رسک بن سکتا ہے ۔  جو حکومت کے حوالے سے ، سیکیورٹی ایجنسیز کے حوالے سے   اپنی اسٹوریز پر کام کر رے ہیں ۔
آپ کے ڈیٹا تک غیز مجاز   رسائی   آپ  کے ڈیٹا کے استعمال کا تقا ضا کرے گی  اور اسکے نتیجے میں  آپ کے ڈیٹا  میں  موڈیفکیشن ہو سکتی ہے ، اسکی  انسپیکشن ہو سکتی ہے ۔ آپ کی اور آپ کی سورس کی کمیونیکیشن کی ریکارڈنگ ہو سکتی ہے ۔۔  وہ ڈیٹا  متعلقہ اتھارٹیز  تک  ظا ہر ہو سکتا ہے ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے   ضائع بھی کیا جا سکتا ہے ۔  
ایک عامل تحقیقاتی   صحافی کیلئے پہلی  لازمی چیز   یہ ہےکہ اسے ان  خظرات کا علم ہو اور ان سے آگاہی حاصل ہو ۔
 دوسرے  نمبر پر آپ کو اپنے  ھارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کے پر خطر ہونے کا  علم ہو ۔
لہذا ایک عامل صحافی کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے لئے خطرے کی تشخیص کرے (پرسنل رسک اسسمنٹ )  ،  اور  اپنی  دفا عی حکمت عملی  تیار کرے تاکہ بوقت ضرورت اسے استعمال کر سکے ۔
تحقیقاتی صحافت کی دنیا میں کام کرنے والے صحافیوں کی سکیورٹی  کو یقینی بناے کیلئے  انہیں مندرجہ زیل   اہم اقدامات کی طرف خصوصی توجہ دینی ہوگی
1۔ سب سے پہلے   اپنے   سسٹم کو پروٹیکٹ کریں ۔ اسکے ھارڈ ویئر اور  سافٹ ویئر کی سیکیورٹی یقینی بنائیں
2۔  صحیح لیپ ٹاپ کی خریداری ، اور  پا س ورڈز اور کی گارڈز کی زریعے ہر وقت اپنے لیپ ٹاپ کی نگہبانی کرنی ہوگی  (زہن نشین رہے کہ  2006 سے  انٹیل نے  ایک ایسی چپ لگانی شروع کی ہے جسے(    انٹیل اکیٹو مینجمنٹ ٹیکنالوج )   کہا جاتا ہے جس کے زریعے سے  ایک آئی ٹی ٹیکنیشن   کسی بھی جگہ سے  آپ کے سسٹم کے سافٹ ویئر ز کو ریموٹ کنٹرول کے زریعے سے اپ ڈیٹ یا ڈلیٹ کر سکتا ہے   ۔ اسکے لئے اسکا آپ کے سسٹم کے قریب ہونا ضروری نہیں ہے ۔
3۔  اپنے سسٹم کے ویب کیمرہ  اور مائیکرو فون کو محفوظ بنائیے ۔ کیو نکہ آ پ کے  لیپ ٹاپ کا  ویب کیمرہ  اور آپ کا  مائیکرو فون ریموٹ   لی  آن کیا جاسکتا ہے  کہیں  سے بھی بیٹھ کر ۔
4۔  محفوظ براوزنگ :  جب جب آپ ویب براوزنگ کرتے ہیں تو اپ کی شناخت   کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا سکتا ہے ۔ آپ کے براوزنگ بیھیویرز   کا ڈیٹا اکٹھا  کیا جا سکتا ہے ۔ آپ کے  پاس ورڈز  اور آپ کے آٹو  فل انفارمیشن کا  ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ اور اسکے ساتھ ساتھ آپ کی لوکیشن کا بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے ۔  اس کے لئے ضروری ہے ۔ کہ آپ ایک ایسا براوزر استعما کریں جس  کی ایکسٹینشن  بڑھائی گئی ہوں ۔  اگر ممکن ہو تو  اپنی لوکیشن کو چھپانے کیلئے آپ  (ٹور )   براوزر استعمال کر سکتے ہیں، جو  کسی حد تک ذیادہ محفوظ ہے اور آپ کی لوکیشن کو ظاہر  نہیں کرتا اور ویب سنسرشپ  پہ قابو پا لیتا ہے ۔ 

5 ۔ سب  سے اہم آپ کے ڈیٹا کی سیکیورٹی ہے ۔  جسکے لئے کئی   رسک بھی ہیں ۔ اور اسے محفوظ کرنے کے کئی   طریقے بھی  جو درج ذیل ہیں
حفاظتی  اقدامات
رسک
بیک اپ ڈیٹا
ڈیٹا  کا محو ہونا
انکرپٹ ڈیٹا
ڈیتا کا کرپٹ ہونا
محفوظ طریقے سے فائلز شیئر کریں
ڈیٹا میں  انٹرسیپشن ہونا
محفوظ طریقے سے ڈیٹا   ڈلیٹ کریں
ڈیٹا چوری ہونا

6۔  اپنی ای میل کو محفوظ بنائیں ۔ کوئی بھی شخص  آپ کی ای میل کو پڑھ سکتا ہے ۔ اس کے سبجیکٹ کو  پڑھ سکتا ہے ، آپ جسے ای میل کر رہے ہیں   اسے  جان سکتا ہے ۔ اپ کی ای میل اٹیچمنٹ  کو انٹرسیپٹ  کر سکتا ہے ۔ اور یہ بھی کہ آپ یہ ای میل کہانںسے کر رہے ہیں ، اپ کی لوکیشن کو بھی جان سکتا ہے ۔ ۔ اپ اپنی ای میل کو محفوظ بناے کے لئے چند اقدامات کر سکتے ہیں ، جن میں اپنے پاس ورڈ کو  مضبوط  بنائیں ۔ اسٹرانگ پاس ورڈ   آپ کی ای  میل پہ ہونے والے پہلے حملے کو ناکام بناتا ہے ۔  قابل بھروسہ ای میل پرووائیڈر   پر انحصار کریں ۔  اپنی  ای میل کو ان کرپٹ بنا کر  بھیجیں ۔  اپنی کیز   کو ویری فائی کریں ۔  اپنی ای میل کے سبجیکٹ میں جتنا ہو سکے انتہائی کم معلومات درج کریں ۔  ای میل کیلئے آپ     تھنڈر برڈ کا محفوظ براوزر استعما ل کر سکتے ہیں ۔
7۔ اپنے  میسیجز کو  محفوظ بنائیں ۔  انسٹنٹ میسیجز  ایک تیز ترین زریعہ ہے جو آپ اپنی سورس سے قائم کرتے ہیں ۔ لیکن اسے بھی محفوظ  بنانے کی ضرورت ہے  اسکے لئے  آپ کو ( او۔ ٹی ۔ آر)  آف دی  ریکارڈ  میسیجنرز   استعمال کرنا ہونگے ۔ مارکیٹ میں ایسے کئی  میسینجرز  موجود ہیں جو آپ کے  پیغام کو ان کرپٹ کرکے  بھیجتے ہیں اور اس پیغام تک کسی تھرڈ پارٹی کی رسائی کو ناممکن بناتے ہیں ۔ اسکے  لئے   سگنل ایک بہترین میسینجر ہے  ۔ آپ اسے استعمال کر سکتے ہیں ۔ لیکن یاد رکھئے کہ  آپ  کے  پیغام کے محفوظ رہنے کیلئے   اپ جسے پیغام بھیج رہے ہیں  اس کے پاس بھی  وہی  میسینجر ہونا لازمی ہے ۔ ورنہ اپ کا پیغام   ان کرپٹ نہیں رہے گا ۔
7۔ اپ کا سسمارٹ فون آپ کے لئے سب سے بڑا سیکیورٹی رسک ہے ۔ اس اسمارٹ فون پر آپ  براوزنگ کرتے ہیں آٹومیٹک طریقے سے آپ کا ای میل  ہر وقت اوپن رہتا ہے ۔  یہ آٹو میٹک طریقے سے آپ کی موجودہ اور سابقہ پوزیشنز کا ریکارڈ رکھتا ہے ۔ آپ کے فون  نمبرز ، کال کرنے   اور رسیو کرنے والے کی لوکیشن  کا ڈیٹا ۔ یہاں تک کے آپ کے استعمال کئے ہوئے کالنگ کارڈز کے نمبرز بھی ا سمیں محفوظ ہوتے ہیں ۔  گویا  یہ آپ کا پورا نامہ اعمال ہے ، جو کرامین کاتبین  اس اسمارٹ فون کے اندر بیٹھ کر  مرتب کرتے رہتے ہیں ۔  یاد رکھئے کہ اگر آپ کا اسمارٹ فون بیٹری  ختم ہونے کے بعد  پاور آف موڈ  میں  بھی ہے  تو بھی اس کے باوجود   کوئی  آپ کی گفتگو کو سن سکتا ہے ۔   لہذا ایسے تحقیقاتی صحافی جو  حساس اسٹوریز پر کام کر رہے ہیں ان کیلئے لازمی ہے کہ وہ اپنی سیکیورٹی کو محفوظ بنانے کیلئے  برنر فونز استعمال کریں  جو  ذیادہ محفوظ ہیں (  برنر فونز ان فونز کو کہا جاتا ہے جو صرف ایک ہی مقصد کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں یعنی  صرف وائس  کالنگ کیلئے ،  آپ  نو کیا کے پرانے 3310۔ 1112۔ جیسے فون بھی استعمال کر سکتے ہیں جو ذیادہ محفوظ ہیں ۔
یہ بھی یاد رکھین کہ اگر آپ کسی ایسی سورس کے ساتھ کام کر رہے ہیں جو سیکیورٹی ایجنسیز کے  زیر نگرانی  ہے ، تو یہ بات لازمی سمجھئے کہ اس کے ساتھ کام کرنے پر   آپ خود بھی زیر نگرانی آجائینگے ۔
مندرجہ بالا  اقدامات پر عمل کرکے  ایک  تحقیقاتی صحافی   خود کو لاحق  خطرات میں کسی قدر کمی ضرور لا سکتا ہے ۔



Wednesday 13 July 2016

ایدھی ۔۔۔۔ عبادتوں کی انتہاوں پر ۔۔۔


آج اپنی ڈائری کی ورق گردانی کے دوران  کہیں سے لکھے ہوئے  دو پیرا گراف  نظر سے گذرے (  اللہ  کے تقرب کی جتنی بھی راہیں ہیں  ، سجدے  کے علاوہ سب مخلوق  خدا سے محبت کی راہیں  ہیں ) ۔۔ حضرت واصف علی  واصف
اب دوسرا انتخاب بھی دیکھئے ( جب آپ کی ذات  اللہ کی مخلوق کیلئے بے ضرر ہو جائے تو یہ آپ کی عبادت کی ابتدا ہے ۔۔ اور جب آپ کی ذات اللہ کی مخلوق کیلئے سراسر نفع ہی نفع بن جائے تو یہ  آپ کی عبادت کی انتہا ہے )
یہ دونوں پیرا گراف  پڑھ کر  میری آنکھیں  بھیگنے لگیں ، اور میرے سامنے چار دن سے گدھوں کی طرح   ایدھی صاحب  کی میت کو نوچنے  والے مولویوں کی وہ سارے بیانات گھوم گئے ۔   لیکن میرے دل نے گواہی دی کہ   وہ جسے  حرامی بچوں  کی پرورش کرنے والا کہا گیا  وہ تو اللہ کے مقربین میں سے تھا ،   کہ مخلوق خدا سے محبت  کی ساری راہیں اس رب کائنات   کے تقرب کی راہیں ہیں ۔ ایدھی تو انہی راہوں کا مسافر تھا ۔ اس نے مخلو ق خدا سے  والہانہ محبت کی۔۔۔۔۔ انسانوں  سے بڑھ کر  اس نے جانوروں کو بھی یہ محبتیں بانٹیں ۔۔۔۔۔ تقرب  خدا میں تو  ایدھی  سارے مولویوں سے بازی لے گیا ۔۔۔۔ مخلوق خدا سے محبت کی ساری راہیں آج اس ایدھی کے  پاوں کی دھول بننے کیلئے بے قرار ہیں۔۔۔۔۔۔ ۔ اور وہ کچلی ہوئی روحیں  جنہیں  اس معاشرے نے ٹھکرا دیا ، گھر سے بے گھر اور بے آسرا کردیا ۔ ایدھی نے ان سب میں محبتیں ہی تو  بانٹیں ۔۔۔۔ وہ تو پوری زندگی کی کسی سے نفرت کر ہی نہ سکا ۔۔۔۔۔ جنہوں نے اس کی  جان لینے کی کوشش کی،  وہ  زندگی بھر ان کی بھی لاشیں اٹھا تا رہا اور سب سے ذیادہ خدمت۔۔۔  جان  کے درپے رہنے والے لوگوں کے شہر ہی کی کی ۔۔۔ ارے اس کے دل میں  تو نفرت کیلئے جگہ ہی باقی نہی تھی، مخلوق خدا کی محبت میں زندگی بسر کرکے خدا کا تقرب ڈھونڈنےو الے ایدھی  کو اپنے پیٹوں میں نفرت بھر بھر کر پھلانے والے کیا جانیں ۔
میں نے ایدھی کو  اوپر بیان کردہ  دوسرے قول  پہ  بھی  پرکھ کے دیکھا  تو ایدھی مجسم عبادت نظر آیا ، کہ اسکی ذات  اللہ کی مخلوقات کیلئے بے ضرر تھی۔۔۔۔۔۔ اس سے کسی کو کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی ۔۔۔۔۔ بلکہ اسکی ذات تو  سراسر نفع ہی نفع تھی ، مخلوق خدا کیلئے مجسم نفع تھی ۔ اس لحاظ سے ایدھی  عبادتوں کی بھی انتہاوں پر تھے ۔ جہاں پہنچنا موٹےپیٹ والے مولویوں کے بس کی بات نہیں ، نہ ان کی سوچ اور ان کا  زاویہ نگاہ وہاں پہنچ سکتا ہے ۔
کہیں پڑھا تھا کہ  خوف خدا  اور اللہ سے محبت رکھنے والوں کے کبھی پیٹ بڑھے ہوئے نہیں ہوتے ، کہ خوف انسان کو کمزور کرتا ہے ، لاغر کرتا ہے ۔ ایدھی مجھے ہمیشہ  ایسا ہی  لاغر  نظر آیا ۔
لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ  کہ ایدھی کا موازنہ اس مولوی زرولی سے کیسے  کروں ، جو چندے کی ڈبل کیبن کی پچھلی سیٹ  پہ اکیلا بمشکل سما پاتا ہے ۔۔۔ اور اپنی  اتنی بڑی توند کی وجہ سے وہ کسی سے گلے بھی نہیں مل پاتا ۔  سوچتا ہوں  خدا کی محبت تو رہی ایک طرف زرولی  میں خوف خدا ہوتا تو  چار من کا وزن اٹھا کر نہ پھر رہا ہوتا۔۔۔۔ جسکے لئے چلنا پھرنا تک مشکل ہے ۔  اس موٹے پیٹ والے مولوی زرولی کو  چندے  میں کمی کی ہی فکر کھائے جارہی تھی ۔۔۔۔۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اربوں کا بجٹ رکھنے والا   ایدھی لوگوں کی امانتوں کا محافظ بنا ۔۔۔۔ کہ اس رقم کو اس نے اپنی ذات پہ کبھی خرچ نہیں کیا ۔ ارے اس نے تو اتنی احتیاط برتی  کہ  فلاحی کام کیلئے بھی کوئی اچھی اور آرام دہ گاڑی استعمال نہیں کی۔۔۔۔۔ انہی ٹوٹی پھوٹی ایمبولینسوں میں پھرتا رہا ۔۔۔۔۔  چندے کے پیسوں کی ڈبل کیبنوں میں گھومنے والے مولوی   ایدھی جتنا خوف خدا  کہاں سے لائینگے ۔ ؟

خدا کے تقرب کی راہوں پر چلنے والے ایدھی کیلئے زبان دراز کرنے والے اپنے انجام کا سوچیں کہ ان کے جنازے کا  وزن بھی لوگ کندھوں پہ اٹھا سکیں گے کہ نہیں ۔۔۔۔

Wednesday 22 June 2016

دھندلی لکیریں

رمو   ( رمضان ) نے جھونپڑی کے کونے میں  چار پائی پر  پڑی    بوڑھی ہاجراں کو اٹھا کر دوائی پلائی ، دوائی پی کر بوڑھی ہاجراں۔۔۔۔  اوہو  ۔۔اوہو۔۔۔۔   کی آوازیں  نکالتے ہوئے اپنی کھانسی کو زبردستی قابو کرنے لگی ۔  ماں کو دوائی پلانے کے بعد  رمو نے  اپنی چھوٹی بہن شمو ( شمع)  کو آواز دی کہ  آو  باہر روڈ پر کھیلنے چلتے ہیں ۔  رمو اور شمو نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا اور  بھاگتے ہوئے جھونپڑ پٹی  سے باہر نکل  گئے ۔ رموں  اور شموں  اپنی ماں  ہاجراں کے ساتھ سپر ہائی وے پہ ایک جھونپڑ پٹی میں رہتے تھے ۔ جیسے ہی حکومت نے حیدرآباد کراچی  موٹر وے کا اعلان کیا  ۔۔ انکی  ساری جھونپڑ پٹی کو اکھاڑ دیا گیا گیا  اور وہ شہر میں  حیدری کے پاس ایک خالی پلاٹ پر نئی جھگیاں بنا کر بیٹھ گئے ۔
 رمو اور شمو کے جانے کے بعد  ماں نے   کمو ( کمال دین )  کو آواز دی ۔۔۔۔اوئے کمو۔۔۔۔ اٹھ  کچھ کام دھندے کی کر ۔۔۔۔۔، ایسے سوتا رہا تو کھائینگے کیا ؟  ۔۔۔۔۔۔ماں ھاجراں کی آواز پر کمو  انگڑائی لیتا ہوا اٹھ بیٹھا ۔ ۔۔  اور رات کی رکھی باسی روٹی  بچے ہوئے سالن سے منہ  میں ٹھونس کر   باہر جانے کیلئے مڑا ، جھونپڑی سے نکل کر وہ سیدھا حیدری   مارکیٹ  کے قریب اخبار کے  ٹھیے پہ پہنچا اور اپنے اخبار کا بنڈل اٹھایا ۔   اور سیدھا    پان کا  کھوکھا   کھولتے ہوئے نورے کے پاس  آ گیا ۔۔۔    نورے نے ایک آنکھ  گھما کر کمو کو دئیکھا۔۔۔۔ اور کہا   ۔۔۔اوئے کمو آج اتنا جلدی آ گیا ۔   ۔۔۔ کمو   نے  افسردگی سے جواب دیا ۔۔۔۔ یار نورے  آج اماں  کی کھانسی کی دوائی ختم  ہو رہی ہے ۔۔۔۔اماں کو ہر وقت کھانسی کے دورے پڑتے رہتے ہیں ۔۔۔۔، جلدی کچھ بکری ہو جائے تو اماں کی دوائی لے کے جاوں ۔۔۔۔ اچھا تو ایسا کر مجھے جلدی جلدی  کچھ  خبریں  پڑھ کے سنا۔۔۔ تاکہ میں  اخبار کا ہانکہ لگا سکوں ۔
کمو  کو پڑھنا نہیں  آ تا تھا ، تو  نورا پان والا خبریں پڑھ  کے کمو کو بتاتا ۔۔۔۔اور  پھر کمو۔۔ 4 کے ۔۔کی بس میں سوار ہو کر   حیدری سے بورڈ آفس  ، گولیمار ، گرومندر ، پھر صدر اور ٹاور تک بسوں میں  چیخ چیخ کر چٹپٹی خبریں  سنا سنا کر  اخبار پیچتا ۔۔۔۔    نورے نے ایکسپریس   اخبار کو الٹ پلٹ کر دیکھا  اور  کہا دیکھ بیٹے کمو۔۔۔۔ آج بڑی چٹپٹی خبر ہے ایکسپریس کے پچھلے صفحے پہ ۔۔۔۔ غریب   بڑھ گئے ۔۔۔۔ غربت میں اضافہ ہو گیا ۔۔۔۔
بھائی کمو   یہ اقوام متحدہ کے  کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی  پاکستان میں  غربت سے متعلق رپورٹ  ہے ، جس میں لکھا ہے کہ  شہری علاقوں میں  غربت کی شرح 9.3  فیصد اور دیہی علاقوں میں 54.6  فیصد ہے ۔ سب سے ذیادہ غربت فاٹا میں ہے جہاں  ہر 3 میں سے دو افراد غریب ہیں ۔  اور  73 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔  بلوچستان کی 71 فیصد آبادی   ، اور سندھ کی 43 فیصد  آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے ۔  قلعہ  عبداللہ، بارکھان  ہرنائی ، ، کوھستان ،  ۔۔۔ پنجاب کے راجن پور  اور سندھ کے تھرپارکر اور بدین میں غربت  نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔۔۔۔ ۔ جبکہ اسلام آباد ، لاہور اور کراچی   میں  امیر بڑھ رہے ہیں ۔ 
  
 نورا  ۔۔ خبر پڑھ کر اداس ہو گیا ۔۔۔۔، اور کہا کہ۔۔۔ یار کمو ہم بھی ان ہی میں سے ہیں ۔یا شاید ہمارا ذکر غربت کے ان اشاریوں میں  ہے ہی نہیں۔۔۔ ہم ان سے بھی نیچے ہیں ۔۔۔۔۔    کمو نے بھی بے دلی سے اخبار کا بنڈل اٹھا یا ، اور  4 کے  کی بس میں چڑھ کر آواز لگانے لگا ۔۔ غربت نے ڈیرے ڈال دئے ،   غریب بڑھ گئے ۔۔۔ آج کی گرما گرم خبر ۔۔۔   غربت نے ڈیرے 
ڈال دئے ۔۔۔۔ غریب بڑھ گئے  ۔۔۔  صرف 10 روپے میں ۔۔۔۔

 ادھر ۔۔ رمو  شمو کا ہاتھ پکڑے جیسے ہی حیدری   کی سڑک پہ آیا دیکھا وہاں  دیو ہیکل کرینیں   روڈ کے بیچ میں لگی گرین بیلٹ توڑ رہی  ہیں ،۔۔۔۔   سریوں  اور کنکریٹ سے پلر بنائے جارہے ہیں ۔   ۔۔۔شمو  اوررمو۔۔ وہیں مشین کو دیکھنے لگے  ۔۔۔۔ بیٹھے بیٹھے    رمو نے شمو سے کہا  ، شمو پتہ ہےیہ کیا ہو رہا ہے ،     شہر میں  گاڑیاں بڑھ گئی ہیں ،  تو حکومت ایک اور روڈ بنا  رہی ہے ، لگتا ہے اب ہر غریب کے پاس بھی گاڑی ہوگی ، ۔۔۔۔ جب ہمارے پاس ہوگی نا تو ہم گاڑی لے کے کلفٹن کے  جھولے جھولنے جائینگے ۔  سمندر کے کنارے پہنچ کر سمندر میں نہائینگے ۔ اور ایک ایک  کانٹا لگا کر سمندر  کے کنارے بٹھ جائینگے   اور سالن کے لئے سمندر سے مچھلیاں  پکر کر لائینگے ۔۔۔ اور پتہ ہے شمو  ۔۔  امی کہتی ہیں مچھلی میں بڑی طاقت ہوتی ہے ۔  ہم امی کو کھلائینگے تو   امی کی کمزوری   ختم ہو جاے گی اور   انہیں چار پائی سے اٹھنے  میں  تکلیف بھی  نہیں ہو گی ۔۔۔۔۔  یہی خواب بنتے بنتے  انہیں  دو پہر  ہو گئی  اور وہ واپس اپنی جھونپڑیوں کی طرف لوٹے۔۔ 


گھر پہنچ کر  رمو اور شمو  بیمار ماں کی چارپائی کے قریب بیٹھ گئے ، اور کہنے لگے اماں  اب تو فکر نہ کر  حکومت نئے روڈ بنا رہی ہے ، گاڑیاں بڑھ رہی ہیں نا ۔۔۔۔، اب ہر غریب کے پاس اپنی گاڑی ہوگی ۔۔۔۔ اماں ہمارے پاس بھی جب گاڑی آئیگی نا تو ہم آپ کو ہسپتال لے جائینگے ۔۔۔ اپ کا علاج کرائیں گے ۔۔۔ پھر تو ایسے  کھانس کھانس   کر   ماند  بھی نہیں پڑے  گی اماں ۔۔۔۔، پھر ہم  سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر آپکو کھلائینگے اور آپ ٹھیک ہو جائینگی ۔۔۔۔۔۔ ننھے    رمو  اور شمو کی بات سن کر  کھانستی  ہوئی ہاجراں نے   چہرے پر ایک طنزیہ ہنسی لاتے ہوئے  کہنا  شروع کیا ،۔۔۔۔۔۔ میرے بچو   یہ سڑکیں  تو سب    کالی اور دھندلی لکیریں  ہیں جو  ہم غریبوں کی قسمت کی طرح تاریک ہیں ۔۔۔۔، جنہیں ہر دوسرا شخص   اپنی امارت کے نشے میں روندتا ہوا چلا جاتا ہے ، بیٹے    ہر غریب کے  گاڑی خریدنے سے غربت ختم نہیں  ہوتی نہ ترقی ہوتی ہے ، ترقی تو تب ہوتی ہے  جب امیر لوگ  پبلک ٹرانسپورٹ میں  غریبوں کے ساتھ سفر کر تے ہیں ۔۔۔۔   ۔۔۔دو جملوں میں  بچوں کو ترقی کا درس دیکر  بوڑھی ہاجراں کی طنزیہ   مسکراہٹ  اور گہری ہوگئی۔۔۔۔ اور اسکے  طنز بھرے چہرے  کی گردن ایک طرف کو لڑھک گئی اور وہ خاموش ہو گئی ۔۔۔۔   رمو  اور شمو کو ا یسا  لگا  کہ اماں حکمرانوں کی  عقل پر طنز  کر تے   کرتے سو ہی گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

Monday 13 June 2016

مسجد میں سجدہ منع ہے

 وہ   آج  یہ سوچ کے ظہر کے بعد طارق روڈ شاپنگ کیلئے گئی کہ افطاری سے پہلے واپس آ جائے گی ،   بچوں کیلئے کچھ سوٹ لیتے لیتے اسے  پتہ ہی نہیں چلا کہ عصر کا ٹائم ہو گیا ۔    اس نے سوچا روزے سے ہوں نماز  تو پڑھ لوں ، پر یہ خیال آتے ہی اسکے ذہن میں آیا کہ نماز پڑھوں گی کہاں ، شاید  کسی مسجد میں  خواتین کے نماز پرھنے کی  بھی کوئی جگہ ہوگی ، یہ سوچ کر اس نے  طارق  سینٹر کے  قریب مین مسجد کی طرف قدم بڑھا لئے ۔ مسجد کے دروازے پر پہنچ کر  اس نے دائین بائیں دیکھا  تو صرف مرد نماز ی ہی مسجد کی طرف آ رہے تھے ، اس نے جیسے  ہی مسجد کے اندر داخل ہونے کیلئے قدم بڑھایا ، مسجد کے گارڈ  نے اسے ٹوکا ۔۔ بی بی  کہاں آ رہی ہیں ، عورتوں کیلئے  جگہ نہیں ہے ۔ ۔۔۔۔۔بھائی نماز پڑھنی ہے ، میرا روزہ ہے ٹائم  نکل جائے گا ۔ اللہ کا گھر ہے   ، میں کسی کونے میں ایک طرف ہو کے نماز پڑھ لوں گی ۔۔۔۔ اس نے گارڈ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔ لیکن گارڈ نے  اس کی ایک نہ سنی ، اور کہا کہ بی بی یہاں انتطامیہ نے عورتوں کا داخلہ منع کیا ہے ۔ آپ اندر نہیں جا سکتیں ۔۔۔
 یہ سوچ کر اسکے بڑھتے قدم وہیں رک گئے اور وہ الٹے پاوں  واپس لوٹی ۔
مسجد میں نماز نہ پڑھ سکنے کی وجہ سے وہ کافی پریشان ہوئی ، او ر سوچنے لگی کہ اسے اس طرح  اس وقت گھر سے نہیں نکلنا  چاہئے تھا ۔ اس کے ساتھ ہی اس  کے ذہن میں آیا  ایک بار جب وہ عمرہ ادا کرنے کیلئے   سعودی عرب گئی تھی ، تو زیارتیں کرتے ہوئے جہاں جہاں   نماز کا ٹائم ہوتا تھا ۔ ہر مسجد میں انکے لئے  الگ حصہ مخصوص  ہوتا تھا ، جہاں وہ آرام سے نماز پرھتیں ، مسجد نبوی اور حرم پاک تک میں  انکے لئے    جگہ مخصوص  ہوتی تھی ۔ لیکن آج  اسے  اسلام کے نام پر  بننے والے پاکستان  مین رمضان شریف میں روزے کی حالت  میں ایسی کوئی جگہ نہیں سوجھ رہی تھی جہاں وہ  اپنی نماز کو قضا ہونے سے بچا سکے ۔  
اس ایک لمحے  اس نے اپنے آپ کو بہت  بے بس اور لا چار  محسوس کیا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی  رب کے حضور سجدہ  ریز نہیں ہو سکتی ۔ اور وہ بے تحا شہ روئے گئی ۔۔۔۔اور سوچے گئی  کہ اس نے تو دنیا گھومی ہے ، سعودی  عرب ، ترکی  ، ملائیشیا ، اور دبئی  میں تو ہر شاپنگ مال اور ہر فلور پر   خواتین کیلئے   نماز پرھنے کی جگہ مخصوص  ہے  ۔ لیکن  اگر نہیں ہے تو اسلام کے نام بننے والے  ملک پاکستان میں نہیں ہے ۔  روزے کی حالت میں نماز قضا  کرنے سے وہ ڈر گئی اور  شاپنگ ادھوری چھوڑ کر  گھر کی طرف بھاگی ۔ کہ گھر پہنچ کر  نماز  عصر ادا کرے ۔۔
نماز   کی جگہ نہ ملنے پر آج  اس نے پہلی بار ا س مسئلے پر سنجیدگی سے سوچا تو اسے معلوم ہوا  کہ برصغیر  پاک و ہند میں تو عورتوں کو ہمیشہ مسجدوں سے دور رکھا گیا ۔ عورتوں کے مسجد میں نماز پڑھنے کا کلچر ہی پروان نہیں چڑھ سکا ۔  آج جب عورتیں زندگی کے ہر شعبہ میں  مردوں کے مساوی   بھاگ دوڑ کر رہی ہیں ، گھر سے باہر نکل کر  معیشت اور کاروبار میں  ہاتھ بٹا رہی ہیں ، تو ان کے لئے  نماز کی جگہ  کیوں نہیں ہے ؟  یہی سوچ کر اس نے قرآن کا مطالعہ کیا اسے معلوم ہوا کہ قرٓن میں کہیں بھی  مرد اور عورت کی صنفی علیحدگی کے بارے میں کچھ نہیں  کہا گیا ۔ اور اسے معلوم ہوا کہ قرآن میں کہیں  نہیں لکھا کہ  خواتین مسجد نہیں جا سکتیں ۔ بلکہ  حدیث شریف میں یہ تک کہا گیا ہے کہ خواتین کو مسجد جانے سے مت روکیں ۔۔اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر 228 میں تو  یہاں تک کہا گیا ہے کہ  عورتوں اور مردوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں ۔  خدا کے گھر اور خدا کے دربار میں  عبادت کا حق تو یکساں ہے ۔  عورتوں پہ  مسجد میں جا کر نماز پڑھنا فرض اس لئے نہیں کیا گیا کہ ان کو  گھر کی ذمہ داریاں انجام دینی ہوتی ہیں ، اگر فرض کیا جاتا تو انہیں  مشکل ہو جاتی ۔ ان کی آسانی کا خیال کرتے ہوئے  ان پر مسجد جانا فرض نہیں  کیا گیا ۔ لیکن   انہیں  مسجد میں  جانے سے روک تو کوئی نہیں  سکتا ۔
یہ سوچ کر  اس نے   انٹر نیٹ  اور دوسرے زارئع سے کراچی کا سروے  کرنے  کا تہیہ کیا کہ  ایسی کون سی مساجد ہیں  جہاں خواتین کو   نما ز کیلئے   الگ جگہ میسر ہے ۔
اسے معلوم ہوا کہ    کراچی میں بوھری برادری کی تمام مساجد میں  خواتین  پانچوں وقت  کی نمازیں مسجد میں آکر ادا کرتی ہیں ۔  شیعہ مکتبہ فکر کی بھی اکثر مساجد میں خواتین کیلئے جگہ ہوتی ہے ۔   جبکہ  کراچی  کی مندرجہ ذیل مساجد میں بھی  خواتین کیلئے   علیحدہ  جگہ موجود ہے ۔
۔ عائشہ مسجد   خیابان اتحاد کراچی
۔ مسجد سعد بن ابی وقاص  فیز 4 ڈی ایچ اے کراچی
۔ قرآن اکیدمی مسجد سی ویو  کراچی
۔ گلستان انیس   آف شہید ملت روڈ  ۔
۔  سدا  بہار  لان شہید ملت روڈ
۔ مسجد بیت السلام  کمرشل ایونیو  فیز 4 دی ایچ اے کراچی
 ۔تیموریہ  مسجد  حیدری  ، بلاک ایچ  نارتھ ناظم آباد
۔ مسجد نمرہ  بلاک   آئی   نارتھ ناظم آباد 
۔ مسجد قبا بلاک 13 سی  گلشن اقبال کراچی
اسے حیرت ہوئی  کہ   گلشن اقبال میں واقع  کراچی کی بڑی مسجد   بیت المکرم کے اندر خواتین کے لئے علیحدہ سے کوئی ہال نہیں بنایا گیا ۔ بلکہ صرف لان  میں ایک جالی لگا کر   ایک صف جتنی جگہ مخصوص  کی گئی ہے ۔
اسے معلوم ہوا کہ عورتوں کے  مسجد میں جانے پر پابندی خود ساختہ  تخلیق   ہے  اسلام نے   ایسی کوئی پابندی  نہی لگائی ۔  یہ چونکہ مردوں کا معاشرہ ہے تو  یہاں  تو نماز کیا  ، عورتوں کی تعلیم پر پابندی ہے ، ، وراثت میں حقوق  نہ دینےکی پابندی ہے ، ۔۔یہاں مرد عورت کی زبردستی شادی  کرسکتا ہے ، جہیز کا مطالبہ کرکے   اسے ساری عمر کنواری رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے ، اسکی مرضی کے بغیر اسکی بچہ کشی  کرائی جاتی ہے ۔
اسلام میں  تو ایسا  کچھ نہیں  ہے اسلام کی نظر میں  تو سب برابر ہیں ۔  اور وہ سوچنے لگی کہ  جس عورت کو  پاکستان کا معاشرہ مسجد سے دور رکھتا ہے ، اس س ے یہ امید کیسے لگائی جا سکتی ہے   کہ وہ مذھبی  خطوط  پر  نسلوں کی آبیاری کا فریضہ انجام دے ۔  

Monday 30 May 2016

پچاس ارب کے پانی چور


اس سے میری ملاقات   ایک اتوار بازار  میں ہوئی ، وہ  ھفتہ وار بچت بازاروں میں  مصنوعی   جیولری کا ٹھیلہ لگاتا تھا ، بچوں کیلئے چھوٹی موٹی جیولری خریدتے ہوئے    میں اس سے بھاو تاو کرنے لگا ، میرے کم قیمت لگانے پر وہ روہانسا ہو گیا اور کہنے لگا  کہ صاحب اتنے میں تو خرید بھی نہیں ۔۔۔۔۔ہمیں بھی بچوں کا پیٹ پالنے دو ۔۔۔۔۔ ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے ایک آنسو چھلک پڑا ۔۔۔۔ کہنے لگا صاحب  ہم بھی  مجبور  ہیں جب ہی   اس گرمی میں  یہ پسینہ   برداشت کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اس سے ہمدردی محسوس ہوئی اور  میں  وہیں ایک اسٹول پر اس کے قریب بیٹھ گیا  اور اس سے باتیں  کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بتایا کہ کہ  وہ   نارتھ کراچی میں  پانچ ھزار روپے کے کرائے کے مکان میں رہتا ہے  ،  اس گرمی میں  سارا سارا دن لائٹ  نہیں ہوتی ،  اور علاقے میں  پانی بھی نہیں آتا ، ہم بورنگ کا کھارا پانی استعمال کرتے ہیں ، کہ میٹھا پانی  خریدنے کی ہم میں سکت نہیں۔۔۔۔۔۔ ۔  گرمی میں کھارے پانی سے نہانے سے میرے چار بچوں کے جسم پہ دانے نکل  آئے  ہیں ۔۔۔۔۔۔  میں قریب ہی ایک کلینک میں  جلد کے ایک ڈاکٹر کے پاس انہیں روز انہ رات میں لے جاتا ہوں۔۔۔۔۔ وہ ایک بچے کی    دوائی کے روزانہ 100 روپے  لیتا ہے ۔ روز کی دیہاڑی کرنے والے مزدور کے 400 روپے روز   دوائی پہ خرچ ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔  یہ حکمراں ہمیں  میٹھا پانی دے دیں  تو ہماری بیماریوں سے جان  چھوٹے ۔۔۔۔۔، اور یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  میں نے اسے تسلی دی  اور اسی کی  بتائی ہوئی  قیمت پر  بچوں کی جیولری خریدلی  اور چل پڑا ،  شاید  میں اسے تسلی کے دو بول ہی دے سکتا  تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ راستے میں    میرے صحافتی  پیشے  نے مجھے سوچنے پہ مجبور کیا کہ یہ سارا پانی اگر غریب بستیوں میں  نہیں پہنچتا تو کہا ں جاتا ہے ، اور میں  اسی تحقیق  میں  کئی ھفتے لگا رہا ۔۔۔۔۔۔ کراچی  کے پانی پہ  تحقیق  کرنے والے کئی دفاتر کے چکر لگائے اور مواد اکھٹا  کرتا رہا  ۔۔ ۔  اس    موضوع  پر کام کرتے ہوئے  مجھ پہ آٓشکار ہوا  کہ کراچی میں سالانہ  50 ارب روپے  کا پانی چوری کرکے بیچا جاتا ہے ۔۔۔۔۔  اور ایک مضبوط مافیا ہے جو  یہ پانی چوری کرتی ہے ،  اور کئی ھزار لوگ اس دھندے سے وابستہ ہیں ۔ اور  ساقی کے کام پر  ما مور  سرکاری ا داروں کے افسران انکے  پشت پناہ اور  اس کمائی مین حصہ  دار  ہیں ۔
آئیے  آپ بھئی  دیکھئے کہ کراچی میں  سالانہ 50 ارب روپے  کا پانی کس طرح  چوری کرکے بیچا جاتا ہے ۔
ایک کروڑ  60 لاکھ آبادی کے شہر میں   ماہ مئی سے لیکر اکتوبر تک   پانی کی کمائی کا سیزن ہوتا ہے ، اور اس کاروبار سے وابستہ   افراد اور مافیا   پیسوں میں  نہاتی ہے ۔   اس وقت  کراچی شہر کو  پانی فراہم کرنے کے  دو اہم زرائع ہیں جس میں سے  ایک     دریائے سندھ ہے  ۔  جہاں کوٹری بیراج سے      ایک    نہر کے زریعے  1200 کیوسک پانی( یعنی  645  ملین گیلن )   ٹھٹہ سے  30 کلومیٹر دور  کینجھر جھیل اور  وہاں سے دو کینال کے زریعے   کراچی کو پمپ کیا جاتا ہے ۔   کراچی کیلئے پانی  کا دوسرا  اہم زریعہ  حب ڈیم ہے ۔ حب ڈیم  کا  دارومدار چونکہ  با رانی  پانی پر ہوتا ہے لہذا   اس ڈیم سے  کراچی کو پانی کی سپلائی    کم زیادہ ہوتی  رہتی ہے ۔ ڈیم میں  زیادہ پانی ہونے کی صورت میں 75 ملین گیلن روزانہ جب کہ   کمی کے دنوں میں 30 ملین گیلن پانی سپلائی کیا جاتا ہے ۔ جبکہ  اوسطا   یہ ترسیل 50 ملین گیلن رہتی ہے ۔

شہر کراچی کے لئے مقرر کردہ   پانی کی کل ترسیل  695 ملین گیلن ہے   ۔ جس میں سے  30 ملین گیلن پانی پاکستان اسٹیل اور  اور پورٹ قاسم کو دیا جاتا ہے ۔ اس طرح  شہر  کیلئے 665  ملین گیلن پانی بچتا ہے ۔  اسکی  تقسیم کیسے ہوتی ہے ، اور پانی کہاں جاتا ہے ، کتنا حقیقی طور پر  سپلائی کیا تا ہے اور کتنا  بیچا جاتاہے ، انہی سوالوں کے جوابات  کی کھوج نے ہوش ربا انکشافات  کئے ہیں ۔  

ایک تحقیق  کے مطابق  کراچی کے وہ علاقے  جہاں  ھمیشہ پانی کا بحران رہتا ہے  کم آمدنی اور  اور متوسط  آمدن کے رہائشی علاقے ہیں ۔  جن میں نیو کراچی  ، بلیہ ٹاون ، لانڈھی ، گڈاپ۔   اورنگی ٹاون،  کچی آبادیاں ، گوٹھ  اور  چھوٹی  چھوٹی کالونیاں  ہیں ۔   تحقیق کے مطابق   ان تمام چھوٹی  بستیوں ، کچی آبادیوں اور گوٹھوں  میں  80 فیصد  پائپ لائنیں  موجود ہیں ۔  لیکن انہیں ان پائپ لائنوں  سے پانی فراہم نہیں کیا جاتا ۔ بلکہ  یہ کم  آ مدنی اور متوسظ  آمدنی کے  لوگ ٹینکرز کے زریعے  پانی خریدنے پہ مجبور ہیں  ۔ نظام کی ستم ظریفی یہ ہے کہ   جو ذیادہ  آمدنی والے علاقے ہیں  جو پانی خرید سکنے کی سکت رکھتے ہیں  وہاں سپلائی معمول پہ رہتی ہے اور جس غریب کی پہنچ سے  پانی خریدنا باہر ہے وہی خریدنے پہ مجبور ہے ۔
یہاں ایک عام قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ان ساری آبادیوں میں  ٹینکرز کے زریعے  پانی  بیچا جاتا ہے ، اسکا مطلب ہے  کہ  پانی  موجود تو  ہےلیکن    پھر اسے پائپ لائنوں  کے زریعے فراہم کیوں  نہیں کیا جاتا ؟
 اسی سوال کے جواب  کی تلاش میں یہ  بڑا اسکینڈل  ابھر کے سامنے آیا ۔
اس وقت  پانی  کی کمی والے علاقوں میں   کراچی واٹر ایند سیوریج بورڈ  (کے  ، ڈبلیو ، ایس ، بی)   کے  تحت  کام کرنے والے  9   سرکاری  ( آفیشلی )  ھائیڈرنٹس کے زریعے پانی فراہم کیا جا رہا ہے ۔  واٹر بورڈ کے مطابق  ان ھائیڈرنٹس  سے   روزانہ  13.75 ملین  گیلن پانی  واٹر ٹینکرز کے  13 ھزار 750  چکر وں سے شہریوں کو فراہم کیا جاتا ہے  ۔ جبکہ تحقیق کے مطابق   اصل حقیقت یہ ہے کہ ان ھائیڈرنٹس   سے 25  ملین گیلن پانی    روزانہ 8377 ٹینکرز کے پھیروں کے زریعے بیچا  جاتا ہے ۔

سرکاری اعداو شمار کے مطابق  یہ پانی  شہریوں  کو  15 سے 25  پیسے فی گیلن کے حساب سے مہیا کیا جاتا ہے ۔ جو فاصلے  کی  بنیاد پر ہے ۔ جبکہ رہاشی  اور کمرشل بنیادوں پر  بھی پانی کے ریٹ الگ الگ ہیں ۔
اس حساب سے کراچی میں ٹینکرز کے زریعے   بیچے  جانے والے پانی کے  ریٹ کچھ اس طرح ہیں ۔
1000  گیلن  والا ٹینکر     150 سے  250  روپے   میں
2000 گیلن  والا ٹینکر  300 سے 450  روپے میں
3000 گیلن  والا  ٹینکر  450 سے  800 روپے میں
5000 گیلن والا  ٹینکر  1200 روپے میں   پیچا جاتا ہے ۔ یہ سب سرکاری ریٹ  ہیں ۔    لیکن زمینی حقائق  یہ ہیں کہ پانی کے ریٹ  ڈبل سے بھی ذیادہ ہیں ۔ اس طرح کراچی کے شہریوں کو یہ پانی  35  سے  60 پیسے  فی گیلن کے حساب سے  فروخت کیا جاتا ہے ،  جو فاصلے  ،  بارگیننگ  اور سیزن کے حساب سے گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں ۔  کراچی میں اس وقت  1000 ھزار سے  7000 گیلن   پانے  لے جانے   کے حامل واٹر ٹینکر   چلتے ہیں ، جبکہ کچھ واٹر  ٹینکر ز کی  گنجائش   10 ھزار  گیلن کی بھی ہے ۔    اس طرح سرکاری طور  پر  ھزار  گیلن پانی   44 روپے  یعنی  4.4  پیسہ فی گیلن  رہائشی مقاصد  کے لئے وصول کئے جاتے ہیں ۔ جبکہ  73 روپے  یعنی  7.3 پیسے  کمرشل بنیادوں پر بیچے جاتے ہیں  ۔

لیکن یہ ساری کہانی  تو سرکاری ھائیدرنٹس کی ہے  ۔ اصل کہانی اور تصویر کا دوسرا رخ کچھ اور ہے اور وہ بڑا ہی بھیانک ہے ۔
ان سرکاری  ھائیڈرنٹس   کے علاوہ  161 ایسے ھائیڈرنٹس  ہیں ، جن سے اس اسکینڈل کی اصل کہانی جڑی ہے ۔  یہ ھائیڈرنٹس شہر کو پانی   سپلائی کرنے والی  ان مین بلک لائنوں   کو توڑ کر یا ان سے کنکشن لیکر قائم کئے گئے ہیں۔  شہر بھر میں ایسے چھ رو ٹس ہیں جہاں یہ ھائیڈرنٹس قائم  ہیں ۔
1۔  حب ریزروائر سے بنارس  چوک تک  ، منگھو پیر روڈ  کے ساتھ ساتھ
2۔  بنارس چوک سے  لیاری کے گٹر باغیچہ  تک ۔
3۔  میوہ  شاہ قبرستان سے   لیاری ندی کے ساتھ ساتھ  شیر شاہ تک 
4۔  نارتھ کراچی میں  صبا سینما اور ایوب گوٹھ    کے پاس  سے   گڈاپ ٹاون تک    
5۔  ملیر مین نیشل ھائی  وے کے ساتھ ساتھ ، جہاں جہاں سے یہ بلک لائنیں  گذرتی ہیں
6۔  قائد آباد اور لانڈھی  کے  مختلف  علاقوں میں جہاں  بلک لائنیں  موجود ہیں ۔
اس طرح ان چھ مقامات  پر  کل 161    غیر قانونی ھائیٖڈرنٹس موجود ہیں ، جو پانی کی چوری  اور اس کی غیر قانونی   فروخت میں  ملوث ہیں ۔  ان ھائیڈرنٹس سے روزانہ  ٹینکرز کے  8288  پھیرے  لگتے ہیں ۔۔۔۔ انداز ا  ایک ٹینکر ایک دن میں  10 سے 12  چکر لگاتا ہے ۔  اس کام کے لئے  690 سے  829 ٹینکرز استعمال کئے جاتے  ہیں ۔ (  تحقیق  کی مختلف سورس  میں فرق کی وجہ سے) ۔
 تحقیق کے مطابق   ان غیر قانونی  ٹینکرز  کےلئے مین لائنوں کو توڑ کر یا کنکشن  لیکر جو   فلنگ پوائنٹ  بنائے گئے ہیں  وہ 4 سے 8 ڈائی میٹر کے ہوتے ہیں ۔ ۔ اس طرح ایک ھزار گیلن کا ایک واٹر ٹینکر 2 سے 3 منٹ  میں بھر جاتا ہے ۔ 2000  سے 3000گیلن کا واٹر ٹینکر بھرنے  میں  5 سے 10 منٹ   لگتے ہیں ۔  جبکہ 5000 گیلن والا واٹر ٹینکر 10 سے 15 منٹ میں بھر لیا  جاتا ہے ۔

 اب  اسی  کہانی کا ایک اور  رخ اور وہ ہے   صنعتی علاقوں میں پانی کی  ترسیل ۔
کراچی کے پانچ   صنعتی زونز کے لئے  واٹر بورڈ  کی جانب سے  پانی کا  مقررہ کوٹہ 46 ملین گیلن روزانہ ہے  جو  کچھ اس طرح ہے ۔
لانڈھی  انڈسٹریل ایریا ۔ 13  ملین گیلن  روزانہ
کورنگی انڈسٹریل ایریا ۔ 14 ملین گیلن  روزانہ
سائٹ  انڈسٹریل ایریا ۔ 10  ملین گیلن روزانہ
نارتھ کراچی  انڈسٹریل ایریا ۔5 ملین گیلن روزانہ
ایف بی انڈسٹریل ایریا ۔ 3  ملین گیلن روزانہ
لیکن  در حقیقت   ان تمام  اندسٹریل ایریاز  کی  اصل کھپت 100  سے 145 ملین گیلن روزانہ ہے ۔  اس طرح   ان صنعتی علاقوں کی 90 فیصد    پانی کی ضروریات   واٹر ٹینکرز کے زریعے پوری کی جاتی ہیں ۔  یعنی 90  سے 131 ملین گیلن پانی روزانہ واٹر ٹینکرز سے فراہم کیا جاتا ہے ۔  اور یہ پانی ان 161 غیر قانونی ھائیڈرنٹس  سے ہی فراہم کیا جاتا ہے ۔
اب ہم آتے ہیں  اس   اسکینڈل کے حوالے  سے  کراچی کی آبادی  میں پانی کی کھپت ۔۔۔۔  ترسیل  اور شارٹ  فال  کی طرف ۔
تحقیق کے مطابق کم آمدنی اور متوسط  آمدنی رکھنے والے رہائشی علاقوں میں  ایک فرد کیلئے  ایک دن کے پانی کی کم از کم ضرورت  20 گیلن ہے ۔  کراچی کی آبادی ایک کروڑ  60 لاکھ ہے ۔ اس لحاظ   سے  کم از کم کھپت 20 گیلن سے حساب لگایا جائے تو  کراچی کی روزانہ کی کھپت 320  ملین گیلن روزانہ ہے ۔  صنعتوں کی اوسط  کھپت 123 ملین گیلن روزانہ ۔ باقی متفرق ضروریات کیلئے 123  ملین گیلن روزانہ ہے ۔ اس طرح کراچی کی کل کھپت 553 ملین گیلن  بنتی ہے ۔
اور دوسری جانب اگر ذیادہ آمدن والی  آبادی کی کھپت میں  مزید 15 گیلن روزانہ  فی فرد   کا اضافہ کر کے  حساب لگایا   جائے  تو یہ ذیادہ آمدن والے  کراچی کی آبادی کا 20 فیصد  ہیں ۔   تو اس طرح کراچی کی پانی  کی مکمل ضروریات  601 ملین گیلن  روزانہ بنتی ہے۔

اب اس کہانی کو ایک اور پہلو سے   دیکھئے  ۔  کراچی  کے سابقہ تما م 18 ٹاونز کو بلک میں جو پانی فراہم کیا جاتا ہے ۔ وہ کل 293 ملین گیلن روزانہ ہے ۔  واٹر بورڈ کا نظام اب بھی انہی ٹاونز  کی سطح  پر تقسیم ہے ۔
 اس طرح   کھپت اور ترسیل میں 260  سے 308 ملین گیلن کا شارٹ  فال  موجود ہے ۔ اور یہی وہ شارٹ فال ہے جسے   161 غیر قانونی ھائیڈرنٹس سے پورا کیا جاتا ہے ۔
واٹر بورڈ کے زریعے  کراچی کو پانی کی  مجموعی   ترسیل 565.25  ملین گیلن روزانہ ہے جس میں سے 15 فیصد پانی پرانی لائنوں اور دوسری ٹیکنیکل وجوہات کی بنا پر  ضائع ہو جاتا ہے ۔  اب دستاب سپلائی اور حقیقی  سپلائی کا اوسطا  گیپ  272.25  ملین گیلن روزانہ ہے ۔ اور یہی وہ پانی ہے  جسے غیر قانونی ھائیڈرنٹس کے زریعے   شہر بھر میں بیچا جاتا ہے ۔ اور پانی اوپر بیان کردہ  او سط  قیمت کے حساب سے فروخت کیا جاتا ہے ۔     اس آپریشن سے  سالانہ شہر میں 49.6  ارب روپے کا پانی  چوری کرکے فروخت کیا جاتا ہے ۔

دوسری جانب    سرکاری طور پر  واٹر بورڈ اپنے 9  ھائیڈرنٹس  کے زریعے  20 ملین گیلن پانی  فراہم کرتا ہے ۔ اگر یہی اطلاق   ان 161 غیر قانونی   ھائیڈرنٹس پر کیا جائے تو پانی کا یہ کاروبار 358  ملین گیلن روزانہ بنتا ہے ۔ اس طرح زیادہ سے ذیادہ 25 ملین گیلن سرکاری ھائیڈرنٹس سے اور  333 ملین گیلن غیر قانونی  ھائیدرنٹس سے  کراچی کے شہریوں کو  فراہم کیا جاتا ہے ۔  اور یہ پانی  مافیا   شہریوں کی جیبوں سے سالانہ  50 ارب روپے نکال کر اپنی جیبوں میں ڈالتی ہے  ۔     اور  جس معاشرے میں پینے کے پانی کو بھی چوری اور ذخیرہ اندوزی  کے زریعے   غریبوں کو بیچا جاتا ہو وہاں تو  ابر رحمت بھی روٹھ جاتی ہے ۔ اور غریبوں کے جسم پر  گرمی  دانوں کے ساتھ ان کی قسمت پر غربت کے دانے بھی نکل آتے ہیں ۔ جو کبھی دوائیوں سے ختم نہیں  ہوتے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 





Monday 23 May 2016

ملا اختر منصور کی ہلاکت ۔۔۔۔ افغانستان میں پاکستانی مفادات کو خطرہ


  2013 میں     ریکوڈک    کے حوالےسے  میں  ایک تحقیقاتی  رپورٹ کے  سلسلے میں دالبدین کے ایئرپورٹ پر اترا ۔۔۔۔ میں  جیسے ہی   دالبندین ایئرپورٹ  سے  نکلنے لگا تو   دیکھا کہ چھوٹے سے شہر کی   گلیوں  کے ایک ایک کونے پر ایف سی کے جوان پہرہ دے رہے تھے ۔   پوچھنے پر معلوم ہوا کہ چونکہ اس ائرپورٹ  پر امریکیوں  کی نقل و حرکت ذیادہ ہے ۔ انکے طیارے یہاں دن رات  اترتے اور افغانستان کیلئے اڑان بھرتے  ہیں لہذا انکی سکیورٹی کیلئے   یہ نفری ضروری ہے ۔  اور پھر  دالبندین سے ریکوڈک اور  وہاں سے  تافتان بارڈر تک  کا سفر  انتہائی  اکیلے  پن کا سفر تھا  ، 300 کلومیٹر کی پوری سڑک پر  کہیں کہیں آپ کو کوئی گاڑی نظر  آئے گی ، یا کوئی بس یا کوچ  جسکی چھت پر ایران سے آنے والا سامان لدا ہوتا تھا نظر آتی تھی ۔واپسی  کے سفر  میں جب  میں دالبدین ایئرپورٹ پہنچا تو  ایئرپورٹ حکام نے میرے سامان میں موجود  ایک  بیٹری ٹارچ پہ اعتراض  کیا کہ آپ یہ  جہاز میں نہیں لے جاسکتے ، بیٹری سے کوئی دھماکہ ہو سکتا ہے ۔  لیکن وہیں میں نے    امریکیوں کو بھی  اسی جہاز مین سوار ہوتے دیکھا  جو  شاید وہاں   جاسوسی مشن پر تھے ، ۔۔۔۔ اور  وہ  ائرپورٹ سیکیورٹی کا عملہ جو ایک ٹارچ  کی بیٹری پہ مجھے روک رہا تھا ، امریکیوں کو بغیر  چیکنگ  کئے۔۔ جہاز پہ سوار کرا رہا تھا ، اور  یہی حال ایک بار میں نے سکھر ائر پورٹ پر بھی دیکھا ۔

خیر بات ہورہی تھی   تافتان بارڈر کی ۔۔۔ تافتان بارڈر    تک کا سفر  بہت یادگار  تھا ، کہ ایک طرف صحرا  میں لمبی کالی لکیر کی مانند  سرکتی  ہوئی سڑک  تھی   اور اس سڑک کی  دوسری جانب   تافتان تک جاتی انگریز کے  زمانے کی بچھائی ہوئی   ایک ریلوے لائن تھی ۔ اور اس سڑک پر سفر کرتے وہ منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔ کہ اگرچہ   اس ریلوے لائن پر ریل تو اب نہیں چلتی تھی  لیکن  ایک بوڑھا پاکستانی لائن مین  سخت گرمی میں   اس ریلوے لائن  کی مرمت کر رہا تھا ۔ ریلوے لائن پہ جہان جہاں ریت آگئی تھی وہ اسے ھٹا رہا تھا ۔  اور میں سوچنے لگا کہ اس صحرا  میں یہ بوڑھا کس ایمانداری  سے اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا ہے ۔ جہاں اسے پوچھنے  یا جواب طلبی  کرنے  والا کوئی اعلیٰ  افسر  نہیں ۔ 

خبروں کے مطابق    تافتان بارڈر سے  آنے والی اسی سڑک پر  احمد وال   ٹاون  کے قریب  طالبان   رہنما ملا اختر منصور  کو امریکہ  نے ایک   ڈرون حملے  کے زریعے  ہلاک کردیا  ۔  جو ا 21  مئی کو  ایران سے واپس آرہے تھے  ، اور وہ     ولی محمد  ولد شاہ محمد   کے فرضی نام سے سفر کر رہے تھے ۔ اور میں سوچنے لگا کہ امریکیوں کیلئے یہ ٹارگٹ کتنا آسان تھا کہ اس سڑک پر اکا دکا   گاڑیاں  کہیں نظر آتی ہیں ۔  اور  پھر سیٹلائٹ کے زریعے  اس اکیلی گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں  کو شناخت بھی کیا جساسکتا ہے ۔  اور  مخبری تو    اس امیگریشن نظام نے کر ہی دی ہوگی  جو مشرف کے زمانے میں  ہمارے ایئرپورٹس پر لگایا گیا  اور جو ڈائریکٹ  امریکی  انٹیلی جنس  ایجنسیوں  کی نگرانی میں کام کرتا ہے ۔ اور امیگریشن کرانے والے ہر شخص کا ریکارڈ امریکہ تک  جہاز اڑنے سے پہلے پہنچ جاتا ہے ۔  اور ویسے بھی  بلوچستان کے اس علاقے   میں برسوں  امریکہ  کے سیکیورٹی اہلکار  اپنی خدمات  انجام دیتے رہے ہیں ۔ اور اس عرصے  میں   انہیں کتنے ہی  ضمیر فروش بھی مل گئے ہونگے ۔  اور وہ  اب  بھی  انکی خدمات سے مستفید  ہوتے ہونگے ۔

پاکستان  اور چین کی اس وقت افغانستان میں  یہ حکمت عملی ہے کہ  کسی طرح     افغا نستان سے امریکہ کا مکمل انخلا   ہو جائے  تاکہ    خطے میں   چینی اور پاکستانی مفادات  کے حصول آگے بڑھا یا  جا سکے ۔  جس میں سر فہرست تاپی گیس  پائپ لائن  منصوبہ ہے جس کے  زریعے    ترکمانستان سے براستہ افغانستان   گیس کو پاکستان تک  پہنچایا جائے  گا ۔ جبکہ  دوسرا  بجلی کی ٹرانسمیشن لائن   بچھانے کا منصوبہ کاسا ہے (  سینٹرل  ایشیا  اینڈ ساوتھ ایشیا  الیکٹرسٹی ٹراسمیشن لائن )  جسکے زریعے پاکستان 1000 میگاواٹ  بجلی حاصل کریگا ۔ اور ظاہر ہے جب تک  افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا ۔ ان منصوبوں تک   رسائی   ناممکن رہے گی ۔ ۔ اور تیسری جانب افغانستان  سے بھارتی  اثرو  رسوخ کا خاتمہ   ہے ، کیونکہ افغانستان میں  بڑھتا  ہوا  بھارتی اثرو رسوخ نہ صرف پاک چین اقتصادی راہداری  کیلئے خطرہ ہے بلکہ   بلوچستان کی  سلامتی کیلئے بھی ایک بڑا چیلنج ہے
 دوسری جانب  امریکہ کی یہی کوشش ہے کہ اب افغانستان میں کسی  بھی طرح امن  قائم نہ ہو پائے ۔ ورنہ پاکستان  اور افغانستان کے زریعے  چین اس خطے میں  اپنے قدم مضبوطی سے  جما لے گا ، اور اپنے منصوبوں کو آگے بڑھائے گا ۔ اس مقصد  کیلئے  امریکہ کی  افغانستان میں موجودگی ضروری ہے اور  اسی  وجہ سے وہ طالبان کو مزاکرات سے دور  رکھنے کی کوشش کر ررہا ہے ۔

پاکستان  کی حکمت عملی  اس سلسلے میں دو جہتی  ہے ۔ ایک طرف  کابل حکومت  کو  طالبان  کے زریعے  بڑھتے ہوئے   حملوں  کے زریعے   دباو میں لینا  ہے  ، تاکہ وہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا  کی بات چیت شروع  کرے اور یہی طالبان کی  پہلی شرط ہے  کہ  افغانستان سے غیر ملکی افواج کا  مکمل  انخلا  ہو  ۔   دوسری جانب پاکستان نے حکمت یار  کو کابل حکومت کا حصہ بناکر اندرونی طور پر  حکومت کو  دباو میں لینا شروع کر دیا ہے  کہ افغانستان سے غیر ملکی  انخلا   کیلئے بات چیت شروع کی جائے ۔ اور حکمت یار نے اپنی کابل  آمد  کو بھی اسی وجہ سے موخر کیا ہے کہ  غیر ملکی افواج کے انخلا ٗ   کا کوئی ٹائم  ٹیبل  مل جائے تو   کابل   میں قدم رکھا جائے ۔  اس دو جہتی حکمت عملی  کا  یک نکاتی ایجنڈا    افغانستان سے مکمل امریکی انخلا ہے ۔ کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ  افغانستان میں امریکی موجودگی    خطے میں اور خصوصا  افغانستان میں بھارتی  موجودگی اور اس کے  اثرو رسوخ  کو بڑھا وا دے گی ۔

اس  دو رجہتی پاکستانی حکمت عملی کو ذہن میں رکھتے ہوئے  یہ  کہا جا سکتا ہے  کہ  ملا اختر منصور  کی ہلاکت خطے میں پاکستانی  مفادات کو ٹھیس  پہنچانے کا سبب  بنے گی  اور طالبان کو مذاکرات سے مزید دور لے جائے گی ۔ کہ ملا اختر منصور  بلاشبہ ایک فیلڈ کمانڈر تھے ، جو  نجیب ، روس  اور  پھر مابعد    روس  کے زمانے میں  پوری طرح    جنگوں میں برسر  پیکار رہے ۔  اور حال ہی میں   ملا عمر کی   ہلاکت کے بعد   کابل حکومت   پر حملوں  کے زریعے اپنا  دباو بڑھانے کی  کامیاب حکمت عملی   پر گامزن تھے ۔
 دوسری جانب   ملا اختر   منصور  کی  ہلاکت  سے ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں   کو  نئے سرے سے   اپنے  سیکیورٹی میکنزم کو جانچنے کی ضرورت ہے ۔   کہ ھمارے سسٹم  سے کس  طرح  امریکیوں کو معلوم ہوا  کہ   ملا اختر منصور  کوئٹہ میں ہے  اور وہ   ولی محمد کے کور   میں موجود ہے ۔  کیا  یہ انفارمیشن نادرا  کے سسٹم سے لیک ہوئی ہے  یا  ہمارے  امیگریشن سسٹم کی امریکہ کے ساتھ کولبریشن کی   مرہون منت ہے ۔   دوسری جانب   ان  خدشات سے بھی صرف  نظر نہیں  کا جا سکتا  کہ   کیا ایران سے ان کی واپسی   کی خبر  ایران یا وہاں موجود   بھارتی لابی کی مخبری کی  کارستانی ہے۔ بہر حال پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں کو ایک بار پھر  اپنے  سیکیورٹی قدامات اور اپنی حکمت عملی    کا  از سر نو جائزہ  لینے کی ضرورت ہے ۔ ۔