Wednesday 22 June 2016

دھندلی لکیریں

رمو   ( رمضان ) نے جھونپڑی کے کونے میں  چار پائی پر  پڑی    بوڑھی ہاجراں کو اٹھا کر دوائی پلائی ، دوائی پی کر بوڑھی ہاجراں۔۔۔۔  اوہو  ۔۔اوہو۔۔۔۔   کی آوازیں  نکالتے ہوئے اپنی کھانسی کو زبردستی قابو کرنے لگی ۔  ماں کو دوائی پلانے کے بعد  رمو نے  اپنی چھوٹی بہن شمو ( شمع)  کو آواز دی کہ  آو  باہر روڈ پر کھیلنے چلتے ہیں ۔  رمو اور شمو نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا اور  بھاگتے ہوئے جھونپڑ پٹی  سے باہر نکل  گئے ۔ رموں  اور شموں  اپنی ماں  ہاجراں کے ساتھ سپر ہائی وے پہ ایک جھونپڑ پٹی میں رہتے تھے ۔ جیسے ہی حکومت نے حیدرآباد کراچی  موٹر وے کا اعلان کیا  ۔۔ انکی  ساری جھونپڑ پٹی کو اکھاڑ دیا گیا گیا  اور وہ شہر میں  حیدری کے پاس ایک خالی پلاٹ پر نئی جھگیاں بنا کر بیٹھ گئے ۔
 رمو اور شمو کے جانے کے بعد  ماں نے   کمو ( کمال دین )  کو آواز دی ۔۔۔۔اوئے کمو۔۔۔۔ اٹھ  کچھ کام دھندے کی کر ۔۔۔۔۔، ایسے سوتا رہا تو کھائینگے کیا ؟  ۔۔۔۔۔۔ماں ھاجراں کی آواز پر کمو  انگڑائی لیتا ہوا اٹھ بیٹھا ۔ ۔۔  اور رات کی رکھی باسی روٹی  بچے ہوئے سالن سے منہ  میں ٹھونس کر   باہر جانے کیلئے مڑا ، جھونپڑی سے نکل کر وہ سیدھا حیدری   مارکیٹ  کے قریب اخبار کے  ٹھیے پہ پہنچا اور اپنے اخبار کا بنڈل اٹھایا ۔   اور سیدھا    پان کا  کھوکھا   کھولتے ہوئے نورے کے پاس  آ گیا ۔۔۔    نورے نے ایک آنکھ  گھما کر کمو کو دئیکھا۔۔۔۔ اور کہا   ۔۔۔اوئے کمو آج اتنا جلدی آ گیا ۔   ۔۔۔ کمو   نے  افسردگی سے جواب دیا ۔۔۔۔ یار نورے  آج اماں  کی کھانسی کی دوائی ختم  ہو رہی ہے ۔۔۔۔اماں کو ہر وقت کھانسی کے دورے پڑتے رہتے ہیں ۔۔۔۔، جلدی کچھ بکری ہو جائے تو اماں کی دوائی لے کے جاوں ۔۔۔۔ اچھا تو ایسا کر مجھے جلدی جلدی  کچھ  خبریں  پڑھ کے سنا۔۔۔ تاکہ میں  اخبار کا ہانکہ لگا سکوں ۔
کمو  کو پڑھنا نہیں  آ تا تھا ، تو  نورا پان والا خبریں پڑھ  کے کمو کو بتاتا ۔۔۔۔اور  پھر کمو۔۔ 4 کے ۔۔کی بس میں سوار ہو کر   حیدری سے بورڈ آفس  ، گولیمار ، گرومندر ، پھر صدر اور ٹاور تک بسوں میں  چیخ چیخ کر چٹپٹی خبریں  سنا سنا کر  اخبار پیچتا ۔۔۔۔    نورے نے ایکسپریس   اخبار کو الٹ پلٹ کر دیکھا  اور  کہا دیکھ بیٹے کمو۔۔۔۔ آج بڑی چٹپٹی خبر ہے ایکسپریس کے پچھلے صفحے پہ ۔۔۔۔ غریب   بڑھ گئے ۔۔۔۔ غربت میں اضافہ ہو گیا ۔۔۔۔
بھائی کمو   یہ اقوام متحدہ کے  کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی  پاکستان میں  غربت سے متعلق رپورٹ  ہے ، جس میں لکھا ہے کہ  شہری علاقوں میں  غربت کی شرح 9.3  فیصد اور دیہی علاقوں میں 54.6  فیصد ہے ۔ سب سے ذیادہ غربت فاٹا میں ہے جہاں  ہر 3 میں سے دو افراد غریب ہیں ۔  اور  73 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔  بلوچستان کی 71 فیصد آبادی   ، اور سندھ کی 43 فیصد  آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے ۔  قلعہ  عبداللہ، بارکھان  ہرنائی ، ، کوھستان ،  ۔۔۔ پنجاب کے راجن پور  اور سندھ کے تھرپارکر اور بدین میں غربت  نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔۔۔۔ ۔ جبکہ اسلام آباد ، لاہور اور کراچی   میں  امیر بڑھ رہے ہیں ۔ 
  
 نورا  ۔۔ خبر پڑھ کر اداس ہو گیا ۔۔۔۔، اور کہا کہ۔۔۔ یار کمو ہم بھی ان ہی میں سے ہیں ۔یا شاید ہمارا ذکر غربت کے ان اشاریوں میں  ہے ہی نہیں۔۔۔ ہم ان سے بھی نیچے ہیں ۔۔۔۔۔    کمو نے بھی بے دلی سے اخبار کا بنڈل اٹھا یا ، اور  4 کے  کی بس میں چڑھ کر آواز لگانے لگا ۔۔ غربت نے ڈیرے ڈال دئے ،   غریب بڑھ گئے ۔۔۔ آج کی گرما گرم خبر ۔۔۔   غربت نے ڈیرے 
ڈال دئے ۔۔۔۔ غریب بڑھ گئے  ۔۔۔  صرف 10 روپے میں ۔۔۔۔

 ادھر ۔۔ رمو  شمو کا ہاتھ پکڑے جیسے ہی حیدری   کی سڑک پہ آیا دیکھا وہاں  دیو ہیکل کرینیں   روڈ کے بیچ میں لگی گرین بیلٹ توڑ رہی  ہیں ،۔۔۔۔   سریوں  اور کنکریٹ سے پلر بنائے جارہے ہیں ۔   ۔۔۔شمو  اوررمو۔۔ وہیں مشین کو دیکھنے لگے  ۔۔۔۔ بیٹھے بیٹھے    رمو نے شمو سے کہا  ، شمو پتہ ہےیہ کیا ہو رہا ہے ،     شہر میں  گاڑیاں بڑھ گئی ہیں ،  تو حکومت ایک اور روڈ بنا  رہی ہے ، لگتا ہے اب ہر غریب کے پاس بھی گاڑی ہوگی ، ۔۔۔۔ جب ہمارے پاس ہوگی نا تو ہم گاڑی لے کے کلفٹن کے  جھولے جھولنے جائینگے ۔  سمندر کے کنارے پہنچ کر سمندر میں نہائینگے ۔ اور ایک ایک  کانٹا لگا کر سمندر  کے کنارے بٹھ جائینگے   اور سالن کے لئے سمندر سے مچھلیاں  پکر کر لائینگے ۔۔۔ اور پتہ ہے شمو  ۔۔  امی کہتی ہیں مچھلی میں بڑی طاقت ہوتی ہے ۔  ہم امی کو کھلائینگے تو   امی کی کمزوری   ختم ہو جاے گی اور   انہیں چار پائی سے اٹھنے  میں  تکلیف بھی  نہیں ہو گی ۔۔۔۔۔  یہی خواب بنتے بنتے  انہیں  دو پہر  ہو گئی  اور وہ واپس اپنی جھونپڑیوں کی طرف لوٹے۔۔ 


گھر پہنچ کر  رمو اور شمو  بیمار ماں کی چارپائی کے قریب بیٹھ گئے ، اور کہنے لگے اماں  اب تو فکر نہ کر  حکومت نئے روڈ بنا رہی ہے ، گاڑیاں بڑھ رہی ہیں نا ۔۔۔۔، اب ہر غریب کے پاس اپنی گاڑی ہوگی ۔۔۔۔ اماں ہمارے پاس بھی جب گاڑی آئیگی نا تو ہم آپ کو ہسپتال لے جائینگے ۔۔۔ اپ کا علاج کرائیں گے ۔۔۔ پھر تو ایسے  کھانس کھانس   کر   ماند  بھی نہیں پڑے  گی اماں ۔۔۔۔، پھر ہم  سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر آپکو کھلائینگے اور آپ ٹھیک ہو جائینگی ۔۔۔۔۔۔ ننھے    رمو  اور شمو کی بات سن کر  کھانستی  ہوئی ہاجراں نے   چہرے پر ایک طنزیہ ہنسی لاتے ہوئے  کہنا  شروع کیا ،۔۔۔۔۔۔ میرے بچو   یہ سڑکیں  تو سب    کالی اور دھندلی لکیریں  ہیں جو  ہم غریبوں کی قسمت کی طرح تاریک ہیں ۔۔۔۔، جنہیں ہر دوسرا شخص   اپنی امارت کے نشے میں روندتا ہوا چلا جاتا ہے ، بیٹے    ہر غریب کے  گاڑی خریدنے سے غربت ختم نہیں  ہوتی نہ ترقی ہوتی ہے ، ترقی تو تب ہوتی ہے  جب امیر لوگ  پبلک ٹرانسپورٹ میں  غریبوں کے ساتھ سفر کر تے ہیں ۔۔۔۔   ۔۔۔دو جملوں میں  بچوں کو ترقی کا درس دیکر  بوڑھی ہاجراں کی طنزیہ   مسکراہٹ  اور گہری ہوگئی۔۔۔۔ اور اسکے  طنز بھرے چہرے  کی گردن ایک طرف کو لڑھک گئی اور وہ خاموش ہو گئی ۔۔۔۔   رمو  اور شمو کو ا یسا  لگا  کہ اماں حکمرانوں کی  عقل پر طنز  کر تے   کرتے سو ہی گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment