Tuesday 26 July 2016

تحقیقاتی صحافت ۔۔۔۔۔ اور سیکیورٹی معاملات


تصور کریں کہ آپ جیسے ہی اپنا  میل ان بکس  کھولتے ہیں آپ کو ایک ایسی  ای میل موصول ہوتی ہے  جوکسی   نامعلوم شخص کی جانب سے کہ وہ  آپ سے انتہائی اہم رازوں سے پردہ اٹھانا چاہتا ہے۔ یا  انتہائی اہم  معلومات شئیر کرنا چاہتا ہے ، اور آپ سے  پروٹیکشن بھی چاہتا ہے  ؟  تو آپ کیا کرینگے ؟

اس مضمون کا مقصد آج کی ڈیجیٹل    دنیا  میں   صحافیوں  اور میڈیا   آرگنائیزیشن  کو یہ بتانا ہے کہ معلومات کی سیکیورٹی  کس طرح یقینی بنائی جائے ۔  کس طرح اپنے کام ، اپنی سورسز اور  اپنی کمیونیکیشن کو  محفوظ بنایا جائے ۔  تاکہ تحقیقاتی صحافت  کرنے والے عامل صحافیوں ، اور  ان کی سورسز کو لاحق  ان خطرات سے بچا یا جا سکے جو خطرات کے  انتہائی رسک پہ ہیں ۔
انفارمیشن سیکیورٹی ، یا انفو سیک   کا مطلب ہے کہ معلومات کو  غیر مجاز    رسائی سے کیسے روکا جائے ۔  وہ معلومات  آپ کے وہ اسٹوری آئیڈیاز بھی ہو سکتے ہیں  جن پہ آپ کام کر رہے ہیں ۔، ان اسٹوریز سے متعلق فائلز بھی ہو سکتی  ہیں ۔۔۔۔  آپ کی سورسز کی  شناخت بھی ہو سکتی ہے ۔  انکے ساتھ آپ کی کمیونیکشن بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔۔ اور ایسے  وقت  پہ خود آپ کی اپنی شناخت بھی  آپ  کو مسائل سے دوچار کر سکتی ہے ۔ اور آپ کی زندگی کو لاحق خطرات میں اضافہ کر سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔  وقت سے پہلےیہ معلومات  لیک ہونے سے  آپ کی زندگی  خظرات سے دو چار ہو سکتی ہے ۔ ہمارےئ پاکستانی معاشرے میں  جسکی واضح مثال ہمارے سامنے جیو نیوز کے رپورٹر والی خان بابر  کی ہے جو کچھ ایسی اسٹوریز پر کام کر رہے تھے ۔  جن کے لیک ہونے سے وہ اپنی زندگی سے ھاتھ دھو بیٹھے ۔
حالیہ  دو عشروں میں ملکی سیکیورٹی اداروں کے امریکہ   کے ساتھ  قریبی سیکیورٹی تعاون  نے ہماری ملکی ایجنسیز کو بھی اس قابل بنایا ہے کہ    وہ   کمیونیکشن کو  انٹر سیپٹ کریں  اور   کسی بھی پرسنل کمپیوٹر پر غیر مجاز ڈیٹا تک رسائی  حاصل کر لیں ۔  تحقیقاتی سحافت  کے میدان میں کام کرنے والے صحافیوں کیلئے یہ  ایک رسک بن سکتا ہے ۔  جو حکومت کے حوالے سے ، سیکیورٹی ایجنسیز کے حوالے سے   اپنی اسٹوریز پر کام کر رے ہیں ۔
آپ کے ڈیٹا تک غیز مجاز   رسائی   آپ  کے ڈیٹا کے استعمال کا تقا ضا کرے گی  اور اسکے نتیجے میں  آپ کے ڈیٹا  میں  موڈیفکیشن ہو سکتی ہے ، اسکی  انسپیکشن ہو سکتی ہے ۔ آپ کی اور آپ کی سورس کی کمیونیکیشن کی ریکارڈنگ ہو سکتی ہے ۔۔  وہ ڈیٹا  متعلقہ اتھارٹیز  تک  ظا ہر ہو سکتا ہے ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے   ضائع بھی کیا جا سکتا ہے ۔  
ایک عامل تحقیقاتی   صحافی کیلئے پہلی  لازمی چیز   یہ ہےکہ اسے ان  خظرات کا علم ہو اور ان سے آگاہی حاصل ہو ۔
 دوسرے  نمبر پر آپ کو اپنے  ھارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کے پر خطر ہونے کا  علم ہو ۔
لہذا ایک عامل صحافی کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے لئے خطرے کی تشخیص کرے (پرسنل رسک اسسمنٹ )  ،  اور  اپنی  دفا عی حکمت عملی  تیار کرے تاکہ بوقت ضرورت اسے استعمال کر سکے ۔
تحقیقاتی صحافت کی دنیا میں کام کرنے والے صحافیوں کی سکیورٹی  کو یقینی بناے کیلئے  انہیں مندرجہ زیل   اہم اقدامات کی طرف خصوصی توجہ دینی ہوگی
1۔ سب سے پہلے   اپنے   سسٹم کو پروٹیکٹ کریں ۔ اسکے ھارڈ ویئر اور  سافٹ ویئر کی سیکیورٹی یقینی بنائیں
2۔  صحیح لیپ ٹاپ کی خریداری ، اور  پا س ورڈز اور کی گارڈز کی زریعے ہر وقت اپنے لیپ ٹاپ کی نگہبانی کرنی ہوگی  (زہن نشین رہے کہ  2006 سے  انٹیل نے  ایک ایسی چپ لگانی شروع کی ہے جسے(    انٹیل اکیٹو مینجمنٹ ٹیکنالوج )   کہا جاتا ہے جس کے زریعے سے  ایک آئی ٹی ٹیکنیشن   کسی بھی جگہ سے  آپ کے سسٹم کے سافٹ ویئر ز کو ریموٹ کنٹرول کے زریعے سے اپ ڈیٹ یا ڈلیٹ کر سکتا ہے   ۔ اسکے لئے اسکا آپ کے سسٹم کے قریب ہونا ضروری نہیں ہے ۔
3۔  اپنے سسٹم کے ویب کیمرہ  اور مائیکرو فون کو محفوظ بنائیے ۔ کیو نکہ آ پ کے  لیپ ٹاپ کا  ویب کیمرہ  اور آپ کا  مائیکرو فون ریموٹ   لی  آن کیا جاسکتا ہے  کہیں  سے بھی بیٹھ کر ۔
4۔  محفوظ براوزنگ :  جب جب آپ ویب براوزنگ کرتے ہیں تو اپ کی شناخت   کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا سکتا ہے ۔ آپ کے براوزنگ بیھیویرز   کا ڈیٹا اکٹھا  کیا جا سکتا ہے ۔ آپ کے  پاس ورڈز  اور آپ کے آٹو  فل انفارمیشن کا  ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ اور اسکے ساتھ ساتھ آپ کی لوکیشن کا بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے ۔  اس کے لئے ضروری ہے ۔ کہ آپ ایک ایسا براوزر استعما کریں جس  کی ایکسٹینشن  بڑھائی گئی ہوں ۔  اگر ممکن ہو تو  اپنی لوکیشن کو چھپانے کیلئے آپ  (ٹور )   براوزر استعمال کر سکتے ہیں، جو  کسی حد تک ذیادہ محفوظ ہے اور آپ کی لوکیشن کو ظاہر  نہیں کرتا اور ویب سنسرشپ  پہ قابو پا لیتا ہے ۔ 

5 ۔ سب  سے اہم آپ کے ڈیٹا کی سیکیورٹی ہے ۔  جسکے لئے کئی   رسک بھی ہیں ۔ اور اسے محفوظ کرنے کے کئی   طریقے بھی  جو درج ذیل ہیں
حفاظتی  اقدامات
رسک
بیک اپ ڈیٹا
ڈیٹا  کا محو ہونا
انکرپٹ ڈیٹا
ڈیتا کا کرپٹ ہونا
محفوظ طریقے سے فائلز شیئر کریں
ڈیٹا میں  انٹرسیپشن ہونا
محفوظ طریقے سے ڈیٹا   ڈلیٹ کریں
ڈیٹا چوری ہونا

6۔  اپنی ای میل کو محفوظ بنائیں ۔ کوئی بھی شخص  آپ کی ای میل کو پڑھ سکتا ہے ۔ اس کے سبجیکٹ کو  پڑھ سکتا ہے ، آپ جسے ای میل کر رہے ہیں   اسے  جان سکتا ہے ۔ اپ کی ای میل اٹیچمنٹ  کو انٹرسیپٹ  کر سکتا ہے ۔ اور یہ بھی کہ آپ یہ ای میل کہانںسے کر رہے ہیں ، اپ کی لوکیشن کو بھی جان سکتا ہے ۔ ۔ اپ اپنی ای میل کو محفوظ بناے کے لئے چند اقدامات کر سکتے ہیں ، جن میں اپنے پاس ورڈ کو  مضبوط  بنائیں ۔ اسٹرانگ پاس ورڈ   آپ کی ای  میل پہ ہونے والے پہلے حملے کو ناکام بناتا ہے ۔  قابل بھروسہ ای میل پرووائیڈر   پر انحصار کریں ۔  اپنی  ای میل کو ان کرپٹ بنا کر  بھیجیں ۔  اپنی کیز   کو ویری فائی کریں ۔  اپنی ای میل کے سبجیکٹ میں جتنا ہو سکے انتہائی کم معلومات درج کریں ۔  ای میل کیلئے آپ     تھنڈر برڈ کا محفوظ براوزر استعما ل کر سکتے ہیں ۔
7۔ اپنے  میسیجز کو  محفوظ بنائیں ۔  انسٹنٹ میسیجز  ایک تیز ترین زریعہ ہے جو آپ اپنی سورس سے قائم کرتے ہیں ۔ لیکن اسے بھی محفوظ  بنانے کی ضرورت ہے  اسکے لئے  آپ کو ( او۔ ٹی ۔ آر)  آف دی  ریکارڈ  میسیجنرز   استعمال کرنا ہونگے ۔ مارکیٹ میں ایسے کئی  میسینجرز  موجود ہیں جو آپ کے  پیغام کو ان کرپٹ کرکے  بھیجتے ہیں اور اس پیغام تک کسی تھرڈ پارٹی کی رسائی کو ناممکن بناتے ہیں ۔ اسکے  لئے   سگنل ایک بہترین میسینجر ہے  ۔ آپ اسے استعمال کر سکتے ہیں ۔ لیکن یاد رکھئے کہ  آپ  کے  پیغام کے محفوظ رہنے کیلئے   اپ جسے پیغام بھیج رہے ہیں  اس کے پاس بھی  وہی  میسینجر ہونا لازمی ہے ۔ ورنہ اپ کا پیغام   ان کرپٹ نہیں رہے گا ۔
7۔ اپ کا سسمارٹ فون آپ کے لئے سب سے بڑا سیکیورٹی رسک ہے ۔ اس اسمارٹ فون پر آپ  براوزنگ کرتے ہیں آٹومیٹک طریقے سے آپ کا ای میل  ہر وقت اوپن رہتا ہے ۔  یہ آٹو میٹک طریقے سے آپ کی موجودہ اور سابقہ پوزیشنز کا ریکارڈ رکھتا ہے ۔ آپ کے فون  نمبرز ، کال کرنے   اور رسیو کرنے والے کی لوکیشن  کا ڈیٹا ۔ یہاں تک کے آپ کے استعمال کئے ہوئے کالنگ کارڈز کے نمبرز بھی ا سمیں محفوظ ہوتے ہیں ۔  گویا  یہ آپ کا پورا نامہ اعمال ہے ، جو کرامین کاتبین  اس اسمارٹ فون کے اندر بیٹھ کر  مرتب کرتے رہتے ہیں ۔  یاد رکھئے کہ اگر آپ کا اسمارٹ فون بیٹری  ختم ہونے کے بعد  پاور آف موڈ  میں  بھی ہے  تو بھی اس کے باوجود   کوئی  آپ کی گفتگو کو سن سکتا ہے ۔   لہذا ایسے تحقیقاتی صحافی جو  حساس اسٹوریز پر کام کر رہے ہیں ان کیلئے لازمی ہے کہ وہ اپنی سیکیورٹی کو محفوظ بنانے کیلئے  برنر فونز استعمال کریں  جو  ذیادہ محفوظ ہیں (  برنر فونز ان فونز کو کہا جاتا ہے جو صرف ایک ہی مقصد کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں یعنی  صرف وائس  کالنگ کیلئے ،  آپ  نو کیا کے پرانے 3310۔ 1112۔ جیسے فون بھی استعمال کر سکتے ہیں جو ذیادہ محفوظ ہیں ۔
یہ بھی یاد رکھین کہ اگر آپ کسی ایسی سورس کے ساتھ کام کر رہے ہیں جو سیکیورٹی ایجنسیز کے  زیر نگرانی  ہے ، تو یہ بات لازمی سمجھئے کہ اس کے ساتھ کام کرنے پر   آپ خود بھی زیر نگرانی آجائینگے ۔
مندرجہ بالا  اقدامات پر عمل کرکے  ایک  تحقیقاتی صحافی   خود کو لاحق  خطرات میں کسی قدر کمی ضرور لا سکتا ہے ۔



Wednesday 13 July 2016

ایدھی ۔۔۔۔ عبادتوں کی انتہاوں پر ۔۔۔


آج اپنی ڈائری کی ورق گردانی کے دوران  کہیں سے لکھے ہوئے  دو پیرا گراف  نظر سے گذرے (  اللہ  کے تقرب کی جتنی بھی راہیں ہیں  ، سجدے  کے علاوہ سب مخلوق  خدا سے محبت کی راہیں  ہیں ) ۔۔ حضرت واصف علی  واصف
اب دوسرا انتخاب بھی دیکھئے ( جب آپ کی ذات  اللہ کی مخلوق کیلئے بے ضرر ہو جائے تو یہ آپ کی عبادت کی ابتدا ہے ۔۔ اور جب آپ کی ذات اللہ کی مخلوق کیلئے سراسر نفع ہی نفع بن جائے تو یہ  آپ کی عبادت کی انتہا ہے )
یہ دونوں پیرا گراف  پڑھ کر  میری آنکھیں  بھیگنے لگیں ، اور میرے سامنے چار دن سے گدھوں کی طرح   ایدھی صاحب  کی میت کو نوچنے  والے مولویوں کی وہ سارے بیانات گھوم گئے ۔   لیکن میرے دل نے گواہی دی کہ   وہ جسے  حرامی بچوں  کی پرورش کرنے والا کہا گیا  وہ تو اللہ کے مقربین میں سے تھا ،   کہ مخلوق خدا سے محبت  کی ساری راہیں اس رب کائنات   کے تقرب کی راہیں ہیں ۔ ایدھی تو انہی راہوں کا مسافر تھا ۔ اس نے مخلو ق خدا سے  والہانہ محبت کی۔۔۔۔۔ انسانوں  سے بڑھ کر  اس نے جانوروں کو بھی یہ محبتیں بانٹیں ۔۔۔۔۔ تقرب  خدا میں تو  ایدھی  سارے مولویوں سے بازی لے گیا ۔۔۔۔ مخلوق خدا سے محبت کی ساری راہیں آج اس ایدھی کے  پاوں کی دھول بننے کیلئے بے قرار ہیں۔۔۔۔۔۔ ۔ اور وہ کچلی ہوئی روحیں  جنہیں  اس معاشرے نے ٹھکرا دیا ، گھر سے بے گھر اور بے آسرا کردیا ۔ ایدھی نے ان سب میں محبتیں ہی تو  بانٹیں ۔۔۔۔ وہ تو پوری زندگی کی کسی سے نفرت کر ہی نہ سکا ۔۔۔۔۔ جنہوں نے اس کی  جان لینے کی کوشش کی،  وہ  زندگی بھر ان کی بھی لاشیں اٹھا تا رہا اور سب سے ذیادہ خدمت۔۔۔  جان  کے درپے رہنے والے لوگوں کے شہر ہی کی کی ۔۔۔ ارے اس کے دل میں  تو نفرت کیلئے جگہ ہی باقی نہی تھی، مخلوق خدا کی محبت میں زندگی بسر کرکے خدا کا تقرب ڈھونڈنےو الے ایدھی  کو اپنے پیٹوں میں نفرت بھر بھر کر پھلانے والے کیا جانیں ۔
میں نے ایدھی کو  اوپر بیان کردہ  دوسرے قول  پہ  بھی  پرکھ کے دیکھا  تو ایدھی مجسم عبادت نظر آیا ، کہ اسکی ذات  اللہ کی مخلوقات کیلئے بے ضرر تھی۔۔۔۔۔۔ اس سے کسی کو کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی ۔۔۔۔۔ بلکہ اسکی ذات تو  سراسر نفع ہی نفع تھی ، مخلوق خدا کیلئے مجسم نفع تھی ۔ اس لحاظ سے ایدھی  عبادتوں کی بھی انتہاوں پر تھے ۔ جہاں پہنچنا موٹےپیٹ والے مولویوں کے بس کی بات نہیں ، نہ ان کی سوچ اور ان کا  زاویہ نگاہ وہاں پہنچ سکتا ہے ۔
کہیں پڑھا تھا کہ  خوف خدا  اور اللہ سے محبت رکھنے والوں کے کبھی پیٹ بڑھے ہوئے نہیں ہوتے ، کہ خوف انسان کو کمزور کرتا ہے ، لاغر کرتا ہے ۔ ایدھی مجھے ہمیشہ  ایسا ہی  لاغر  نظر آیا ۔
لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ  کہ ایدھی کا موازنہ اس مولوی زرولی سے کیسے  کروں ، جو چندے کی ڈبل کیبن کی پچھلی سیٹ  پہ اکیلا بمشکل سما پاتا ہے ۔۔۔ اور اپنی  اتنی بڑی توند کی وجہ سے وہ کسی سے گلے بھی نہیں مل پاتا ۔  سوچتا ہوں  خدا کی محبت تو رہی ایک طرف زرولی  میں خوف خدا ہوتا تو  چار من کا وزن اٹھا کر نہ پھر رہا ہوتا۔۔۔۔ جسکے لئے چلنا پھرنا تک مشکل ہے ۔  اس موٹے پیٹ والے مولوی زرولی کو  چندے  میں کمی کی ہی فکر کھائے جارہی تھی ۔۔۔۔۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اربوں کا بجٹ رکھنے والا   ایدھی لوگوں کی امانتوں کا محافظ بنا ۔۔۔۔ کہ اس رقم کو اس نے اپنی ذات پہ کبھی خرچ نہیں کیا ۔ ارے اس نے تو اتنی احتیاط برتی  کہ  فلاحی کام کیلئے بھی کوئی اچھی اور آرام دہ گاڑی استعمال نہیں کی۔۔۔۔۔ انہی ٹوٹی پھوٹی ایمبولینسوں میں پھرتا رہا ۔۔۔۔۔  چندے کے پیسوں کی ڈبل کیبنوں میں گھومنے والے مولوی   ایدھی جتنا خوف خدا  کہاں سے لائینگے ۔ ؟

خدا کے تقرب کی راہوں پر چلنے والے ایدھی کیلئے زبان دراز کرنے والے اپنے انجام کا سوچیں کہ ان کے جنازے کا  وزن بھی لوگ کندھوں پہ اٹھا سکیں گے کہ نہیں ۔۔۔۔