Monday 31 October 2016

کراچی کی سماجی اور گروہی سیاست میں جکڑا صحافی


1870 میں 13 اسکوئر کلومیٹر پر مشتمل کراچی شہر آج پھیل کر 3600 کلو میٹر پر محیط  ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے 1300  کلو میٹر  کا علاقہ تعمیرات   سے بھر گیا ہے ۔۔۔۔۔
16 ملین آبادی کا شہر کراچی  3600  کلو میٹر پرپھیلا ہوا ہے ۔ ۔۔کراچی کے ارتقا ء، پھیلا و اور معاشی ترقی کی کہانی درحقیقت ایک ایسی کہانی ہے جس نے کل کے کراچی کو ایک چھوٹے سے گاوں سے آج ایک بڑے وسیع و عریض ترقی یافتہ شہر میں تبدیل کردیا ہے ۔ کراچی شہر کے تیزی سے پھیلاو کی وجہ 50/60 کی دہاء ی میں بوجہ تقسیم ہند نظر آتی ہے ۔ لیکن 70/80 کی دہائی میں دیہی علاقوں کی جانب سے معاشی بنیادوں پر انتقال آبادی  کے باعث  شہر کو جغرافیائی حدود ، نظم و نسق ۔ اور دوسرے متنوع مسائل کا سا منا کرنا پڑ رہا ہے ۔
۔۔۔ آج کے   مہنگے سماج میں بھی کراچی کا  شمار  دنیا  کے تین بڑے سستے شہروں میں  کیا جاتا ہے ، جہاں ایک مزدور بیس روپے میں  کھانا کھا سکتا ہے ۔   کراچی  کی ہمہ گیری ، اور اسکے تنوع  نے یہاں  بتدریج  مختلف   سماجی  تبدیلیوں کی راہ ہموار کی ہے ، جسکے باعث یہاں  کے مسائل   کی بھی مختلف جہتیں ہیں ۔ صنعتی ترقی سے جہاں شہر کی جغرافیائی حدود میں اضافہ ہوا ہے ۔ وہاں نظری اور عملی نظم و نسق کے مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔
یہ ایک ایسا ملک ہے جس  میں دیہی ، شہری  اور صوبائی سطح پر   سماجی اور  معاشی  طور پر واضح تفریق  موجود ہے ۔ اس سماجی  تفریق نے  معاشرے  میں  معاشی ناہمواری میں بھی  اہم کردار ادا کیا ہے ۔  جس کےنتیجے کے طور پر   بہتر روز گار کے حصول  اور معاشی  ناہموری   کی دلدل سے نکلنے کیلئے    اندرون ملک بڑے پیمانے پر ھجرت ہوئی ۔ اس ھجرت کے بہاو کا رخ کراچی کی جانب ہی رہا ۔ جس نے اس شہر میں مختلف  قومیتوں ، مختلف زبان بولنے والوں کو اپنی گود میں سمیٹا اور انہیں روزگار فراہم کیا ۔ لیکن  شہر کے نطام میں اتنی وسعت  نہیں تھی کہ  وہ ان قومیتوں  کو اپنے اندر سمو پاتا ، اسکے نتیجے میں  یہاں مختلف گروہوں نے  اپنا اسپیس   لینے کیلئے اس شہر کو ٹکڑیوں اور  علاقوں میں بانٹ لیا ۔  گروہی تقسیم  نے  اس شہر  کی سیاسیات پر بھی  گہرے اثرات  ڈالے  جس کی جڑیں معاشی مفادات سے وابستہ رہیں ۔ شہر کی وسعت اور ہمہ گیری  نے  مذھبی انتہا پسندوں کو بھی اسے جائے  فرار و قرار  سمجھنے  پر مجبور کیا اور انکی کمین گاہین  بھی اس شہر کا حصہ بن گئیں ۔
اور انہی گروہی  مسائل میں گھرا  کراچی اور اسکا صحافی  بھی  ان مسائل کا شکار رہا ۔۔اور نتیجتا یہاں کا صحافی  گروہی اور معاشی مفادات  کی زد پر آنے کی وجہ سے ہمیشہ  خطرات سے دو چار رہا ، جسکی واضح  مثال گذرشتہ سالوں میں  ایک  بڑے میڈیا ھاوس سے وابستہ صحافی ولی خان بابر کا  قتل تھا ۔ جو اسی  گروہی  سیاست کی بھینٹ چڑھا ۔ جبکہ حالیہ دنوں  میں  میڈیا ھاوسز اور انکی املاک پر ہونے والے حملے بھی  اس شہر کی اس سماجی اور گروہی وسعت کو ظاہر کرتے ہیں جس کا اوپر ذکر ہوا ۔ 
اپنے مفاد ات پرپڑنے والی زد کا غصہ ہر گروہ   اس چلتے پھرتے  میڈیا کے ڈبوں پر نکالتا ہے ، جنہیں ڈی ایس این جی کا نام دیا جاتا ہے ۔  نتیجتا  ان ڈی ایس این جیز پر متعین میڈیا ورکرز اپنی جان سے ھاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ کراچی کے علاقے  بہادر آباد میں اسی طرح  ڈی ایس این جی وین پرہونے والے حملے میں ایک میڈیا کارکن اپنی  جان گنوا بیٹھے ۔
یہاں کا  ہر گروہ ، اپنے معاشی  اور سیاسی مفاد کی ہر خبر کو اپنے اینگل اور اپنے نظریے  کی عینک سے اسکرین پر دیکھنا  چاہتا ہے ، اور اس مقصد کے حصول کے لئے  اس کی پہلی نظر  اس رپورٹر اور کیمرہ مین پر پڑتی ہے  جس کے ھاتھ میں مائیک اور جس کے کندھے پہ کیمرہ رکھا ہوتا ہے ۔    ۔ہر گروہ کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک پروفیشنل صحافی بن کر نہیں بلکہ اسکے گروہ کا ترجمان بن کر قلم چلائے ۔نتیجتا یہاں کا صحافی خوف اور تشدد کے ماحول میں  اپنی ذمہ داریوں کو  ادا کرتا ہے ، جس سے پیدا ہونے والا اسٹریس  اسکی زندگی کا روگ بن جاتا ہے ۔  
اس  شہر کے صحافی کی نہ تو املاک محٖفوظ ہے اور نہ ہی اسکے آنے جانے کے روٹس   پر اسے تحفظ حاصل ہے ۔   جسکی واضح  مثال کراچی کے ایک صحافی کو اسکے گھر کے دروازے پر قتل کیا جانا ہے ۔ ان ساری مشکلات میں گھرے کراچی کے صحافی کو  اپنے اداروں کی جانب سے بھی  خاطر خواہ   تحفظ  حاصل نہیں ، نہ انکی لائف انشورنس ، اور نہ ہی کسی ناگہانی کے بعد انکے بچوں کی کفالت جیسے  مسائل ان   اداروں کی ترجیحات میں شامل ہیں ۔
دھونس ، دھمکیوں ، جان کے خطرات   کے خدشات میں گھرا کراچی کا صحافی  ایک ایسی منزل کا مسافر ہے  جس کے راستے میں آنے والا ہر موڑ  اسے یہ پیشہ ترک کرے   کوئی اور پروفیشن اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے  ۔۔۔لیکن اسکے با وجود یہاں کے صحافی کی اپنے پیشے سے ان مٹ کمٹمنٹ   اور سیاسی و سماجی  گروہوں کے درمیان رہ کر بھی آگ اور کھائی کے درمیان  موجود پتلی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے  اپنی ذمہ داریوں  کو احسن طریقے سے انجام دینے کی لگن  اسے ملک  بھر کے  دوسرے صحافیوں سے ممتاز کرتی ہے