Tuesday 14 November 2017

میرے مرحوم و مدفون ھیرو ۔۔۔



ڈاکٹر عطاء  الرحمان  ۔۔۔ میں جب یونیورسٹی میں پرھتا تھا،  تو آپ کا بے حد احترام کرتا تھا ۔۔ آپ میرے لئے ایک ہیرو تھے  کہ آپ نے۔۔ ایچ ای جےریسرچ  انسٹیٹیوٹ ۔۔۔  کے زریعے  میرے ملک کا نام روشن کیا  تھا ۔۔۔ اور میں دل  ہی دل میں تم سے محبت کرتا تھا  ، خیال ہی خیال میں  آپ کی  تصویر کشی کرتا تھا ۔۔۔ نوجوان تھا  ملک کو آگے لے جانے کے خواب دیکھتا تھا ۔۔۔کہ  میرے ملک کو آپ جیسے  لوگوں کی ضرورت تھی ۔۔۔ پھر جب میں  تعلیم سے فارغ ہوا ۔۔۔ اور کار زار صحافت  میں قدم رکھا   ۔۔تو آپ  وزارت آئی ٹی ا و رٹیکنالوجی کےو زیر تھے ۔۔۔ میں خوش ہوا کہ کہ میرا ھیرو  ۔۔ایسی وزارت پہ آگیا ہے ۔۔جو میرے ملک کو ٹیکنا لوجی  کے زریعے  آگے  لے جائے گا ۔ ۔۔۔۔۔سیمینارز  اور وکشاپس  کے  دوران  میں  آپ کی تقریریں غور سے سنتا  تھا ۔۔۔۔اپنے قلم کے زریعے ایک ایک پوائنٹ   نوٹ کرتا  تھا ۔۔۔۔آ پ کی خبر  بناتے ہوئے  کوشش کرتا کہ آپ کا کہا ہوا  کوئی  اہم نقطہ     میرے قلم سے رہ نہ جائے ۔۔۔۔۔خبر بنا کے اپنی خبر کو بار بار چیک کرتا ۔۔۔۔۔۔۔ کہ آپ   میرے  ھیرو تھے ۔۔۔۔۔اپنے دل کی مورتی میں  برسوں آپ کو ھیرو کی طرح   پو جا تھا ۔۔۔۔۔آپ کو یاد ہو گا ۔۔۔آپ اپنی  تقریروں  میں  اکثر  فن لینڈ کی ایک چھوٹی کمپنی  "نو کیا "کی مثال دیتے کے اسکا سالانہ بجٹ 34  بلین ڈالرز ہے ، ہمارے ملک سے ذیادہ ۔۔ مجھے آپ کی وہ مثالیں بھی  اچھی طرح یاد ہیں ۔۔۔۔ میں بھولا  نہیں ہوں ۔۔۔ پھر آپ  نے ایک نئی چڑیا ایجاد کی۔۔ میڈیکل ٹرانسکرپشن  کا منصوبہ لے کر آئے   اور قوم کو بتایا کہ  میرا ملک اس سے سالانہ  کئی ملین ڈالرز کمائے گا ۔ قوم کی  افرادی قوت کو استعمال کیا جائیگا ۔۔۔ آپ میرے ھیرو تھے اور اور آپ کے اقدامات   نے۔۔میرے دل کے ساتوٰں آسمانوں پر آپ کو بٹھایا تھا ۔۔۔
لیکن جب میں نے  تحقیقاتی صحافت شروع کی ۔۔۔۔ اور میڈیکل  ٹرانسکرپشن کے آپ کے منصوبے کا پوسٹ مارٹم کیا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔۔۔ میں نے اپنا بھیس بدلا ۔۔۔۔ اپنے آپکو ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ کے روپ  میں ڈھالا ،۔۔۔ ایک دو فائلیں ھاتھ میں پکڑیں ۔۔۔۔۔ اور کراچی سائٹ میں ھنڈا  شوروم کے سامنے  آپ کی کمپنی رحمان  اندسٹریز  میں  جا پہنچا ۔۔۔ کہ میں لوگوں کی سنی سنائی باتوں  پہ بھرو سہ نہیں کرتا تھا ۔۔۔خبر کو  کھود تا   تھا ۔۔۔۔۔خبروں کی تصدیق  کیلئے خود   ایک ایک جگہ پہ جاتا تھا ۔۔۔۔اور میں تھا بھی تو ملنگ صحافی ۔۔۔کہ  کوئی پھٹیچر   موٹر سائیکل  بھی میرے پاس نہ تھی ۔۔۔   اے 3 ۔۔۔ بس   میں بیٹھا  ۔۔۔۔۔اور آپ کی کمپنی   رحمان   انڈسٹریز  کے سامنے جا اترا ۔۔۔۔۔ میڈیکل ٹرانسکرپشن  کیلئے اپنا تعارف کرایا ۔۔ اور آپکی کمپنی  کے آفس  میں میڈیکل ٹرانسکرپشن کا مصنوعی دفتر اپنی انکھوں سے دیکھا ۔۔۔۔  لوگوں  کو کام  کے ٹھیکے  آپ  کی اسی  کپنی  کے دفتر سے جاری ہوتے  تھے ۔۔۔آپ نے  اس مقصد کیلئے رکھے گئے سالانہ  8 کروڑ روپے  کے فنڈز  اپنی ہی کمپنی کو ٹرانسفر کئے  ۔۔۔ میں نے آپ  کے  مصنوعی آفس کی تصاویر لیں  ۔۔۔۔ فنڈز   کی تفصیلات    اور ثبوت    حاصل   کئے ۔۔۔۔اور اسٹوری چھاپ دی ۔۔۔۔
ڈاکٹر عطاء الرحمان   اس دن میرا ھیرو مر گیا  تھا ۔۔۔  اس دن آپ ھیرو سے  زیرو ہو گئے تھے ۔۔۔ اس رات اپنے ھیرو کے مرنے پہ میں رضائی میں منہ دے کے خوب رویا تھا ۔۔۔۔۔کہ آج میرا  زمانہ طالبعلمی کا ھیرو جسے اپنے دل میں بسایا تھا مر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں نے  اپنے ھیرو کو دفیا دیا ۔۔۔ قبر میں  اتار دیا ۔۔۔۔۔
لیکن آج صبح آپ نے  میرے  پرانے زخم ہرے کر دئے ۔۔۔۔۔ٹیکنو کریٹ ھیروں کی شکل  میں رہبری کرنے والے ھیرو  و تو میں کب کا  دفن کر چکا تھا ۔۔ لیکن آج روزنامہ جنگ میں آپ کے کالم نے میرے  سلے ہوئے زخموں  کے ٹانکے کھول دئے ۔۔۔آپ نے پھر وہی اعداد و شمار کے گوررکھ دھندے   بیان کرکے میرے ملک کے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ۔۔۔ اور سارے مسائل   کا حل  ان الفاط میں  بیان کیا ۔۔۔۔
"میرے خیال میں پاکستان کو اپنے آئین میں تبدیلی لانی ہوگی اور صدارتی نظام جمہوریت کے تحت ما ہرین کی حکومت کے قیام کی جانب سفر کرنا ہو گا۔ اس مقصد کو سپریم کورٹ، روشن خیال سیاستدانوں، اور عسکری قیادت کی مداخلت کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔"

میرے  مرحوم و مدفون ھیرو  ۔۔۔۔۔۔! آپ  نے پھر پرانا چورن بیچنا شروع کر دیا ۔۔ صرف اس لئے کہ آپ کو کوئی سیٹ مل جائے ۔۔ کوئی وزارت مل جائے۔۔۔ ٹیکنو کریٹ کے نام پہ ۔۔۔۔آپ نے اپنا  چورن بیچنے کیلئے میری محبوب فوج کو مداخلت کی دعوت بھی دے ڈالی ۔۔۔۔اور سپریم کورٹ  کو استعمال کرنے کی تجویز   بھی  دے دی ۔۔۔۔۔۔ میرے  مرحوم ھیرو  ۔۔۔۔۔آج میں آپ سے شدید نفرت کرتا ہوں ۔۔۔آپ نے آج  مجھ سے میرا آئین چھیننے کی کوشش کی ہے ۔۔ میری  عدلیہ  کو استعمال  کرنے کی  تحریری  تجویز دی ہے ۔۔۔۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو  عساکر کو مداخلت  کی دعوت دینے پر  آپ پر غداری کا مقدمہ قائم کرتا ۔۔۔۔۔ عدلیہ  کو استعمال کرنے پر توہین عدالت   کا مقدمہ کرتا ۔۔۔۔۔ لیکن کیا کروں یہ میرا کام نہیں ۔۔۔ میں کوئی وکیل نہیں ۔۔ میں تو صرف قلم کا سپاہی ہوں ۔۔میرا ہتھیار صرف  میرا قلم ہے ۔۔۔ اس لئے  میں نے آج اسی قلم سے   اپنے ھیرو کی مدفون لاش  قبر سے نکال کر بیچ چوراہے پر لٹکا دی ہے ۔۔ میں یہی کر سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ 

No comments:

Post a Comment