Tuesday 28 November 2017

محلے کی کتیا ۔۔اور مسجد کا ٹرسٹی


میں نے رات گئے جب گھر میں قدم رکھا تو میری چھوٹی  بیٹی کمبل میں منہ دئے  ہلکی ہلکی سسکیاں بھر کر رو رہی تھی ۔۔۔ پوچھنے پر کہا کہ بابا نیند نہیں  آ رہی  ۔۔۔ میں نے  اسے پیار کیا اور سینے سے چمٹاتے ہوئے کہا کہ کیا بات ہے ۔۔۔ تو اس نے  پوری کہانی سنادی ۔۔۔جو اسکے یوں سسکیاں بھرنے کی اصل وجہ تھی ۔ کہنے لگی بابا ۔۔۔ وہ ہمارے گھر کے سامنے   ننھے منے  بچوں والی جو کتیا تھی نا ۔۔ اسے ہمارے پڑوسی شانی نے آج بہت پتھر مار کر بھگایا ۔۔ اور پھر اسکے ایک ھفتے کے منے پلوں کو  ایک ایک  کرکے مارنے  لگا ۔۔۔۔ اور گلی میں چیخنے لگا  کہ اس نے ہماری نیند خراب کردی ہے ۔۔۔یہ دیکھ کر  سامنے سے ایک   اور پڑوسی  نکل آیا ۔۔اور کہنے لگا کہ انکو مت مارو ۔۔ معصوم ہیں ۔۔۔۔ میں انہیں کہیں دور چھوڑ آتا ہوں ۔۔۔ اس نے کتیا کے6 پلوں  کو  ایک تھیلی میں ڈالا اور بائیک پر  کہیں  چھوڑ آیا ہے ۔۔۔۔ بابا ۔۔ جب سے یہ واقعہ  ہوا ہے  ۔۔ کتیا نے بھونکنا چھوڑ دیا  ہے ۔۔۔ اسکے حلق سے عجیب عجیب آوازیں نکل رہی ہیں ۔ ۔۔۔کبھی  گلی کے ایک کونے کی طرف  بچوں کی تلاش میں بھاگتی  ہے اور کبھی دوسری طرف ۔۔۔۔۔   گھرکے سامنے  جس کیاری   کے پاس  اس کے بچے تھے ۔۔ اسکی زمین  کھود کے دیکھ رہی ہے ۔۔۔  کچرے کی ہر تھیلی  کو بھبھوڑ کر دیکھتی ہے ۔۔۔کہ شاید اس میں اس کے دودھ پیتے بچے ہوں ۔۔۔۔ بابا  دیکھو  کیسے گلی میں چکر لگا رہی ہے  اور آج پاگلوں  کی سی  آوازیں نکال رہی ہے ۔۔۔۔۔۔ میں  نےبچی کو دلاسہ دیا اور گلی میں جا کر  کتیا  کی آہ و زاری  اور اپنے بچوں کیلئے  اسکی ممتا کی تڑپ کو دیکھانے لگا ۔۔۔۔ تو  نہ جانے کیوں  مجھے   بی بی حاجرہ  یاد آگئیں ۔۔۔۔ اور  آنکھیں بھیگنے لگیں ۔۔۔ کہ کس طرح سیدنا اسماعیل کی محبت  ۔۔ اور پانی کی تلاش میں  وہ کبھی صفا کی پہاڑی پہ چڑھتیں اور  واپس بچے کے پاس آتیں ۔۔۔۔اور بچے کو دیکھ کر واپس  مروہ کی پہاڑی کی طرف دورڑلگاتیں ۔۔۔۔۔  سیدنا  اسماعیل  سے انکی محبت  کو شاید خدا سے بھی دیکھا نہ گیا ۔۔  اور فورا  ہی زمزم کا کنواں ابلنے لگا  ۔۔۔۔ اور رہتی دنیا تک   محبت کے اس اظہار کو  ۔۔ حج کا رکن بنا دیا گیا ۔۔۔۔۔
میرے محلے میں آنے والی ا س کتیا سے میری    بیٹی  کی شناسائی بس ایک ھفتے ہی کی تو تھی ۔۔۔۔۔ جب اس نے بچے دئے تھے ۔۔۔اور سامنے والی کیاری  میں ایک گڑھا کھود کر وہاں اپنا ٹھکانہ بنایا تھا ۔۔ جب ہم نے دیکھا کہ وہ کھانے کیلئے گلی کے ایک سرے تک جاتی اور بھاگ کر واپس پلٹ  کر اپنے پلوں کو ایک نطر دیکھتی  اور پھر دوسرے  سرے تک رزق کی تلاش میں  چکر لگاتی ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میری بچی نے کہا بابا   دیکھو  بچاری کھانے کی تلاش میں ہے لیکن بچوں کو اکیلا چھوڑنا  نہیں  چاہتی ۔۔۔۔
میری بیٹی اور میں نے گاڑی نکالی ۔۔۔ اور میٹرو کے سامنے مٹی کے برتن بنانے والے کمہار   سے  کتیا کے کھانے کیلئے ایک برتن لے آئے ۔۔۔۔ اور اس دن سے ھمارے گھر کے  دودھ   میں  کتیا کیلئے  بھی دودھ کا کوٹہ مقرر ہو گیا ۔۔۔۔ میری  غیر موجودگی میں  میری ننھی  اس برتن میں  دودھ انڈیل دیتی ۔۔ اور کتیا کی دیکھ بھال کرتی کہ جب اسکے  بچے بڑے ہونگے تو خود ہی  یہاں سےچلی جائے گی ۔۔۔۔
کراچی  میں آئی حالیہ سردی کی لہر کیلئے جب تہہ کئے ہوئے کمبل نکالے گئے تو ایک  قرعہ فال کتیا کیلئے  بھی نکلا ۔۔۔۔۔ اور پھر ایک دن میں  نے اپنی بچی کے ساتھ ملکر  کتیا کی بیٹھک کے پاس کیاری میں ڈنڈے  گاڑے ۔۔۔۔ اوپر اور چاروں سے  طرف  سے کمبل باندھ کر  کتیا کے بچوں کو سردی سے  بچانے کا بندو بست کیا ۔۔۔۔
لیکن آج  میرے پڑوسی نے کتیا کا وہ گھر   ڈھا دیا اور اس  کی ممتا سے اسکے  دودھ پیتے پلوں کو دور کردیا ۔۔۔ پتہ چلا کہ  بڑی داڑھی والا   میرا  پڑوسی  محلے  کی مسجد کا ٹرسٹی ہے ۔۔ محلے میں اسکی کسی سے نہیں  بنتی ۔۔۔۔ تین شادیاں کر چکا ہے  لیکن  اولاد سے محروم ہے ۔۔۔۔۔۔ اور مجھے سمجھ میں  آگیا کہ اللہ   رحم سے خالی دل والوں کو اولاد   کیوں نہیں دیتا ۔۔۔۔
میں  نے  اپنی لائبریری سے  حضرت واصف علی واصف  مرحوم کی کتاب ۔۔ دل ۔۔دریا ۔۔سمندر  ۔۔ نکالی  اور  ایک اقتباس پرھ کر بچی کو سنایا کہ " جب تمہاری ذات  ، انسانوں ، جانوروں اور تمام مخلوقات خدا کیلئے  بے ضرر  بن جائے تو یہ  تمہاری  عبادت  کی ابتدا ہے ۔۔۔۔۔ جب تمہاری    ذات  مخلوقات خدا کیلئے سراسر نفع ہی نفع بن جائے تو یہ تمہاری عبادت  کی انتہا ہے"
اور  میری بچی  پوچھنے لگی  بابا ۔۔۔۔ اس لحاط   سے  بڑی داڑھی والا   ۔۔۔محلے کی مسجد کا ٹرسٹی کہاں کھڑا ہے ؟ ۔۔ اور میری آنکھوں سے  آنسوں کی جھڑی   لگ گئی ۔۔۔۔۔۔ میرے پاس ننھی  عشا کے سوال کا  کوئی جواب نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment