Wednesday 25 April 2018

بدین سے زرداری کیلئے ٹیلیفون ۔۔۔۔۔


بدین سے   زرداری کیلئے   ٹیلیفون ۔۔۔۔۔



کل  رات  بدین سے ایک کال موصول ہوئی ۔۔۔ کال کرنے والا رو رہا تھا ، اور اسکی ہچکی بندھی تھی ۔۔۔ کہنے  لگا بڑے ظالم ہو آپ لوگ ۔۔۔۔  یہ سن کر مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی ۔ خوف  میرے اندر اترنے لگا ۔۔۔کہ یا خدا خیر  مجھ سے کیا ظلم  ہو گیا ۔۔۔۔ اسکی کچھ ہمت بندھائی  تو اسکی ہچکیاں  ماند پڑیں  کہنے لگا ۔۔ آپ میڈیا والے بہت ظالم ہو ۔۔۔۔ میں نے کہا تفصیل سے  اور کھل کے بتاو کیا بات ہے  ۔۔۔ کہنے لگا   سائیں بات یہ ہے  ۔۔۔۔ ہم لوگ  پانی کیلئے ترس رہے ہیں ۔۔۔ ہمارے ہاں  پینے کا پانی بھی نہری نظام سے آتا ہے ۔۔ لیکن حکومت نے  دسمبر سے ہمارا پانی بند کیا ہوا ہے اور اب اپریل بھی  ختم ہو رہا  ہے شدید  گرمی  میں  ہم غریب لوگ  پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں ۔۔۔ اور حالت یہ  ہے کو اب تو جانور بھی مر رہے ہیں ۔۔۔پیاس  کی شدت سے انکی آنکھوں   سے بھی اب آنسوں بہتے رہتے ہیں ۔۔۔  کہنے لگا   ہم نے  جانور بیچ کے نلکے لگائے  ، کنویں کھودے  ۔۔۔ اسکے علاوہ ہم غریب لوگ اور کیا کر سکتے ہیں ۔ لیکن    زیر زمین  پانی کی سطح   کم ہونے  سے    کنویں بھی سوکھ چکے ۔۔۔نلکوں نے بھی پانی دینا بند کر دیا ہے ۔۔۔۔۔

میں نے  کہا  بابا  اس میں ہمارا کیا قصور ہے ۔۔۔۔ ہم کیسے ظالم ہو گئے  ۔۔کہنے لگے  بیٹا   آپ لوگ   بڑے بڑے  میڈیا چینلز میں کام کرتے ہو ۔ اسمبلیوں  اور وزیروں تک آپ کی رسائی ہے ۔۔۔ لیکن آپ لوگ بھی ہمیں مرتا دیکھ کر کوئی آواز نہیں اٹھا رہے ۔۔۔ ہمیں تو ٹی وی پہ ایسے لگتا ہے کہ  اس قوم کے سارے  مسئلے ختم ہو چکے ہیں صرف سیاستدانوں  کی بیان بازی   جاری  رہتی ہے ۔۔۔۔ خدا کے بندو   ۔۔ میڈیا والو  ۔۔ لوگ مر رہے ہیں ۔۔۔ ہمارے مویشی  ہلاک ہو رہے ہیں ۔۔۔۔ ہماری کچھ تو داد رسی کرو ۔۔۔۔۔ میں نے  پوچھا   ،، چاچا یہ بتاو    پانی گیا۔۔ کہاں     ؟ جو آپ کو نہیں مل رہا ۔۔۔۔ کہنے لگا  بیٹا  ہم سے کیا پوچھتے  ہو ۔۔ آپ میڈیا  والوں کو تو سب پتہ  ہوتا ہے ۔۔۔۔ میں  نے اصرار  کیا تو کہنے لگا ۔۔۔۔۔ بیٹا    زرداری نے میر پورخاص  میں ھزاروں ایکڑزرعی  زمینیں لی ہیں ۔۔۔۔جن کو غلام قادر چانڈیو سنبھالتا  ہے ۔۔۔ 25 ھزار ایکڑپہ تو صرف آموں کے باغ  ہیں  اس کے  ۔  لگتا  ہے سندھ کی ساری زمینیں  وہ خرید لے گا ۔۔۔حیدرآباد سے   میر پور خاس   تک ایک الگ خصوصی  نہر نکال کر     بدین کا سارا پانی وہاں دے دیا گیا ہے ۔۔۔۔  باقی جو تھوڑا  بہت پانی تھا ۔۔۔ وہ مظفر ٹپی نے   ٹھٹہ  میں جو زمینیں  قبضہ  کی ہیں  ان کو سیراب کرنے کیلئے  ادھر دے دیا ہے ۔۔۔ اور جو بچا۔۔۔ وہ سنا   ہے  کوئی ملک ریاض ہے  کراچی میں  ۔۔۔کوئی بہت   بڑے ھزاروں بنگلے بنا  رہا ہے   اسکو دے دیا ہے ۔۔۔۔۔۔ بیٹااس طرح   بدین کا سارا پانی   کہیں اور دے دیا ہے   ظالموں  نے اور ہم لوگ   پیاس سے مر رہے ہیں ۔۔۔ لیکن آپ لوگوں کو ہم پہ رحم نہیں آتا   کوئی ہماری آواز نہیں  اٹھاتا ۔۔۔ بڑے ظالم ہو آپ لوگ   میڈیا  والے بھی ۔۔۔۔ میں نے اس بابا  سے وعدہ کیا کہ  میں آپ کی آواز  اوپر تک پہنچاوں گا ۔۔۔۔۔ کہنے لگا   بیٹا   تم لوگ تو  وزیروں سے ملتے ہو ۔۔ اور زرداری سے بھی ملتے ہوگے ۔۔۔ اسکو کہہ دو کہ۔۔۔   یار   بدین کو تھر   مت بناو ۔۔۔۔۔ کھا  لو ۔۔کھا لو  پورا سندھ کھالو ۔۔۔اپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا ۔۔لیکن ہمیں پانی تو دو ۔ ہمیں    ترقی   نہیں  چاہئیے ۔۔۔ ہمیں کچھ نہیں چاہئیے ۔۔۔۔لیکن جو پانی ہمیں ملتا تھا  وہ تو نہ چھینو ہم سے ۔۔۔ ہمیں صرف  پانی دے  دو ۔۔۔۔ اور بیٹا  سنا ہے وہ جو بڑا  جج ہے وہ آج کل  بڑے دورے کر رہا ہے  ۔۔ غریبوں  کا درد ہے اس کو ۔۔۔۔ اسکو کہنا  کہ ایک دورہ بدین کے گاوں دیہاتوں  کا بھی کر لے ۔۔ لیکن  اسکو کہنا کہ  وہ جو  بوتل والا پانی ہوتا ہے  نا۔۔ کیا کہتے ہو آپ اس کو ۔۔منرل واٹر ۔۔۔ اس کی  بوتل ساتھ نہ  لائے  اور اپریل کی گرمیوں میں  کنویں  میں اترکے پانی پی کے دیکھے ۔۔۔ تو شاید   ہمارا حال   سمجھ میں آ جائے ۔۔۔۔ میں نے بابا  سے وعدہ کیا    کہ اپ کی دونوں  باتیں پہچادوں  گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   

Monday 16 April 2018

بندو ق ، ہتھوڑا۔۔ اور قلم


بندو ق ، ہتھوڑا۔۔  اور قلم


بابا  رحمتے نے  آخر   وہ کام کر دکھایا ، جس کی امید ان  کی  پھرتیوں سے لگائی جا رہی تھی ۔  سیاستدانوں  کے سر پر اپنا وہ ہتھوڑا برسا ہی دیا ۔۔ لیکن بابے رحمتے کو  یاد رکھنا چاہئیے   کہ طاقت  اور قوت کے بل بوتے پر ذیادہ عرصے عوامی آراء کو  دبایا  نہیں جا سکتا ۔۔ وہ طاقت   چاہے بندوق کی ہو  یا ہتھوڑے کی ۔  سیاسی  رہنماوں  کے بیانات پر لگائی گئی پابندی ، کو عدالتی مارشل لا کے علاوہ  اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ وردی اب با با رحمتے کی پھرتی میں چھپ گئی ہے  اور بندوق کی بجائے اب کی بار وار ہتھوڑے سے کیا گیا ہے ۔ اس فیصلے نے نواز شریف کے ا س بیانیے  کو تقویت دی ہے جسے وہ کہہ کے بھی نہیں کہہ پا رہے تھے ۔۔۔۔ ایک طرف سیاستدانوں  اور دوسری طرف  میڈیا کا بھی گلا گھونٹ کر آنے والے الیکشن  کیلئے ایک ایسی بساط بچھائی جا رہی ہے ۔ جس میں    پچ پر صرف عمران خان ہو  اور اور سارا کھیل بھی ایمپائر کی مرضی سے کھیلا جائے ۔۔ بیٹنگ اور فیلڈنگ کرنے والے دونوں  ایمپائر کی مرضی پر چلیں ۔۔۔ اور تماشائی بھی صرف  وہ ہوں  جو وردی اتار کر سادہ لباس میں   کراوڈ   کا منظر پیش کر سکیں ۔۔۔ لیکن اس سارے کھیل میں  ایک ایسے نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جا رہی ہے ۔ جسکے لئے  پرانے پاکستان کی جمہوری عمارت  کی بنیادیں   کھودی  جا رہی ہیں ۔
اور اگر جمہوریت کی یہ عمارت ہتھوڑے  مار کر پٹھان کی طرح گرائی جائے گی ۔۔۔تو نقصان  سب کا ہوگا ۔۔ان کا بھی جو ابھی صرف  تماشائی ہیں ۔۔۔ اور  ہتھوڑے  کی ہر ضرب پر تالیاں بجانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔  بندوق  برداروں اور  ہتھوڑا گروپ کو معلوم ہونا چاہئیے کہ اس سارے کھیل کے نتیجے میں بد اعتمادی ، کی وہ فضا پیدا ہوگی کہ پھر لوگوں  کو آنکھوں دیکھے پر بھی یقین  نہیں آئے گا ۔۔۔  قومی اداروں سے اعتماد اٹھ جانا  کسی قوم پر تباہی لانے  کیلئے  ایندھن کا کام دیتا ہے ۔۔۔۔ اور دشمن یہی تو چاہتا ہے کہ قوم کا اپنے اداروں سے اعتماد ہی اٹھ جائے ۔۔۔ اور نا سمجھی میں    پردے کے پیچھے اس کھیل کو اسٹیج کرنے والے رہبران ملت  یہ خدمت  تندہی سے سر انجام دے رہے ہیں ۔
شنید  ہے کہ اس ساری بساط پر کھیلنے کیلئے  سب سے بڑے میڈیا گروپ کو پہلے جھکایا گیا ۔ پورے ملک میں اس کی نشریات بند کی گئیں ۔۔ اور اسے مالی طور پر کمزور کرکے اس کی  گردن مروڑی گئی ۔۔ اور اب ۔۔۔ اسے صرف اتنا کہا گیا ہے کہ  آپ  چاہے بارگاہ عالی  میں سجدہ نہ کرو ۔۔۔۔پر رکوع میں چلے جاو ۔۔۔۔ باقی پورا میڈیا  سجدے میں خو دہی چلا جائے گا ۔۔۔ اور نتیجتا   کھیل کا میدان ایمپائر کی  مرضی کا ۔۔ کھلاڑی بھی ایمپائر کی مرضی کے ۔۔پچ بھی انکی اور بیٹنگ اور وکٹ پہ بھی انکے اپنے  بلے باز اور کھلاڑی ہوں تو نتیجہ انکی مرضی کا آئے گا ۔۔۔
لیکن میرے جیسا سر پھرا صحافی کیا کرے  کہ جسکا  اوڑھنا بچھونا  ہی صرف  قلم ہے ۔۔ جسے نہ تو خریدا  جا سکتا ہے  نہ توڑا  جا سکتا ہے ۔۔۔  میرے خیال میں قلم  برداروں کو بھی اپنی صفیں   درست کرنے کا یہی موقع ہے ۔۔۔  کہ قوم کو پردے کے پیچھے  ہونے والی سرگرمیوں سے آگاہ کیا  جائے ۔۔۔ بابے رحمتے کے عدالتی مارشل لا   کے بعد   میڈیا کو  تمام سیاسی  جماعتوں  کے رہنماوں  کے  بیانات  کا  بائیکاٹ کر دینا چاہئیے ۔ انکا بھی  جنہیں  اننگز کھیلنے کیلئے   کھلا میدان  مہیا  کیا جا رہا ہے ۔۔۔ اور ساری اسٹوریز کو اب   بیان بازی کے بجائے  قوم کے حقیقی  مسائل  اور گاوں   دیہات میں  رہنے والے  عام آدمی  کی طرف   موڑ دینا چاہئیے ۔۔ اور  میرا خیال ہے  ۔۔ کیمرہ اور مائیک  ان عدالتی دروازوں تک پہنچنا چاہئیے   جہاں روز ھزاروں سائلین   کے انبوہ فریا دلے کر آتے ہیں ۔۔  اور دہائیاں دے کر  خالی ہاتھ  واپس جاتے ہیں ۔۔۔ جہاں واپسی پر ان کی جیب ہلکی ۔۔ اور  ھاتھوں  پر انصاف نہیں صرف ہتھوڑے  کی چوٹیں ہوتی ہیں ۔۔۔۔ اور آخری کام  بابے  رحمتے  کی پھرتیوں   والی   خبروں  کا بھی  بلیک آوٹ  کرنا چاہئیے ۔ اور بندوق کے بعد  ہتھوڑا  ڈاکٹرائن کا  قلم  اور مائیک سے  مقابلہ کرنا  چاہئیے ۔۔۔۔۔۔