Monday 16 April 2018

بندو ق ، ہتھوڑا۔۔ اور قلم


بندو ق ، ہتھوڑا۔۔  اور قلم


بابا  رحمتے نے  آخر   وہ کام کر دکھایا ، جس کی امید ان  کی  پھرتیوں سے لگائی جا رہی تھی ۔  سیاستدانوں  کے سر پر اپنا وہ ہتھوڑا برسا ہی دیا ۔۔ لیکن بابے رحمتے کو  یاد رکھنا چاہئیے   کہ طاقت  اور قوت کے بل بوتے پر ذیادہ عرصے عوامی آراء کو  دبایا  نہیں جا سکتا ۔۔ وہ طاقت   چاہے بندوق کی ہو  یا ہتھوڑے کی ۔  سیاسی  رہنماوں  کے بیانات پر لگائی گئی پابندی ، کو عدالتی مارشل لا کے علاوہ  اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ وردی اب با با رحمتے کی پھرتی میں چھپ گئی ہے  اور بندوق کی بجائے اب کی بار وار ہتھوڑے سے کیا گیا ہے ۔ اس فیصلے نے نواز شریف کے ا س بیانیے  کو تقویت دی ہے جسے وہ کہہ کے بھی نہیں کہہ پا رہے تھے ۔۔۔۔ ایک طرف سیاستدانوں  اور دوسری طرف  میڈیا کا بھی گلا گھونٹ کر آنے والے الیکشن  کیلئے ایک ایسی بساط بچھائی جا رہی ہے ۔ جس میں    پچ پر صرف عمران خان ہو  اور اور سارا کھیل بھی ایمپائر کی مرضی سے کھیلا جائے ۔۔ بیٹنگ اور فیلڈنگ کرنے والے دونوں  ایمپائر کی مرضی پر چلیں ۔۔۔ اور تماشائی بھی صرف  وہ ہوں  جو وردی اتار کر سادہ لباس میں   کراوڈ   کا منظر پیش کر سکیں ۔۔۔ لیکن اس سارے کھیل میں  ایک ایسے نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جا رہی ہے ۔ جسکے لئے  پرانے پاکستان کی جمہوری عمارت  کی بنیادیں   کھودی  جا رہی ہیں ۔
اور اگر جمہوریت کی یہ عمارت ہتھوڑے  مار کر پٹھان کی طرح گرائی جائے گی ۔۔۔تو نقصان  سب کا ہوگا ۔۔ان کا بھی جو ابھی صرف  تماشائی ہیں ۔۔۔ اور  ہتھوڑے  کی ہر ضرب پر تالیاں بجانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔  بندوق  برداروں اور  ہتھوڑا گروپ کو معلوم ہونا چاہئیے کہ اس سارے کھیل کے نتیجے میں بد اعتمادی ، کی وہ فضا پیدا ہوگی کہ پھر لوگوں  کو آنکھوں دیکھے پر بھی یقین  نہیں آئے گا ۔۔۔  قومی اداروں سے اعتماد اٹھ جانا  کسی قوم پر تباہی لانے  کیلئے  ایندھن کا کام دیتا ہے ۔۔۔۔ اور دشمن یہی تو چاہتا ہے کہ قوم کا اپنے اداروں سے اعتماد ہی اٹھ جائے ۔۔۔ اور نا سمجھی میں    پردے کے پیچھے اس کھیل کو اسٹیج کرنے والے رہبران ملت  یہ خدمت  تندہی سے سر انجام دے رہے ہیں ۔
شنید  ہے کہ اس ساری بساط پر کھیلنے کیلئے  سب سے بڑے میڈیا گروپ کو پہلے جھکایا گیا ۔ پورے ملک میں اس کی نشریات بند کی گئیں ۔۔ اور اسے مالی طور پر کمزور کرکے اس کی  گردن مروڑی گئی ۔۔ اور اب ۔۔۔ اسے صرف اتنا کہا گیا ہے کہ  آپ  چاہے بارگاہ عالی  میں سجدہ نہ کرو ۔۔۔۔پر رکوع میں چلے جاو ۔۔۔۔ باقی پورا میڈیا  سجدے میں خو دہی چلا جائے گا ۔۔۔ اور نتیجتا   کھیل کا میدان ایمپائر کی  مرضی کا ۔۔ کھلاڑی بھی ایمپائر کی مرضی کے ۔۔پچ بھی انکی اور بیٹنگ اور وکٹ پہ بھی انکے اپنے  بلے باز اور کھلاڑی ہوں تو نتیجہ انکی مرضی کا آئے گا ۔۔۔
لیکن میرے جیسا سر پھرا صحافی کیا کرے  کہ جسکا  اوڑھنا بچھونا  ہی صرف  قلم ہے ۔۔ جسے نہ تو خریدا  جا سکتا ہے  نہ توڑا  جا سکتا ہے ۔۔۔  میرے خیال میں قلم  برداروں کو بھی اپنی صفیں   درست کرنے کا یہی موقع ہے ۔۔۔  کہ قوم کو پردے کے پیچھے  ہونے والی سرگرمیوں سے آگاہ کیا  جائے ۔۔۔ بابے رحمتے کے عدالتی مارشل لا   کے بعد   میڈیا کو  تمام سیاسی  جماعتوں  کے رہنماوں  کے  بیانات  کا  بائیکاٹ کر دینا چاہئیے ۔ انکا بھی  جنہیں  اننگز کھیلنے کیلئے   کھلا میدان  مہیا  کیا جا رہا ہے ۔۔۔ اور ساری اسٹوریز کو اب   بیان بازی کے بجائے  قوم کے حقیقی  مسائل  اور گاوں   دیہات میں  رہنے والے  عام آدمی  کی طرف   موڑ دینا چاہئیے ۔۔ اور  میرا خیال ہے  ۔۔ کیمرہ اور مائیک  ان عدالتی دروازوں تک پہنچنا چاہئیے   جہاں روز ھزاروں سائلین   کے انبوہ فریا دلے کر آتے ہیں ۔۔  اور دہائیاں دے کر  خالی ہاتھ  واپس جاتے ہیں ۔۔۔ جہاں واپسی پر ان کی جیب ہلکی ۔۔ اور  ھاتھوں  پر انصاف نہیں صرف ہتھوڑے  کی چوٹیں ہوتی ہیں ۔۔۔۔ اور آخری کام  بابے  رحمتے  کی پھرتیوں   والی   خبروں  کا بھی  بلیک آوٹ  کرنا چاہئیے ۔ اور بندوق کے بعد  ہتھوڑا  ڈاکٹرائن کا  قلم  اور مائیک سے  مقابلہ کرنا  چاہئیے ۔۔۔۔۔۔ 


No comments:

Post a Comment