Monday 30 May 2016

پچاس ارب کے پانی چور


اس سے میری ملاقات   ایک اتوار بازار  میں ہوئی ، وہ  ھفتہ وار بچت بازاروں میں  مصنوعی   جیولری کا ٹھیلہ لگاتا تھا ، بچوں کیلئے چھوٹی موٹی جیولری خریدتے ہوئے    میں اس سے بھاو تاو کرنے لگا ، میرے کم قیمت لگانے پر وہ روہانسا ہو گیا اور کہنے لگا  کہ صاحب اتنے میں تو خرید بھی نہیں ۔۔۔۔۔ہمیں بھی بچوں کا پیٹ پالنے دو ۔۔۔۔۔ ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے ایک آنسو چھلک پڑا ۔۔۔۔ کہنے لگا صاحب  ہم بھی  مجبور  ہیں جب ہی   اس گرمی میں  یہ پسینہ   برداشت کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اس سے ہمدردی محسوس ہوئی اور  میں  وہیں ایک اسٹول پر اس کے قریب بیٹھ گیا  اور اس سے باتیں  کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بتایا کہ کہ  وہ   نارتھ کراچی میں  پانچ ھزار روپے کے کرائے کے مکان میں رہتا ہے  ،  اس گرمی میں  سارا سارا دن لائٹ  نہیں ہوتی ،  اور علاقے میں  پانی بھی نہیں آتا ، ہم بورنگ کا کھارا پانی استعمال کرتے ہیں ، کہ میٹھا پانی  خریدنے کی ہم میں سکت نہیں۔۔۔۔۔۔ ۔  گرمی میں کھارے پانی سے نہانے سے میرے چار بچوں کے جسم پہ دانے نکل  آئے  ہیں ۔۔۔۔۔۔  میں قریب ہی ایک کلینک میں  جلد کے ایک ڈاکٹر کے پاس انہیں روز انہ رات میں لے جاتا ہوں۔۔۔۔۔ وہ ایک بچے کی    دوائی کے روزانہ 100 روپے  لیتا ہے ۔ روز کی دیہاڑی کرنے والے مزدور کے 400 روپے روز   دوائی پہ خرچ ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔  یہ حکمراں ہمیں  میٹھا پانی دے دیں  تو ہماری بیماریوں سے جان  چھوٹے ۔۔۔۔۔، اور یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  میں نے اسے تسلی دی  اور اسی کی  بتائی ہوئی  قیمت پر  بچوں کی جیولری خریدلی  اور چل پڑا ،  شاید  میں اسے تسلی کے دو بول ہی دے سکتا  تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ راستے میں    میرے صحافتی  پیشے  نے مجھے سوچنے پہ مجبور کیا کہ یہ سارا پانی اگر غریب بستیوں میں  نہیں پہنچتا تو کہا ں جاتا ہے ، اور میں  اسی تحقیق  میں  کئی ھفتے لگا رہا ۔۔۔۔۔۔ کراچی  کے پانی پہ  تحقیق  کرنے والے کئی دفاتر کے چکر لگائے اور مواد اکھٹا  کرتا رہا  ۔۔ ۔  اس    موضوع  پر کام کرتے ہوئے  مجھ پہ آٓشکار ہوا  کہ کراچی میں سالانہ  50 ارب روپے  کا پانی چوری کرکے بیچا جاتا ہے ۔۔۔۔۔  اور ایک مضبوط مافیا ہے جو  یہ پانی چوری کرتی ہے ،  اور کئی ھزار لوگ اس دھندے سے وابستہ ہیں ۔ اور  ساقی کے کام پر  ما مور  سرکاری ا داروں کے افسران انکے  پشت پناہ اور  اس کمائی مین حصہ  دار  ہیں ۔
آئیے  آپ بھئی  دیکھئے کہ کراچی میں  سالانہ 50 ارب روپے  کا پانی کس طرح  چوری کرکے بیچا جاتا ہے ۔
ایک کروڑ  60 لاکھ آبادی کے شہر میں   ماہ مئی سے لیکر اکتوبر تک   پانی کی کمائی کا سیزن ہوتا ہے ، اور اس کاروبار سے وابستہ   افراد اور مافیا   پیسوں میں  نہاتی ہے ۔   اس وقت  کراچی شہر کو  پانی فراہم کرنے کے  دو اہم زرائع ہیں جس میں سے  ایک     دریائے سندھ ہے  ۔  جہاں کوٹری بیراج سے      ایک    نہر کے زریعے  1200 کیوسک پانی( یعنی  645  ملین گیلن )   ٹھٹہ سے  30 کلومیٹر دور  کینجھر جھیل اور  وہاں سے دو کینال کے زریعے   کراچی کو پمپ کیا جاتا ہے ۔   کراچی کیلئے پانی  کا دوسرا  اہم زریعہ  حب ڈیم ہے ۔ حب ڈیم  کا  دارومدار چونکہ  با رانی  پانی پر ہوتا ہے لہذا   اس ڈیم سے  کراچی کو پانی کی سپلائی    کم زیادہ ہوتی  رہتی ہے ۔ ڈیم میں  زیادہ پانی ہونے کی صورت میں 75 ملین گیلن روزانہ جب کہ   کمی کے دنوں میں 30 ملین گیلن پانی سپلائی کیا جاتا ہے ۔ جبکہ  اوسطا   یہ ترسیل 50 ملین گیلن رہتی ہے ۔

شہر کراچی کے لئے مقرر کردہ   پانی کی کل ترسیل  695 ملین گیلن ہے   ۔ جس میں سے  30 ملین گیلن پانی پاکستان اسٹیل اور  اور پورٹ قاسم کو دیا جاتا ہے ۔ اس طرح  شہر  کیلئے 665  ملین گیلن پانی بچتا ہے ۔  اسکی  تقسیم کیسے ہوتی ہے ، اور پانی کہاں جاتا ہے ، کتنا حقیقی طور پر  سپلائی کیا تا ہے اور کتنا  بیچا جاتاہے ، انہی سوالوں کے جوابات  کی کھوج نے ہوش ربا انکشافات  کئے ہیں ۔  

ایک تحقیق  کے مطابق  کراچی کے وہ علاقے  جہاں  ھمیشہ پانی کا بحران رہتا ہے  کم آمدنی اور  اور متوسط  آمدن کے رہائشی علاقے ہیں ۔  جن میں نیو کراچی  ، بلیہ ٹاون ، لانڈھی ، گڈاپ۔   اورنگی ٹاون،  کچی آبادیاں ، گوٹھ  اور  چھوٹی  چھوٹی کالونیاں  ہیں ۔   تحقیق کے مطابق   ان تمام چھوٹی  بستیوں ، کچی آبادیوں اور گوٹھوں  میں  80 فیصد  پائپ لائنیں  موجود ہیں ۔  لیکن انہیں ان پائپ لائنوں  سے پانی فراہم نہیں کیا جاتا ۔ بلکہ  یہ کم  آ مدنی اور متوسظ  آمدنی کے  لوگ ٹینکرز کے زریعے  پانی خریدنے پہ مجبور ہیں  ۔ نظام کی ستم ظریفی یہ ہے کہ   جو ذیادہ  آمدنی والے علاقے ہیں  جو پانی خرید سکنے کی سکت رکھتے ہیں  وہاں سپلائی معمول پہ رہتی ہے اور جس غریب کی پہنچ سے  پانی خریدنا باہر ہے وہی خریدنے پہ مجبور ہے ۔
یہاں ایک عام قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ان ساری آبادیوں میں  ٹینکرز کے زریعے  پانی  بیچا جاتا ہے ، اسکا مطلب ہے  کہ  پانی  موجود تو  ہےلیکن    پھر اسے پائپ لائنوں  کے زریعے فراہم کیوں  نہیں کیا جاتا ؟
 اسی سوال کے جواب  کی تلاش میں یہ  بڑا اسکینڈل  ابھر کے سامنے آیا ۔
اس وقت  پانی  کی کمی والے علاقوں میں   کراچی واٹر ایند سیوریج بورڈ  (کے  ، ڈبلیو ، ایس ، بی)   کے  تحت  کام کرنے والے  9   سرکاری  ( آفیشلی )  ھائیڈرنٹس کے زریعے پانی فراہم کیا جا رہا ہے ۔  واٹر بورڈ کے مطابق  ان ھائیڈرنٹس  سے   روزانہ  13.75 ملین  گیلن پانی  واٹر ٹینکرز کے  13 ھزار 750  چکر وں سے شہریوں کو فراہم کیا جاتا ہے  ۔ جبکہ تحقیق کے مطابق   اصل حقیقت یہ ہے کہ ان ھائیڈرنٹس   سے 25  ملین گیلن پانی    روزانہ 8377 ٹینکرز کے پھیروں کے زریعے بیچا  جاتا ہے ۔

سرکاری اعداو شمار کے مطابق  یہ پانی  شہریوں  کو  15 سے 25  پیسے فی گیلن کے حساب سے مہیا کیا جاتا ہے ۔ جو فاصلے  کی  بنیاد پر ہے ۔ جبکہ رہاشی  اور کمرشل بنیادوں پر  بھی پانی کے ریٹ الگ الگ ہیں ۔
اس حساب سے کراچی میں ٹینکرز کے زریعے   بیچے  جانے والے پانی کے  ریٹ کچھ اس طرح ہیں ۔
1000  گیلن  والا ٹینکر     150 سے  250  روپے   میں
2000 گیلن  والا ٹینکر  300 سے 450  روپے میں
3000 گیلن  والا  ٹینکر  450 سے  800 روپے میں
5000 گیلن والا  ٹینکر  1200 روپے میں   پیچا جاتا ہے ۔ یہ سب سرکاری ریٹ  ہیں ۔    لیکن زمینی حقائق  یہ ہیں کہ پانی کے ریٹ  ڈبل سے بھی ذیادہ ہیں ۔ اس طرح کراچی کے شہریوں کو یہ پانی  35  سے  60 پیسے  فی گیلن کے حساب سے  فروخت کیا جاتا ہے ،  جو فاصلے  ،  بارگیننگ  اور سیزن کے حساب سے گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں ۔  کراچی میں اس وقت  1000 ھزار سے  7000 گیلن   پانے  لے جانے   کے حامل واٹر ٹینکر   چلتے ہیں ، جبکہ کچھ واٹر  ٹینکر ز کی  گنجائش   10 ھزار  گیلن کی بھی ہے ۔    اس طرح سرکاری طور  پر  ھزار  گیلن پانی   44 روپے  یعنی  4.4  پیسہ فی گیلن  رہائشی مقاصد  کے لئے وصول کئے جاتے ہیں ۔ جبکہ  73 روپے  یعنی  7.3 پیسے  کمرشل بنیادوں پر بیچے جاتے ہیں  ۔

لیکن یہ ساری کہانی  تو سرکاری ھائیدرنٹس کی ہے  ۔ اصل کہانی اور تصویر کا دوسرا رخ کچھ اور ہے اور وہ بڑا ہی بھیانک ہے ۔
ان سرکاری  ھائیڈرنٹس   کے علاوہ  161 ایسے ھائیڈرنٹس  ہیں ، جن سے اس اسکینڈل کی اصل کہانی جڑی ہے ۔  یہ ھائیڈرنٹس شہر کو پانی   سپلائی کرنے والی  ان مین بلک لائنوں   کو توڑ کر یا ان سے کنکشن لیکر قائم کئے گئے ہیں۔  شہر بھر میں ایسے چھ رو ٹس ہیں جہاں یہ ھائیڈرنٹس قائم  ہیں ۔
1۔  حب ریزروائر سے بنارس  چوک تک  ، منگھو پیر روڈ  کے ساتھ ساتھ
2۔  بنارس چوک سے  لیاری کے گٹر باغیچہ  تک ۔
3۔  میوہ  شاہ قبرستان سے   لیاری ندی کے ساتھ ساتھ  شیر شاہ تک 
4۔  نارتھ کراچی میں  صبا سینما اور ایوب گوٹھ    کے پاس  سے   گڈاپ ٹاون تک    
5۔  ملیر مین نیشل ھائی  وے کے ساتھ ساتھ ، جہاں جہاں سے یہ بلک لائنیں  گذرتی ہیں
6۔  قائد آباد اور لانڈھی  کے  مختلف  علاقوں میں جہاں  بلک لائنیں  موجود ہیں ۔
اس طرح ان چھ مقامات  پر  کل 161    غیر قانونی ھائیٖڈرنٹس موجود ہیں ، جو پانی کی چوری  اور اس کی غیر قانونی   فروخت میں  ملوث ہیں ۔  ان ھائیڈرنٹس سے روزانہ  ٹینکرز کے  8288  پھیرے  لگتے ہیں ۔۔۔۔ انداز ا  ایک ٹینکر ایک دن میں  10 سے 12  چکر لگاتا ہے ۔  اس کام کے لئے  690 سے  829 ٹینکرز استعمال کئے جاتے  ہیں ۔ (  تحقیق  کی مختلف سورس  میں فرق کی وجہ سے) ۔
 تحقیق کے مطابق   ان غیر قانونی  ٹینکرز  کےلئے مین لائنوں کو توڑ کر یا کنکشن  لیکر جو   فلنگ پوائنٹ  بنائے گئے ہیں  وہ 4 سے 8 ڈائی میٹر کے ہوتے ہیں ۔ ۔ اس طرح ایک ھزار گیلن کا ایک واٹر ٹینکر 2 سے 3 منٹ  میں بھر جاتا ہے ۔ 2000  سے 3000گیلن کا واٹر ٹینکر بھرنے  میں  5 سے 10 منٹ   لگتے ہیں ۔  جبکہ 5000 گیلن والا واٹر ٹینکر 10 سے 15 منٹ میں بھر لیا  جاتا ہے ۔

 اب  اسی  کہانی کا ایک اور  رخ اور وہ ہے   صنعتی علاقوں میں پانی کی  ترسیل ۔
کراچی کے پانچ   صنعتی زونز کے لئے  واٹر بورڈ  کی جانب سے  پانی کا  مقررہ کوٹہ 46 ملین گیلن روزانہ ہے  جو  کچھ اس طرح ہے ۔
لانڈھی  انڈسٹریل ایریا ۔ 13  ملین گیلن  روزانہ
کورنگی انڈسٹریل ایریا ۔ 14 ملین گیلن  روزانہ
سائٹ  انڈسٹریل ایریا ۔ 10  ملین گیلن روزانہ
نارتھ کراچی  انڈسٹریل ایریا ۔5 ملین گیلن روزانہ
ایف بی انڈسٹریل ایریا ۔ 3  ملین گیلن روزانہ
لیکن  در حقیقت   ان تمام  اندسٹریل ایریاز  کی  اصل کھپت 100  سے 145 ملین گیلن روزانہ ہے ۔  اس طرح   ان صنعتی علاقوں کی 90 فیصد    پانی کی ضروریات   واٹر ٹینکرز کے زریعے پوری کی جاتی ہیں ۔  یعنی 90  سے 131 ملین گیلن پانی روزانہ واٹر ٹینکرز سے فراہم کیا جاتا ہے ۔  اور یہ پانی ان 161 غیر قانونی ھائیڈرنٹس  سے ہی فراہم کیا جاتا ہے ۔
اب ہم آتے ہیں  اس   اسکینڈل کے حوالے  سے  کراچی کی آبادی  میں پانی کی کھپت ۔۔۔۔  ترسیل  اور شارٹ  فال  کی طرف ۔
تحقیق کے مطابق کم آمدنی اور متوسط  آمدنی رکھنے والے رہائشی علاقوں میں  ایک فرد کیلئے  ایک دن کے پانی کی کم از کم ضرورت  20 گیلن ہے ۔  کراچی کی آبادی ایک کروڑ  60 لاکھ ہے ۔ اس لحاظ   سے  کم از کم کھپت 20 گیلن سے حساب لگایا جائے تو  کراچی کی روزانہ کی کھپت 320  ملین گیلن روزانہ ہے ۔  صنعتوں کی اوسط  کھپت 123 ملین گیلن روزانہ ۔ باقی متفرق ضروریات کیلئے 123  ملین گیلن روزانہ ہے ۔ اس طرح کراچی کی کل کھپت 553 ملین گیلن  بنتی ہے ۔
اور دوسری جانب اگر ذیادہ آمدن والی  آبادی کی کھپت میں  مزید 15 گیلن روزانہ  فی فرد   کا اضافہ کر کے  حساب لگایا   جائے  تو یہ ذیادہ آمدن والے  کراچی کی آبادی کا 20 فیصد  ہیں ۔   تو اس طرح کراچی کی پانی  کی مکمل ضروریات  601 ملین گیلن  روزانہ بنتی ہے۔

اب اس کہانی کو ایک اور پہلو سے   دیکھئے  ۔  کراچی  کے سابقہ تما م 18 ٹاونز کو بلک میں جو پانی فراہم کیا جاتا ہے ۔ وہ کل 293 ملین گیلن روزانہ ہے ۔  واٹر بورڈ کا نظام اب بھی انہی ٹاونز  کی سطح  پر تقسیم ہے ۔
 اس طرح   کھپت اور ترسیل میں 260  سے 308 ملین گیلن کا شارٹ  فال  موجود ہے ۔ اور یہی وہ شارٹ فال ہے جسے   161 غیر قانونی ھائیڈرنٹس سے پورا کیا جاتا ہے ۔
واٹر بورڈ کے زریعے  کراچی کو پانی کی  مجموعی   ترسیل 565.25  ملین گیلن روزانہ ہے جس میں سے 15 فیصد پانی پرانی لائنوں اور دوسری ٹیکنیکل وجوہات کی بنا پر  ضائع ہو جاتا ہے ۔  اب دستاب سپلائی اور حقیقی  سپلائی کا اوسطا  گیپ  272.25  ملین گیلن روزانہ ہے ۔ اور یہی وہ پانی ہے  جسے غیر قانونی ھائیڈرنٹس کے زریعے   شہر بھر میں بیچا جاتا ہے ۔ اور پانی اوپر بیان کردہ  او سط  قیمت کے حساب سے فروخت کیا جاتا ہے ۔     اس آپریشن سے  سالانہ شہر میں 49.6  ارب روپے کا پانی  چوری کرکے فروخت کیا جاتا ہے ۔

دوسری جانب    سرکاری طور پر  واٹر بورڈ اپنے 9  ھائیڈرنٹس  کے زریعے  20 ملین گیلن پانی  فراہم کرتا ہے ۔ اگر یہی اطلاق   ان 161 غیر قانونی   ھائیڈرنٹس پر کیا جائے تو پانی کا یہ کاروبار 358  ملین گیلن روزانہ بنتا ہے ۔ اس طرح زیادہ سے ذیادہ 25 ملین گیلن سرکاری ھائیڈرنٹس سے اور  333 ملین گیلن غیر قانونی  ھائیدرنٹس سے  کراچی کے شہریوں کو  فراہم کیا جاتا ہے ۔  اور یہ پانی  مافیا   شہریوں کی جیبوں سے سالانہ  50 ارب روپے نکال کر اپنی جیبوں میں ڈالتی ہے  ۔     اور  جس معاشرے میں پینے کے پانی کو بھی چوری اور ذخیرہ اندوزی  کے زریعے   غریبوں کو بیچا جاتا ہو وہاں تو  ابر رحمت بھی روٹھ جاتی ہے ۔ اور غریبوں کے جسم پر  گرمی  دانوں کے ساتھ ان کی قسمت پر غربت کے دانے بھی نکل آتے ہیں ۔ جو کبھی دوائیوں سے ختم نہیں  ہوتے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 





Monday 23 May 2016

ملا اختر منصور کی ہلاکت ۔۔۔۔ افغانستان میں پاکستانی مفادات کو خطرہ


  2013 میں     ریکوڈک    کے حوالےسے  میں  ایک تحقیقاتی  رپورٹ کے  سلسلے میں دالبدین کے ایئرپورٹ پر اترا ۔۔۔۔ میں  جیسے ہی   دالبندین ایئرپورٹ  سے  نکلنے لگا تو   دیکھا کہ چھوٹے سے شہر کی   گلیوں  کے ایک ایک کونے پر ایف سی کے جوان پہرہ دے رہے تھے ۔   پوچھنے پر معلوم ہوا کہ چونکہ اس ائرپورٹ  پر امریکیوں  کی نقل و حرکت ذیادہ ہے ۔ انکے طیارے یہاں دن رات  اترتے اور افغانستان کیلئے اڑان بھرتے  ہیں لہذا انکی سکیورٹی کیلئے   یہ نفری ضروری ہے ۔  اور پھر  دالبندین سے ریکوڈک اور  وہاں سے  تافتان بارڈر تک  کا سفر  انتہائی  اکیلے  پن کا سفر تھا  ، 300 کلومیٹر کی پوری سڑک پر  کہیں کہیں آپ کو کوئی گاڑی نظر  آئے گی ، یا کوئی بس یا کوچ  جسکی چھت پر ایران سے آنے والا سامان لدا ہوتا تھا نظر آتی تھی ۔واپسی  کے سفر  میں جب  میں دالبدین ایئرپورٹ پہنچا تو  ایئرپورٹ حکام نے میرے سامان میں موجود  ایک  بیٹری ٹارچ پہ اعتراض  کیا کہ آپ یہ  جہاز میں نہیں لے جاسکتے ، بیٹری سے کوئی دھماکہ ہو سکتا ہے ۔  لیکن وہیں میں نے    امریکیوں کو بھی  اسی جہاز مین سوار ہوتے دیکھا  جو  شاید وہاں   جاسوسی مشن پر تھے ، ۔۔۔۔ اور  وہ  ائرپورٹ سیکیورٹی کا عملہ جو ایک ٹارچ  کی بیٹری پہ مجھے روک رہا تھا ، امریکیوں کو بغیر  چیکنگ  کئے۔۔ جہاز پہ سوار کرا رہا تھا ، اور  یہی حال ایک بار میں نے سکھر ائر پورٹ پر بھی دیکھا ۔

خیر بات ہورہی تھی   تافتان بارڈر کی ۔۔۔ تافتان بارڈر    تک کا سفر  بہت یادگار  تھا ، کہ ایک طرف صحرا  میں لمبی کالی لکیر کی مانند  سرکتی  ہوئی سڑک  تھی   اور اس سڑک کی  دوسری جانب   تافتان تک جاتی انگریز کے  زمانے کی بچھائی ہوئی   ایک ریلوے لائن تھی ۔ اور اس سڑک پر سفر کرتے وہ منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔ کہ اگرچہ   اس ریلوے لائن پر ریل تو اب نہیں چلتی تھی  لیکن  ایک بوڑھا پاکستانی لائن مین  سخت گرمی میں   اس ریلوے لائن  کی مرمت کر رہا تھا ۔ ریلوے لائن پہ جہان جہاں ریت آگئی تھی وہ اسے ھٹا رہا تھا ۔  اور میں سوچنے لگا کہ اس صحرا  میں یہ بوڑھا کس ایمانداری  سے اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا ہے ۔ جہاں اسے پوچھنے  یا جواب طلبی  کرنے  والا کوئی اعلیٰ  افسر  نہیں ۔ 

خبروں کے مطابق    تافتان بارڈر سے  آنے والی اسی سڑک پر  احمد وال   ٹاون  کے قریب  طالبان   رہنما ملا اختر منصور  کو امریکہ  نے ایک   ڈرون حملے  کے زریعے  ہلاک کردیا  ۔  جو ا 21  مئی کو  ایران سے واپس آرہے تھے  ، اور وہ     ولی محمد  ولد شاہ محمد   کے فرضی نام سے سفر کر رہے تھے ۔ اور میں سوچنے لگا کہ امریکیوں کیلئے یہ ٹارگٹ کتنا آسان تھا کہ اس سڑک پر اکا دکا   گاڑیاں  کہیں نظر آتی ہیں ۔  اور  پھر سیٹلائٹ کے زریعے  اس اکیلی گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں  کو شناخت بھی کیا جساسکتا ہے ۔  اور  مخبری تو    اس امیگریشن نظام نے کر ہی دی ہوگی  جو مشرف کے زمانے میں  ہمارے ایئرپورٹس پر لگایا گیا  اور جو ڈائریکٹ  امریکی  انٹیلی جنس  ایجنسیوں  کی نگرانی میں کام کرتا ہے ۔ اور امیگریشن کرانے والے ہر شخص کا ریکارڈ امریکہ تک  جہاز اڑنے سے پہلے پہنچ جاتا ہے ۔  اور ویسے بھی  بلوچستان کے اس علاقے   میں برسوں  امریکہ  کے سیکیورٹی اہلکار  اپنی خدمات  انجام دیتے رہے ہیں ۔ اور اس عرصے  میں   انہیں کتنے ہی  ضمیر فروش بھی مل گئے ہونگے ۔  اور وہ  اب  بھی  انکی خدمات سے مستفید  ہوتے ہونگے ۔

پاکستان  اور چین کی اس وقت افغانستان میں  یہ حکمت عملی ہے کہ  کسی طرح     افغا نستان سے امریکہ کا مکمل انخلا   ہو جائے  تاکہ    خطے میں   چینی اور پاکستانی مفادات  کے حصول آگے بڑھا یا  جا سکے ۔  جس میں سر فہرست تاپی گیس  پائپ لائن  منصوبہ ہے جس کے  زریعے    ترکمانستان سے براستہ افغانستان   گیس کو پاکستان تک  پہنچایا جائے  گا ۔ جبکہ  دوسرا  بجلی کی ٹرانسمیشن لائن   بچھانے کا منصوبہ کاسا ہے (  سینٹرل  ایشیا  اینڈ ساوتھ ایشیا  الیکٹرسٹی ٹراسمیشن لائن )  جسکے زریعے پاکستان 1000 میگاواٹ  بجلی حاصل کریگا ۔ اور ظاہر ہے جب تک  افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا ۔ ان منصوبوں تک   رسائی   ناممکن رہے گی ۔ ۔ اور تیسری جانب افغانستان  سے بھارتی  اثرو  رسوخ کا خاتمہ   ہے ، کیونکہ افغانستان میں  بڑھتا  ہوا  بھارتی اثرو رسوخ نہ صرف پاک چین اقتصادی راہداری  کیلئے خطرہ ہے بلکہ   بلوچستان کی  سلامتی کیلئے بھی ایک بڑا چیلنج ہے
 دوسری جانب  امریکہ کی یہی کوشش ہے کہ اب افغانستان میں کسی  بھی طرح امن  قائم نہ ہو پائے ۔ ورنہ پاکستان  اور افغانستان کے زریعے  چین اس خطے میں  اپنے قدم مضبوطی سے  جما لے گا ، اور اپنے منصوبوں کو آگے بڑھائے گا ۔ اس مقصد  کیلئے  امریکہ کی  افغانستان میں موجودگی ضروری ہے اور  اسی  وجہ سے وہ طالبان کو مزاکرات سے دور  رکھنے کی کوشش کر ررہا ہے ۔

پاکستان  کی حکمت عملی  اس سلسلے میں دو جہتی  ہے ۔ ایک طرف  کابل حکومت  کو  طالبان  کے زریعے  بڑھتے ہوئے   حملوں  کے زریعے   دباو میں لینا  ہے  ، تاکہ وہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا  کی بات چیت شروع  کرے اور یہی طالبان کی  پہلی شرط ہے  کہ  افغانستان سے غیر ملکی افواج کا  مکمل  انخلا  ہو  ۔   دوسری جانب پاکستان نے حکمت یار  کو کابل حکومت کا حصہ بناکر اندرونی طور پر  حکومت کو  دباو میں لینا شروع کر دیا ہے  کہ افغانستان سے غیر ملکی  انخلا   کیلئے بات چیت شروع کی جائے ۔ اور حکمت یار نے اپنی کابل  آمد  کو بھی اسی وجہ سے موخر کیا ہے کہ  غیر ملکی افواج کے انخلا ٗ   کا کوئی ٹائم  ٹیبل  مل جائے تو   کابل   میں قدم رکھا جائے ۔  اس دو جہتی حکمت عملی  کا  یک نکاتی ایجنڈا    افغانستان سے مکمل امریکی انخلا ہے ۔ کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ  افغانستان میں امریکی موجودگی    خطے میں اور خصوصا  افغانستان میں بھارتی  موجودگی اور اس کے  اثرو رسوخ  کو بڑھا وا دے گی ۔

اس  دو رجہتی پاکستانی حکمت عملی کو ذہن میں رکھتے ہوئے  یہ  کہا جا سکتا ہے  کہ  ملا اختر منصور  کی ہلاکت خطے میں پاکستانی  مفادات کو ٹھیس  پہنچانے کا سبب  بنے گی  اور طالبان کو مذاکرات سے مزید دور لے جائے گی ۔ کہ ملا اختر منصور  بلاشبہ ایک فیلڈ کمانڈر تھے ، جو  نجیب ، روس  اور  پھر مابعد    روس  کے زمانے میں  پوری طرح    جنگوں میں برسر  پیکار رہے ۔  اور حال ہی میں   ملا عمر کی   ہلاکت کے بعد   کابل حکومت   پر حملوں  کے زریعے اپنا  دباو بڑھانے کی  کامیاب حکمت عملی   پر گامزن تھے ۔
 دوسری جانب   ملا اختر   منصور  کی  ہلاکت  سے ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں   کو  نئے سرے سے   اپنے  سیکیورٹی میکنزم کو جانچنے کی ضرورت ہے ۔   کہ ھمارے سسٹم  سے کس  طرح  امریکیوں کو معلوم ہوا  کہ   ملا اختر منصور  کوئٹہ میں ہے  اور وہ   ولی محمد کے کور   میں موجود ہے ۔  کیا  یہ انفارمیشن نادرا  کے سسٹم سے لیک ہوئی ہے  یا  ہمارے  امیگریشن سسٹم کی امریکہ کے ساتھ کولبریشن کی   مرہون منت ہے ۔   دوسری جانب   ان  خدشات سے بھی صرف  نظر نہیں  کا جا سکتا  کہ   کیا ایران سے ان کی واپسی   کی خبر  ایران یا وہاں موجود   بھارتی لابی کی مخبری کی  کارستانی ہے۔ بہر حال پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں کو ایک بار پھر  اپنے  سیکیورٹی قدامات اور اپنی حکمت عملی    کا  از سر نو جائزہ  لینے کی ضرورت ہے ۔ ۔


  

Thursday 19 May 2016

کراچی کی سماجی تبدیلی اورنئی منصوبہ سازی


جس دن ایک پاکستانی بس ڈرائیور  کا بیٹا صادق خان لندن کا میئر منتخب ہوا س  دن سے میں نے  اس بات پہ غور کیا کہ وہ کیا عوامل تھے  ، جن کی بنا پر گورے انگریز نے    غیر مقامی لوگوں  کو  اپنا نظام اپنانے اور اس  کی     حصہ داری   میں ان کو شامل کیا ۔  ؟  ان عوامل پر غور کرتے کرتے  میں نے لندن  اور کراچی کا تقابلی جائزہ بھی لیا جس سے آشکار ہوا کہ   کراچی کی بد امنی   کی علتوں کی صحیح  تشخیص کرکے  اس شہر کو پر امن کیا جاسکتا ہے ۔ اور یہ کام بغیر کسی آپریشن کے   بھی انجام دیا جا سکتا ہے ۔
کراچی   کو غریب پرور شہر کہا جاتا ہے ، اس نے ہر دور میں  یہاں قدم رکھنے والوں کو ماں کی ممتا دی ہے ، اور اسکی گود میں آنے والوں  نے  سماجی اور معاشی طور پر ترقی کی ہے ۔ اس ماں نے آج تک  اپنے کسی بچے کو بھوکا نہیں  رکھا ، ہر ایک کو  پیٹ بھرنے کو نوالہ مہیا کیا ۔۔۔ آج کے   مہنگے سماج میں بھی کراچی کا  شمار  دنیا  کے تین بڑے سستے شہروں میں  کیا جاتا ہے ، جہاں ایک مزدور بیس روپے میں  کھانا کھا سکتا ہے ۔   کراچی  کی ہمہ گیری ، اور اسکے تنوع  نے یہاں  بتدریج  مختلف   سماجی  تبدیلیوں کی راہ ہموار کی ہے ، جسکے باعث یہاں  کے مسائل   کی بھی مختلف جہتیں ہیں ۔ جنہیں نئی منصوبہ سازی سے  حل کیا جا سکتا ہے ۔
کراچی بنیادی طور پر  ایک معاشی حب ہے جہاں  صنعتی  ترقی نے روزگار  کے وسیع مواقع پیدا کئے ہیں ۔ جس کی بنا پر نہ صرف  اندرون سندھ بلکہ  اندرون  ملک سے بھی یہاں بڑے پیمانے پر ھجرت  کو فروغ  دیا ۔۔۔  اسی ھجرت نے    یہاں کے مسائل  میں اضافہ کیا  ہے ۔


یو  این ڈی پی  کی 2006 کی ھیومن ڈولپمنٹ  رپورٹ   کے مطابق   177 ممالک میں ھیومن ڈولپمنٹ  انڈکس میں پاکستان کا درجہ 134 واں ہے ۔  رپورٹ  کے مطابق 17 فیصد پاکستانیوں کی یومیہ  آمدنی  ایک امریکی  ڈالر  سے بھی کم ہے ۔ جبکہ  73.6 فیصد آبادی   کی آمدن  2 امریکی ڈالرز  سے نیچے  جبکہ  قومی غربت کی سطح  32.6 فیصد  ہے ۔  جبکہ غربت کی شرح  2002 سے مسلسل  7.8 فیصد  پر برقرار ہے ۔

کسی بھی معاشرے کیلئے  مندرجہ بالا  اعدادو شمار بڑے ہی خطرناک ہیں ۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی ا ٓبادی  13 کرورڑسے متجاوز ہے ۔ جس میں سے   70 لاکھ  لوگ    کچی آبادیوں میں بستے ہیں ۔  جبکہ ایگریکلچرل لینڈ پر بنائے گئے مکانات  میں ایک کروڑ  بیس لاکھ لوگ بستے ہیں ۔  اس کے علاوہ  بے ضابطہ تعمیر کردہ  مکانات  میں 34.5  ملین آبادی رہائش پذیر ہے ۔  جبکہ اندورن  سندھ   ذیادہ  گنجانیت کی حامل آبادیاں  غریب واڑوں میں بدل  دی گئیں  وہ آبادیاں  اس میں شامل نہیں ہیں  جسکے مکین ماحولیاتی طور    پر انتہائی خراب حالات میں زندگی گذار رہے ہیں ۔
 مندجہ بالا حقائق انتہائی تلخ ہیں ، جس سے واضح  ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں   غریبوں اور امیروں کے درمیان فرق مسلسل  بڑھ رہا ہے ۔  اور یہ ایک ایسا ملک ہے جس  میں دیہی ، شہری  اور صوبائی سطح پر   سماجی اور  معاشی  طور پر واضح تفریق  موجود ہے ۔ اس سماجی  تفریق نے  معاشرے  میں  معاشی ناہمواری میں بھی  اہم کردار ادا کیا ہے ۔  جس کےنتیجے کے طور پر   بہتر روز گار کے حصول  اور معاشی  ناہموری   کی دلدل سے نکلنے کیلئے    اندرون ملک بڑے پیمانے پر ھجرت ہوئی ہے
شہروں کی صنعتی ترقی   نے غیر ہنر مند اور ہنر مند مزدوروں   کی مانگ کو جنم دیا  یہ ہنر مندی دیہات میں  رہنے والے دست کار  طبقے میں  موجود تھی ۔  دوسری جانب ھجرتے کرنے والوں نے  شہری آازادیوں کا تجربہ کیا  اور دیہی علاقوں سے اپنے بچوں کو تعلیم  کیلئے اور جاگیرداروں کے تسلط سے ا ٓذاد کرانے کیلئے شہروں میں سکونت کو ترجیح  کی ۔ شہری علاقوں  اور چھوٹے  شہروں سے بڑے شہروں  میں ھجرت کی بڑی وجہ   سماجی طور پر معاشرے میں  تعلیم کا شعور بھی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانا چاہتے ہیں اور  چھوٹے  شہروں  میں دیہی علاقوں سے آنے والی لڑکیوں کے لئے ہاسٹل کی سہولیات   ناپید ہیں ، بہت سے دیہات میں  مڈل اور ہائی اسکول بھی نہیں ہیں  اور جہاں ہیں  وہاں تعلیم کا فقدان ہے   اس  صورت حال سے   سندھ کا دیہی   طبقہ   سب سے ذیادہ متاثر ہوا ہے ۔
  ۔ جبکہ افغان مہاجرین  کی ھجرت اسکے علاوہ ہے ۔  یہ ھجرت ، ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں بھی ہوئی ہے ،  ایک ہی صوبے کے چھوٹے  شہروں سے بڑے شہروں میں بھی ہوئی ہے  اور ایک ہی صوبے کے دیہاتوں سے شہروں میں ہوئی ہے ۔    اور اس ھجرت  نے     شہری معاشرے  کو  نئے مسائل سے دوچار کیا ہے ۔

1989 کی مردم  شماری کے مطابق   پاکستان کی کل آبادی کے  8 فیصد   نے اپنے علاقوں سے  ھجرت کی ہے ۔  اس 8 فیصد میں  سے 24.8  فیصد  ھجرت کرنے والوں  نے  کراچی  کا رخ کیا ہے  ، جس میں افغانی  اور   پشتو  بولنے والوں کی تعداد  سب سے ذیادہ ہے ۔ 
ایک دوسرے جائزے کے مطابق   پنجاب میں ھجرت  کرنے  والے 1.6 فیصد ہیں ، سرحد  میں   ھجرتے کرکے جانے والے 3 فیصد  ، بلوچستان میں  5.1 فیصد ( جس میں افغان مہاجرین شامل ہیں )    جبکہ سب سے ذیادہ  سندھ  میں  7.4 فیصد  ہے ۔  اس تعداد  سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ھجرت پسماندہ علاقوں سے   ہوتی ہے جہاں  زمین اور وسائل پر دباو ہوتا ہے ۔ اور جہاں صنعتی ترقی   نہیں ہوتی  اور زرائع مواصلات بہت خراب ہوتے ہیں ۔  سب سے بڑی ھجرت  صوبہ پختونخواہ   سے سندھ کی طرف ہوئی ہے اور  خصوصیت سے کراچی میں ہوئی ہے ۔  اور  حالیہ سالوں میں  سوات اور وزیرستان  کے آپریشن کی وجہ  سے ہونے والی  ھجرت اسکے علاوہ ہے ۔

ایک سروے  میں   کچھ اور دلچسپ حقائق  سامنے آئے ہیں  ۔ اندرون ملک ھجرت کرنے والوں   کے  مطابق  17 فیصد  نے شادی  کی وجہ سے ھجرت کی ،  12 فیصد  نے ملازمت کی وجہ سے ھجرت کی  اور 9 فیصد  نے کاروبار کی وجہ سے  ھجرت کی ہے ۔  اس لحاظ سے ذیادہ تر ھجرت   خاندانی ، سماجی اور  معاشی  مسائل  کی  وجہ سے ہوئی ہے ۔ یہی معاشرتی ناہمواری اور عدم مساوات  اس ھجرت کا سب سے بڑا سبب  ہے ۔   لوگوں نے بہتر مستقبل کیلئے   اپنے ہی ملک میں  ھجرت  کا    دکھ اٹھایا ہے ۔  اور یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے ۔

 کراچی کے سماجی  مطالعے سے پتہ چلتا ہے  کہ یہاں ھجرت کرکے آنے  والوں   کو مقامی آبادی نے اپنے اندر ضم  نہیں ہونے دیا ، نہ  ہی انہیں اپنایا ، جسکے نتیجے  میں   یہاں ھجرت کرکےا ٓنے والوں  نے  اپنےآپ کو  چھوٹے چھوٹے  پاکٹس  ، کالونیوں   اور مخصوص  علاقوں  میں  آباد کیا ، تاکہ اپنی کمیونٹی کے درمیان   انہیں تحفظ کا احساس رہے  ۔ اس لحاظ  سے سندھی  آبادی نے   اپنے آپ کو ، سچل  ، ملیر  ،  قائد آباد ،  اسٹل ٹاون اور گلشن حدید  کے علاقوں میں  آباد کیا ۔ جبکہ پختون آبادیوں نے اپنے آپ کو   سہراب گوٹھ ،  قائد ٓباد ، لانڈھی ، بنارس  ،  شیرشاہ  اور کیماڑی   اور  بلدیہ کے علاقوں  میں آباد کیا ۔ پرانی کچی آبادیاں جو کبھی  اس شہر کے ارد گرد ایک جھالر  کی طرح  پھیلی ہوئی تھیں  اب وہ  بھی  شہر سے جڑ کر پوری طرح  شہر میں جذب ہو چکی ہیں ۔  انہیں ایک  معاشرتی اور  طبعی ڈھانچہ تو  فراہم ہو گیا ہے  مگر سیاسی نمائندگی اور شہر کے سسٹم میں انکی حصہ داری  تا   حال نہیں مل سکی ہے ۔
یہ سب   ھجرت کرنے والے اس  طاعون زدہ معیشت کے باسی ہیں ۔ جس  نے  اس ملک کے معاشرے  کو امیر اور غریب  کی دو واضح لکیروں  میں تقسیم  کردیا ۔ ہے
 ایک طرف چمچماتی  گاڑیاں ہیں ، ایک سے ایک نئی وضع اور قطع کا لباس ، جھٹ  پٹ  تیار کھانوں ( فاسٹ  فوڈ)  کی ریل پیل ہے ۔  خریداری کے محفوظ  شاپنگ مال ہیں ،  مہنگے طعام و   چائے خانے ہیں ، نجی شعبے میں شاندار اسکول  اور یونیورسٹیاں  اور  صارفیت کو بام عروج پر پہنچانے والے اشتہارات  ہیں   تو دوسری جانب اس   شہر میں  عدم مساوات اور  بے روزگاری کے حامل   افراد کے جتھے ہیں  جو  مزدوری کی تلاش  میں  آپ کو ہر  صبح  شہر کی  ہر چورنگی پر نظر آئینگے ، کہ ایک دن کی مزدوری مل جائے تو  پیٹ کی آگ بجھا پائیں۔  امارت اور غربت کا بڑھتا ہوا فرق وہ سب سے برا عنصر ہے  جس  نے    میرے شہر  کے    نچلے اور   متوسط  آمدن  کے طبقات کے نوجوانوں کو سماجی  اور سیاسی طور پر تنہا کر دیا ہے ۔

کراچی کے اصل مسائل اس ھجرت کے بعد شروع ہوئے ہیں ،   اس وقت   کراچی شہر کی کل آبادی میں 25 فیصد   پختون آبادی شامل ہے ،جو  40 سے 50 لاکھ  کے قریب ہے  جس میں  50 ھزار افغان مہاجرین بھی  ہیں ۔ لیکن  اس ملک کے منصوبہ سازوں نے   اتنی  بڑی ھجرت کے نتیجے میں ہونے والی سماجی تبدیلی کے بعد   ھجرت کرکے آنے والوں  کو  اس شہر کے سسٹم کا حصہ نہیں بنایا ۔
جب بھی دنیا میں کہیں بھی بڑے   پیمانے پر ھجرت ہوتی ہے تو  ایک نسل اپنے آپ کو   معاشی استحکام پہ لگا دیتی ہے ۔ اور پھر انکی دوسری اور تیسری نسل اپنے معاشرے  کے مسائل کے حل کیلئے  اپنا سیاسی  حصہ مانگتی   ہے اور زندہ معاشرے   اچھی منصوبہ بندئی کے ساتھ      شہر کے اسٹیک ہولڈرز کو شہر کی حصہ  داری   میں شامل کرکے    شہر کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔ جسکی زندہ مثال لندن کی ہے ، جہاں   پاکستان سے ھجرت کرنے والوں  کی دوسری نسل  نے اب وہاں کی مقامی    سیاست میں  اپنا   حصہ مانگا  ۔ اور  برطانیہ کے زندہ معاشرے  نے صادق    خان کی شکل میں  ان کمیونٹیوں کو انکا حصہ دیکر  انہیں اپنے شہر اور اپنے معاشرے میں ضم کیا ہے ۔

لیکن کراچی میں  کی جانے والی سیاسی    حلقہ بندیاں  اس طرح کی جاتی ہے کہ   شہر کے مختلف علاقوں  میں  ھجرت کرکے آْنے والوں  کا کوئی  نمائندہ   منتخب ہو کر   کسی فورم پر نہ آ جائے  ۔ مثلا   اگر کسی محلے میں   پختون ا ٓبادی ذیادہ ہے ، یا سندھی آبادی زیادہ ہے  تو اسے   دو حلقوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے  تا کہ   انکا ووٹ تقسیم ہو جائے اور  ان کا نمائندہ   ووٹ کے زریعے منتخب ہو کر نہ آ جائے ۔   ایسے معاشروں میں   جب    معاشرے میں رہنے والوں   کو اپنے مسائل  کے حل کیلئے سسٹم  میں حصہ دار نہیں بنایا جاتا ، تو عدم تحفظ    کا    احساس شدت سے ابھر کر سامنے آ تا ہے  اور    یہی وہ  احساس ہے جو  اسلحے کے کلچر کو  فروغ دیتا ہے۔ اور  طاقت  کا حصول ہی مسائل کے حل کی   آخری امید ٹہرتا ہے۔  نتیجتا معاشرے میں وہ   انارکی پھیلتی ہے جس کا      مشاہدہ ہم نے حالیہ برسوں میں کراچی میں کیا ہے

 1998 کی مردم شماری کے مطابق   کراچی میں  مختلف زبانین   بولنے والوں کی    تفصیلات کچھ اس طرح  ہیں ۔
 اردو   48.52 فیصد
پنجابی     13.94 فیصد
پشتو  11.42 فیصد
 سندھی  7.22 فیصد
 بلوچی  4.34 فیصد 
 سرائیکی   2.11 فیصد 
مختلف  دوسری  زبانین بولنے والے  12.44 فیصد 
 اور  اب تو   سوات اور وزیرستان کے   حالیہ آپریشن کے بعد  یہ تعداد  بہت مختلف ہوگئی ہے  ۔  شاید  باقی کمیونٹیز  کے لوگوں کی تعداد  اب 57 سے  58 فیصد ہو  لیکن  شہری  مسائل   میں  58 فیصد  دوسری آبادیوں  کی نمائندگی   اور  شہری   ترقی میں ا نکی حصہ داری  نہ ہونے کے برابر  ہے   ۔ اور  یہی    حال حالیہ  ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج    میں کھل کر سامنے آیا ہے  ۔
زندہ معاشرے  اپنے مسائل کی حقیقی وجوہات  جان کر  بہتر منصوبہ بندی   سے ان کا تدارک کرتے ہیں ۔  ہم امید کرتے   ہیں کہ کراچی    کے اصل منصوبہ ساز   ان امور پر  توجہ دیکر  شہری مسائل  کو حل کرینگے ،  اور  لندن کی طرح دوسری کمیونٹی  کے لوگوں کو شہری ترقی میں حصہ دار بنا کر   بہتر معاشرے کی تشکیل میں  اپنا  فرض ادا کرینگے ،  ورنہ آپریشن کبھی دیر پا ثابت نہیں ہوتے ۔

آئندہ برسوں میں کراچی میں ایک بلکل ہی مختلف  معاشرہ سامنے آئے گا۔  لہذا ہمیں  اپنے   سیاسی  اور سماجی نظام  میں بڑی تبدیلیوں  اور  اصلاحات کی ضرورت ہے ، اگر ہم ایسا نہ کرسکے  تو سماج میں سیاسی  انقطاع بڑھے گا  اور اسکے نتیجے میں شہر میں معاشرتی  لحاظ سے  مزید تصادم  پیدا ہوگا ، اور شہری معاشرہ مزید چھوٹی  چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ جائے گا ۔ 

Tuesday 10 May 2016

پیپلز پارٹی کا انتقام


وہ بدھ کی شام تھی ، اور میں  ٹھٹہ سے کراچی آ رہا تھا ۔ راستے میں مجھے جگہ جگہ  پاکستان  پیپلز پارٹی کے انتقام   کا شکار لوگ نظر آئے  اور میں خود  بھی  اپنے آپ  کو ان میں سے ایک محسوس کرنے لگا ۔  پیپلز پارٹی   سے جب ریاست   نے انتقام لیا تو بھٹو کا پورا خاندان ہی ختم کر ڈالا ، ذوالفقار علی بھٹو ، انکی بیٹی بے نظیر بھٹو ،  بے نظیر کے بھائی  میر مرتظیٰ   بھٹو ،  یہ سب اس ریاستی انتقام کا شکار ہوئے  جو  انیس سو ستر کی دہائی کے آخر میں  شروع ہوا ۔ لیکن پیپلز پارٹی نے ریاست کے بجائے  یہ انتقام عوام سے لیا ۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ پیپلز پارٹی اپوزیشن میں  رہ کر کیسے کسی سے انتقام لے سکتی ہے ۔ تو جناب والا ، جب کسی کا بس کسی اور پہ نہیں چلتا تو وہ اپنے ہی لوگوں سے انتقام لیتا ہے ۔ اور جب اپنے اپنوں سے انتقام لیں  تو وہ بہت ہی بھیانک انتقام ہو تا ہے ۔
نیشنل ہائی وے سے  سفر کرکے کراچی  آتے ہوئے میں نے  پاکستان اسٹیل مل سے  ملیر  ہالٹ کے برج  تک 13 کلومیٹر  کا سفر  دو گھنٹے  میں طے کیا ، اسکی وجہ یہ نہیں کہ شاہراہ پر رش تھا  وجہ یہ تھی کہ  پوری سڑک  میں اتنے بڑے گڑھے ہیں جس نے  ٹریفک کی روانی کو متاثر کیا ۔  یہ سارے گڑھے اس علاقے میں ہیں   جو ملیر کا علاقہ کہلاتا ہے اور جہاں سے ہمیشہ پاکستان پیپلز پارٹی ہی انتخابات جیتتی ہے ۔ اور حال ہی کے بلدیاتی انتخابات میں یہاں سے  پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے عبدللہ مراد   جیتے ہیں ۔ لیکن پیپلز پارٹی   اپنے ہی ووٹرز اور اپنے ہی ہمدردوں  سے اس طرح انتقام لے رہی ہے کہ ، 13 کلومیٹر کی اس سڑک پر سفر کرنے والا ہر شخص دو گھنٹے  تک پیپلز پارٹی کو گالیاں دیتا ہے ۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین اگر پارٹی  کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانا چاہتے ہیں اور اسکی  وجوہات معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔
  تو ایک  دن بغیر کسی کو بتائے نئی گاڑی  لیکر  وہ یہ 13 کلومیٹر کا سفر کریں ، مجھے یقین ہے کہ انکی نئی گاڑی کے چیچز سے آوازیں آناشروع ہو جائیں گی ۔ اور اگر  اے سے کے بغیر  گاڑی کی کھڑکیاں کھول کر سفر  کرینگے  تو دھول اور مٹی میں انکے بال اسطرح  سفید ہو جائینگے  جیسے سینیٹر اعتزاز احسن کے ہیں ۔ اور انکی یہ شکل دیکھ کر شاید پیپلز پارٹی کے کارکن بھی بلاوال   بھٹو کو پہچان نہ پائیں ۔   اور اس سفر کے دوران میں یہ سوچنے لگا کہ آخر پاکستان پیپلز پارٹی کے  گذرشتہ آٹھ سالوں میں کس نے ہاتھ روکے کہ وہ ان سڑکوں کی تعمیر نہ کرے ۔ یہہی  وہ سڑک  ہے جس کے زریعے  بیرون ممالک سے آئے ہوئے سرمایہ کار تھر کے کوئلے تک  کا سفر طے کرتے ہیں ۔  پیپلز پارٹی نے اپنے حال کے آٹھ سالہ اقتدار کے دور میں  اپنے ووٹرز سے وہ انتقام لیا ہے ، کہ اب انکی چیخیں نکل گئی ہیں ، سارے ترقیاتی کاموں کا پیسہ   منتخب نمائندوں نے اپنی تجوریوں میں بھرا ہے ۔ اور نواب شاہ کو چھوڑ کر پورے سندھ  کو کھنڈر بناکررکھ چھوڑا ہے   اور مجھے ڈر ہے کہ اگلے انتخابات میں  اگر عوام  اپنے انتقام پر اتر آئے تو وہ بہت برا ہو گا ۔  
پیپلز پارٹی کے اس انتقام کی مختلف شکلیں اور مختلف جہتیں ہیں ۔  یہ انتقام   مجھے ، تھر کے صحراوں میں بھوک سے بلکتے اور غذا کی قلت کا شکار ان بچوں میں بھی نظر آیا جو بلک بلک کر   ہر روز  باری باری اپنی جان کی بازی ہار رہے ہیں ۔  یہ انتقام مجھے   ٹھٹہ  کی  محکمہ جنگلات کی ان زمینوں پہ بھی نظر آیا ، جو ھزاروں  ایکڑ کی تعداد میں  سابق صدر  آصف علی زرادری کے فرنٹ مین  انور مجید   کو الاٹ کر دی گئیں ۔۔۔ یہ انتقام   مجھے کراچی سے لیکر ٹھٹہ تک کی اس ساحلی پٹی پہ بھی نظر آیا جو مظفر ٹپی کے زریعے لاٹ کر دی گئیں ۔ اور جہاں شاید مستقبل میں  کراچی جیسا ایک اور شہرا ٓباد کیا جائے ۔ اور ملک ریاض بحریہ ٹاون  ٹو شاید وہیں آباد کریں ۔  پیپلز پارٹی کا یہ انتقام مجھے ، مکلی کے تاریخی قبرستان سے متصل اس پانچ سوا یکڑ زمین  پر بھی نظر ٓآیا  جو   صدر زرداری کے قرییبی   ساتھی  ریاض لال    جی ان    کی بیٹی   سبین  سکینہ  اور انکے خاندان اور ڈائریکٹرز کے نام پر جعلی کاغذات پر الاٹ   کردی گئیں ۔ شاید پیپلز پارٹی نے یہ سوچا ہو کہ ریاستی انتقام کا بدلہ ریاستی زمین کی بندر بانٹ سے  ہی لیا جا سکتا ہے ۔
پیپلز پارٹی کا انتقام مجھے بدین شہر کے کل  ڈھائی کلومیٹر کی ان شہری  سڑکوں پر بھی نظر آیا ۔ جو کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں ۔ اور یہی حال مجھے دادو شہر کی سڑکوں پر نظر آیا ۔
 پیپلز پارٹی کا یہ انتقام مجھے  کندھکوٹ سے لیکر   بخشاپور گیس فیلڈ کی 18 کلومیٹر کی اس قومی شاہراہ پر بھی نظر آیا جسکا ٹھیکہ موجودہ اپوزیشن لیڈر کے بھائی کو 40 کروڑ روپے میں دیا گیا ۔ اور سڑک  اپنے بننے کے صرف دو ماہ  بعد ہی ٹوٹ  پھوٹ کا شکار ہو گئی ، اور تارکول کے بجائے   سڑکوں پر پھیرا جانے والا کالا آئل    ایک بارش کے بعد ہی  ترقیاتی کاموں  میں کرپشن کو بے نقاب کر دیتا ہے ۔
 پیپلز پارٹی کا یہ انتقام مجھے  سندھ کے گاوں دیہات میں سڑکوں  کے نام پر بننے والی ان پگڈنڈیوں پر بھی نظر آیا  جہاں صرف پتھر بچھائے جاتے  ہیں ، اوراس پر بجری ڈال کر اوپر کالے آئل  کا چھینٹا مار دیا جاتا ہے ہے  اور ٹھیکیڈار اپنے بل کلیئر  کرالیتا ہے ۔ کہ ان بلوں میں اوپر والوں کا بھی حصہ ہو تا ہے ۔  بدین مین  ٹنڈو باگو  سے  نندو شہر تک  بننے والی پگڈنڈی  میری  شعوری عمر سے آج تک  گذرشتہ پچیس سال سے بن رہی ہے ،  اور اب تک سرکاری فائلوں  میں  یہ 14 کلومیٹر کی سڑک  آٹھ  بار بن چکی ہے ۔ اور بننے کے بعد  6 ماہ میں ہی ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے ۔ مجھے سمجھ نہیں  آتا کہ پیپلز پارٹی نے ایسے انجینیئر کہاں  سے درآمد کئے ہیں    جو تار کول کے بجائے سڑکوں پر کالا آئل  ڈال کر   پوری  قوم کا منہ کالا کرتے ہیں ، اور یہ کیسے انجینیئر ہیں جنکی  بنائی گئی سڑکیں  دو   چار ماہ میں ہی مکمل طور پر  ٹوٹ  پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں ۔  اور سندھ کے سالانہ بجٹ میں ذکر کی گئ   ھزاروں کلومیٹر سڑکیں صرف بل بناکر سرکاری خزانے سے پیسہ نکالنے کیلئے ہی ڈالی جاتی ہیں ، جن کا زمین پر کوئی وجود ہی  نہیں ہوتا  ۔ 
عوام سے پیپلز پارٹی کا یہ انتقام   مجھے لاڑکانہ شہر میں بھی نظر آیا  جہاں اربوں روپے کے ترقیاتی پروجیکٹس کا  پیسہ مٹی میں ملا دیا گیا اور زمین پر ان پروجیکٹس کا کوئی وجود ہی نہیں ۔    دادو   ، بدین ٹھٹہ  ، اور لاڑکانہ وہ شہر ہیں جن کے عوام نے ہمیشہ پیپلز پارٹی   کو ووٹ دئے اور ہمیشہ  ان حلقوں سے پاکستان پیپلز پارٹی  کے لوگ ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے منتخب ہوئے ۔ لیکن  پیپلز پارٹی نے ان شہروں کو کھندر بنا کر ، ان  شہروں کے فنڈز کھا کر  اپنے عوام اور اپنے ہی ووٹرز سے انتقام لیا ہے ۔
میں تو سندھ کا چپہ چپہ گھومتا ہوں ۔  تو سندھ کے عوام سے پیپلز پارٹی کا انتقام مجھے نظر آتا ہے ، اور میں کانپ جاتا ہوں  کہ جس دن عوام اپنے انتقام پہ اتر آئے تو پیپلز پارٹی کا کیا ہوگا ۔