Wednesday 13 December 2017

پاکستانی صحافیوں کے لئے اعزاز۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تصور کریں آپ ایک ایسے صحافی ہیں ، جو بلوچستان کے مخدوش حالات میں پیشہ صحافت سے منسلک ہیں ، ایک طرف آپ کو علیحدگی پسندوں سے جان سے مارنے  کی دھمکیاں ہیں اور دوسری طرف  ملک کی سیکیورٹی فورسز آپ کی کوئی مدد کرنے کیلئے تیار نہیں ۔۔۔ایسےوقت  میں جب آپ کو اپنی جان و مال اور بیوی بچوں کی جان کے لالے پڑ رہے ہوں ۔۔۔ اور آپ کا کوئی پرسان حال نہ ہو ۔ ایسے وقت میں کوئی آپ کا ہاتھ پکڑ کے آپ کو ایک محفوظ مقام پر ری لوکیٹ کرے ۔۔۔۔ تصور کریں  کہ آپ سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز میں وڈیروں اور سیاسی  پنڈتوں کے خلاف رپورٹنگ کر رہے ہیں اور اچانک  آپ پر دہشت گردی کے جھوٹے کیس بنا کر آپ کو پس  دیوار زنداں  پھینک دیا جائے ۔ اور سکھر سینٹرل جیل میں  قلم کا سپاہ ایک مجرم بن کر رہا ہو۔۔۔۔۔ایسے میں کوئی آپ  کی مدد کیلئے  سکھر سینٹرل جیل پہنچ جائے  ۔۔ آپ کا وکیل کرے ۔۔اور جھوٹے مقدمے سے آپ کو نجات دلائے ۔۔۔۔۔ تصور  کریں آپ ایک بم دھماکے کی  کوریج کر رہے ہیں ۔۔۔اور اچانک دوسرا دھماکہ ہوتا ہے اور آپ اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں ۔۔۔آپ کے پیچھے آپ کے بیوی بچوں  کے پاس گھر کے  راشن کے بھی پیسے نہیں  ایسے میں  دوسرے ہی دن کوئی آپ کی بیوہ کے اکاونٹ میں خاموشی سے کچھ لاکھ روپے  منتقل کردے ۔۔۔۔جس سے   آپ کے لاوارث گھر والے کچھ عرصہ گذارہ کر سکیں ۔ ۔۔۔۔۔ کیسے لگیں گے  آپ کو یہ کام کرنے والے لوگ ؟ ۔۔۔۔جی ہاں  پاکستانی میڈیا  میں کام کرنے والی ایک ایسی آرگنائیزیشن  بھی موجود ہے  جو  گرشتہ  5سال میں  اب تک 60 سے زائد صحافیوں کو جن کی زندگی کو خطرات تھے  محفوظ مقامات پر منتقل کرچکی ہے ۔۔۔ کئی صحافیوں کو جھوٹے مقدمات  کے کیسوں سے چھڑا چکی ہے ۔۔۔ اور کئی  صحافیوں  کی   بیوہ اور بچوں  کیلئے   مالی معاونت   کرچکی ہے ۔۔۔اور یہ کام بھی کرنے والے سب کے سب   معتبر صحافی ہیں ۔جو فریڈم نیٹ ورک کے نام سے  اس کام کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں ۔۔۔ اس خاموش  کام کی بدولت   12  دسمبر کو فرانس میں    پاکستان کی فریڈم نیٹ ورک  کو   فرانس کے   قابل فخر  ھیومن  رائٹ  اوارڈ سے نوازا گیا ۔

یہ اوارڈ   فرانس میں ایک غیر معمولی  تقریب میں  وہاں کی وزیر انصاف نے  فریڈم نیٹ ورک پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر  اقبال ختک  کو دیا ۔  تقریب میں پیرس میں پاکستانی ایمبسی کے پریس کونسلر  قمر پشیر بھی موجود تھے ۔۔ اس  ملک میں جہاں ہر قدم پر لوگوں کو برائیاں نظر آتی ہیں ، یہاں کی اچھائیوں، صحافیوں اور پیشہ صحافت کیلئے کئے جانے والے کام کو سراہنا  یقینا  کسی اعزاز سے کم نہیں ۔  آذادی اظہار رائے ، اور پیشہ ور صحافیوں کی سیکیورٹی و سیفٹی کیلئے  کیا جانے والا  یہ کام یقینا  اہم ہے کہ صحافی ہی   جمہوریت کیلئے  فرنٹ لائن ڈفینڈر  کا کام کرتے ہیں ۔  فریڈم نیٹ ورک کو یہ اعزاز  حاصل ہے کہ وہ گذرشتہ پانچ  سال سے  ملک بھر میں  صحافیوں پر ہونے والے حملوں   اور  صحافیوں پیس آنے والے خطرات کا مکمل ڈیٹا بیس رکھتی ہے ۔ اور ان حملوں سے  اپنے  طور پر نمٹنے کیلئے نہ صرف اپنی کوششوں کو بروئے کار لاتی ہے  بلکہ صحافیوں کو عملی تربیت بھی فراہم کرتی ہے ۔
اس وقت پاکستان  میں  کل 20 ھزار  سے زائد صحافی  کام کر رہے ہیں ۔ جس میں سے 5 فیصد خواتین ہیں یعنی 1000۔ ان 20 ھزار میں سے  200 صحافیوں کا تعلق  منارٹی گروپس   یا اقلیتوں سے ہے ۔ جبکہ  میڈیا ھاوسز الیکٹرونک  میڈیا ، پرنٹ میڈیا  اور ڈجیٹل میڈیا  میں  کام کرنے والی ورک فورس کی  مجموعی تعداد  2 لاکھ تک ہے ۔ سنہ2000 سے لیکر  2017 تک  پاکستان میں 120 صحافی   ان دی  لائن آف ڈیوٹی   مارے جا چکے ہیں ۔ جبکہ  20 ھزار میں  2000 صحافیوں پر کسی نہ کسی طرح   حملہ کیا گیا  ، زخمی کیا گیا ، اغوا کیا گیا اور وہ  خطرات میں رہے ۔
جبکہ  ان 120 قتل ہونے والے صحافیوں  میں سے 16  ایسے صحافی ہیں جو وار زون میں کام کر رہے تھے ۔ اور اس س ے بھی بڑھ کر  المیہ یہ ہے  کہ  ان صحافیوں سے ان کے ادارے    بغیر تنخواہ کے کام کر وا رہے تھے ۔

ایسے حالالات میں پاکستان  میں پیشہ صحافت  کے لئے کام کرنے وا لے صحافیوں کو اس اعزاز سے نوازا جانا یقینا  لائق تحسین ہے ۔ اوارڈ کی تقریب سے  خطاب میں اقبال ختک نے صراحتا  کہا کہ ہماے ملک کا  آئین    آذادئی اظہار رائے  کی  گارنٹی دیتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ  فریڈم نیٹ ورک اپنا یہ اوارڈ  ان صحافیوں ، پیشہ ور قلم کاروں اور اور ھیومن رائٹس  اور سول سوسائٹی کے کارکنون کے نام کرتا  ہے  جو  اظہار رائے کی  دی گئی آذادی کی حفاظت  کیلئے ہمیشہ کمربستہ رہتے ہیں ۔

Tuesday 28 November 2017

محلے کی کتیا ۔۔اور مسجد کا ٹرسٹی


میں نے رات گئے جب گھر میں قدم رکھا تو میری چھوٹی  بیٹی کمبل میں منہ دئے  ہلکی ہلکی سسکیاں بھر کر رو رہی تھی ۔۔۔ پوچھنے پر کہا کہ بابا نیند نہیں  آ رہی  ۔۔۔ میں نے  اسے پیار کیا اور سینے سے چمٹاتے ہوئے کہا کہ کیا بات ہے ۔۔۔ تو اس نے  پوری کہانی سنادی ۔۔۔جو اسکے یوں سسکیاں بھرنے کی اصل وجہ تھی ۔ کہنے لگی بابا ۔۔۔ وہ ہمارے گھر کے سامنے   ننھے منے  بچوں والی جو کتیا تھی نا ۔۔ اسے ہمارے پڑوسی شانی نے آج بہت پتھر مار کر بھگایا ۔۔ اور پھر اسکے ایک ھفتے کے منے پلوں کو  ایک ایک  کرکے مارنے  لگا ۔۔۔۔ اور گلی میں چیخنے لگا  کہ اس نے ہماری نیند خراب کردی ہے ۔۔۔یہ دیکھ کر  سامنے سے ایک   اور پڑوسی  نکل آیا ۔۔اور کہنے لگا کہ انکو مت مارو ۔۔ معصوم ہیں ۔۔۔۔ میں انہیں کہیں دور چھوڑ آتا ہوں ۔۔۔ اس نے کتیا کے6 پلوں  کو  ایک تھیلی میں ڈالا اور بائیک پر  کہیں  چھوڑ آیا ہے ۔۔۔۔ بابا ۔۔ جب سے یہ واقعہ  ہوا ہے  ۔۔ کتیا نے بھونکنا چھوڑ دیا  ہے ۔۔۔ اسکے حلق سے عجیب عجیب آوازیں نکل رہی ہیں ۔ ۔۔۔کبھی  گلی کے ایک کونے کی طرف  بچوں کی تلاش میں بھاگتی  ہے اور کبھی دوسری طرف ۔۔۔۔۔   گھرکے سامنے  جس کیاری   کے پاس  اس کے بچے تھے ۔۔ اسکی زمین  کھود کے دیکھ رہی ہے ۔۔۔  کچرے کی ہر تھیلی  کو بھبھوڑ کر دیکھتی ہے ۔۔۔کہ شاید اس میں اس کے دودھ پیتے بچے ہوں ۔۔۔۔ بابا  دیکھو  کیسے گلی میں چکر لگا رہی ہے  اور آج پاگلوں  کی سی  آوازیں نکال رہی ہے ۔۔۔۔۔۔ میں  نےبچی کو دلاسہ دیا اور گلی میں جا کر  کتیا  کی آہ و زاری  اور اپنے بچوں کیلئے  اسکی ممتا کی تڑپ کو دیکھانے لگا ۔۔۔۔ تو  نہ جانے کیوں  مجھے   بی بی حاجرہ  یاد آگئیں ۔۔۔۔ اور  آنکھیں بھیگنے لگیں ۔۔۔ کہ کس طرح سیدنا اسماعیل کی محبت  ۔۔ اور پانی کی تلاش میں  وہ کبھی صفا کی پہاڑی پہ چڑھتیں اور  واپس بچے کے پاس آتیں ۔۔۔۔اور بچے کو دیکھ کر واپس  مروہ کی پہاڑی کی طرف دورڑلگاتیں ۔۔۔۔۔  سیدنا  اسماعیل  سے انکی محبت  کو شاید خدا سے بھی دیکھا نہ گیا ۔۔  اور فورا  ہی زمزم کا کنواں ابلنے لگا  ۔۔۔۔ اور رہتی دنیا تک   محبت کے اس اظہار کو  ۔۔ حج کا رکن بنا دیا گیا ۔۔۔۔۔
میرے محلے میں آنے والی ا س کتیا سے میری    بیٹی  کی شناسائی بس ایک ھفتے ہی کی تو تھی ۔۔۔۔۔ جب اس نے بچے دئے تھے ۔۔۔اور سامنے والی کیاری  میں ایک گڑھا کھود کر وہاں اپنا ٹھکانہ بنایا تھا ۔۔ جب ہم نے دیکھا کہ وہ کھانے کیلئے گلی کے ایک سرے تک جاتی اور بھاگ کر واپس پلٹ  کر اپنے پلوں کو ایک نطر دیکھتی  اور پھر دوسرے  سرے تک رزق کی تلاش میں  چکر لگاتی ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میری بچی نے کہا بابا   دیکھو  بچاری کھانے کی تلاش میں ہے لیکن بچوں کو اکیلا چھوڑنا  نہیں  چاہتی ۔۔۔۔
میری بیٹی اور میں نے گاڑی نکالی ۔۔۔ اور میٹرو کے سامنے مٹی کے برتن بنانے والے کمہار   سے  کتیا کے کھانے کیلئے ایک برتن لے آئے ۔۔۔۔ اور اس دن سے ھمارے گھر کے  دودھ   میں  کتیا کیلئے  بھی دودھ کا کوٹہ مقرر ہو گیا ۔۔۔۔ میری  غیر موجودگی میں  میری ننھی  اس برتن میں  دودھ انڈیل دیتی ۔۔ اور کتیا کی دیکھ بھال کرتی کہ جب اسکے  بچے بڑے ہونگے تو خود ہی  یہاں سےچلی جائے گی ۔۔۔۔
کراچی  میں آئی حالیہ سردی کی لہر کیلئے جب تہہ کئے ہوئے کمبل نکالے گئے تو ایک  قرعہ فال کتیا کیلئے  بھی نکلا ۔۔۔۔۔ اور پھر ایک دن میں  نے اپنی بچی کے ساتھ ملکر  کتیا کی بیٹھک کے پاس کیاری میں ڈنڈے  گاڑے ۔۔۔۔ اوپر اور چاروں سے  طرف  سے کمبل باندھ کر  کتیا کے بچوں کو سردی سے  بچانے کا بندو بست کیا ۔۔۔۔
لیکن آج  میرے پڑوسی نے کتیا کا وہ گھر   ڈھا دیا اور اس  کی ممتا سے اسکے  دودھ پیتے پلوں کو دور کردیا ۔۔۔ پتہ چلا کہ  بڑی داڑھی والا   میرا  پڑوسی  محلے  کی مسجد کا ٹرسٹی ہے ۔۔ محلے میں اسکی کسی سے نہیں  بنتی ۔۔۔۔ تین شادیاں کر چکا ہے  لیکن  اولاد سے محروم ہے ۔۔۔۔۔۔ اور مجھے سمجھ میں  آگیا کہ اللہ   رحم سے خالی دل والوں کو اولاد   کیوں نہیں دیتا ۔۔۔۔
میں  نے  اپنی لائبریری سے  حضرت واصف علی واصف  مرحوم کی کتاب ۔۔ دل ۔۔دریا ۔۔سمندر  ۔۔ نکالی  اور  ایک اقتباس پرھ کر بچی کو سنایا کہ " جب تمہاری ذات  ، انسانوں ، جانوروں اور تمام مخلوقات خدا کیلئے  بے ضرر  بن جائے تو یہ  تمہاری  عبادت  کی ابتدا ہے ۔۔۔۔۔ جب تمہاری    ذات  مخلوقات خدا کیلئے سراسر نفع ہی نفع بن جائے تو یہ تمہاری عبادت  کی انتہا ہے"
اور  میری بچی  پوچھنے لگی  بابا ۔۔۔۔ اس لحاط   سے  بڑی داڑھی والا   ۔۔۔محلے کی مسجد کا ٹرسٹی کہاں کھڑا ہے ؟ ۔۔ اور میری آنکھوں سے  آنسوں کی جھڑی   لگ گئی ۔۔۔۔۔۔ میرے پاس ننھی  عشا کے سوال کا  کوئی جواب نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔

Tuesday 14 November 2017

میرے مرحوم و مدفون ھیرو ۔۔۔



ڈاکٹر عطاء  الرحمان  ۔۔۔ میں جب یونیورسٹی میں پرھتا تھا،  تو آپ کا بے حد احترام کرتا تھا ۔۔ آپ میرے لئے ایک ہیرو تھے  کہ آپ نے۔۔ ایچ ای جےریسرچ  انسٹیٹیوٹ ۔۔۔  کے زریعے  میرے ملک کا نام روشن کیا  تھا ۔۔۔ اور میں دل  ہی دل میں تم سے محبت کرتا تھا  ، خیال ہی خیال میں  آپ کی  تصویر کشی کرتا تھا ۔۔۔ نوجوان تھا  ملک کو آگے لے جانے کے خواب دیکھتا تھا ۔۔۔کہ  میرے ملک کو آپ جیسے  لوگوں کی ضرورت تھی ۔۔۔ پھر جب میں  تعلیم سے فارغ ہوا ۔۔۔ اور کار زار صحافت  میں قدم رکھا   ۔۔تو آپ  وزارت آئی ٹی ا و رٹیکنالوجی کےو زیر تھے ۔۔۔ میں خوش ہوا کہ کہ میرا ھیرو  ۔۔ایسی وزارت پہ آگیا ہے ۔۔جو میرے ملک کو ٹیکنا لوجی  کے زریعے  آگے  لے جائے گا ۔ ۔۔۔۔۔سیمینارز  اور وکشاپس  کے  دوران  میں  آپ کی تقریریں غور سے سنتا  تھا ۔۔۔۔اپنے قلم کے زریعے ایک ایک پوائنٹ   نوٹ کرتا  تھا ۔۔۔۔آ پ کی خبر  بناتے ہوئے  کوشش کرتا کہ آپ کا کہا ہوا  کوئی  اہم نقطہ     میرے قلم سے رہ نہ جائے ۔۔۔۔۔خبر بنا کے اپنی خبر کو بار بار چیک کرتا ۔۔۔۔۔۔۔ کہ آپ   میرے  ھیرو تھے ۔۔۔۔۔اپنے دل کی مورتی میں  برسوں آپ کو ھیرو کی طرح   پو جا تھا ۔۔۔۔۔آپ کو یاد ہو گا ۔۔۔آپ اپنی  تقریروں  میں  اکثر  فن لینڈ کی ایک چھوٹی کمپنی  "نو کیا "کی مثال دیتے کے اسکا سالانہ بجٹ 34  بلین ڈالرز ہے ، ہمارے ملک سے ذیادہ ۔۔ مجھے آپ کی وہ مثالیں بھی  اچھی طرح یاد ہیں ۔۔۔۔ میں بھولا  نہیں ہوں ۔۔۔ پھر آپ  نے ایک نئی چڑیا ایجاد کی۔۔ میڈیکل ٹرانسکرپشن  کا منصوبہ لے کر آئے   اور قوم کو بتایا کہ  میرا ملک اس سے سالانہ  کئی ملین ڈالرز کمائے گا ۔ قوم کی  افرادی قوت کو استعمال کیا جائیگا ۔۔۔ آپ میرے ھیرو تھے اور اور آپ کے اقدامات   نے۔۔میرے دل کے ساتوٰں آسمانوں پر آپ کو بٹھایا تھا ۔۔۔
لیکن جب میں نے  تحقیقاتی صحافت شروع کی ۔۔۔۔ اور میڈیکل  ٹرانسکرپشن کے آپ کے منصوبے کا پوسٹ مارٹم کیا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔۔۔ میں نے اپنا بھیس بدلا ۔۔۔۔ اپنے آپکو ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ کے روپ  میں ڈھالا ،۔۔۔ ایک دو فائلیں ھاتھ میں پکڑیں ۔۔۔۔۔ اور کراچی سائٹ میں ھنڈا  شوروم کے سامنے  آپ کی کمپنی رحمان  اندسٹریز  میں  جا پہنچا ۔۔۔ کہ میں لوگوں کی سنی سنائی باتوں  پہ بھرو سہ نہیں کرتا تھا ۔۔۔خبر کو  کھود تا   تھا ۔۔۔۔۔خبروں کی تصدیق  کیلئے خود   ایک ایک جگہ پہ جاتا تھا ۔۔۔۔اور میں تھا بھی تو ملنگ صحافی ۔۔۔کہ  کوئی پھٹیچر   موٹر سائیکل  بھی میرے پاس نہ تھی ۔۔۔   اے 3 ۔۔۔ بس   میں بیٹھا  ۔۔۔۔۔اور آپ کی کمپنی   رحمان   انڈسٹریز  کے سامنے جا اترا ۔۔۔۔۔ میڈیکل ٹرانسکرپشن  کیلئے اپنا تعارف کرایا ۔۔ اور آپکی کمپنی  کے آفس  میں میڈیکل ٹرانسکرپشن کا مصنوعی دفتر اپنی انکھوں سے دیکھا ۔۔۔۔  لوگوں  کو کام  کے ٹھیکے  آپ  کی اسی  کپنی  کے دفتر سے جاری ہوتے  تھے ۔۔۔آپ نے  اس مقصد کیلئے رکھے گئے سالانہ  8 کروڑ روپے  کے فنڈز  اپنی ہی کمپنی کو ٹرانسفر کئے  ۔۔۔ میں نے آپ  کے  مصنوعی آفس کی تصاویر لیں  ۔۔۔۔ فنڈز   کی تفصیلات    اور ثبوت    حاصل   کئے ۔۔۔۔اور اسٹوری چھاپ دی ۔۔۔۔
ڈاکٹر عطاء الرحمان   اس دن میرا ھیرو مر گیا  تھا ۔۔۔  اس دن آپ ھیرو سے  زیرو ہو گئے تھے ۔۔۔ اس رات اپنے ھیرو کے مرنے پہ میں رضائی میں منہ دے کے خوب رویا تھا ۔۔۔۔۔کہ آج میرا  زمانہ طالبعلمی کا ھیرو جسے اپنے دل میں بسایا تھا مر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں نے  اپنے ھیرو کو دفیا دیا ۔۔۔ قبر میں  اتار دیا ۔۔۔۔۔
لیکن آج صبح آپ نے  میرے  پرانے زخم ہرے کر دئے ۔۔۔۔۔ٹیکنو کریٹ ھیروں کی شکل  میں رہبری کرنے والے ھیرو  و تو میں کب کا  دفن کر چکا تھا ۔۔ لیکن آج روزنامہ جنگ میں آپ کے کالم نے میرے  سلے ہوئے زخموں  کے ٹانکے کھول دئے ۔۔۔آپ نے پھر وہی اعداد و شمار کے گوررکھ دھندے   بیان کرکے میرے ملک کے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ۔۔۔ اور سارے مسائل   کا حل  ان الفاط میں  بیان کیا ۔۔۔۔
"میرے خیال میں پاکستان کو اپنے آئین میں تبدیلی لانی ہوگی اور صدارتی نظام جمہوریت کے تحت ما ہرین کی حکومت کے قیام کی جانب سفر کرنا ہو گا۔ اس مقصد کو سپریم کورٹ، روشن خیال سیاستدانوں، اور عسکری قیادت کی مداخلت کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔"

میرے  مرحوم و مدفون ھیرو  ۔۔۔۔۔۔! آپ  نے پھر پرانا چورن بیچنا شروع کر دیا ۔۔ صرف اس لئے کہ آپ کو کوئی سیٹ مل جائے ۔۔ کوئی وزارت مل جائے۔۔۔ ٹیکنو کریٹ کے نام پہ ۔۔۔۔آپ نے اپنا  چورن بیچنے کیلئے میری محبوب فوج کو مداخلت کی دعوت بھی دے ڈالی ۔۔۔۔اور سپریم کورٹ  کو استعمال کرنے کی تجویز   بھی  دے دی ۔۔۔۔۔۔ میرے  مرحوم ھیرو  ۔۔۔۔۔آج میں آپ سے شدید نفرت کرتا ہوں ۔۔۔آپ نے آج  مجھ سے میرا آئین چھیننے کی کوشش کی ہے ۔۔ میری  عدلیہ  کو استعمال  کرنے کی  تحریری  تجویز دی ہے ۔۔۔۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو  عساکر کو مداخلت  کی دعوت دینے پر  آپ پر غداری کا مقدمہ قائم کرتا ۔۔۔۔۔ عدلیہ  کو استعمال کرنے پر توہین عدالت   کا مقدمہ کرتا ۔۔۔۔۔ لیکن کیا کروں یہ میرا کام نہیں ۔۔۔ میں کوئی وکیل نہیں ۔۔ میں تو صرف قلم کا سپاہی ہوں ۔۔میرا ہتھیار صرف  میرا قلم ہے ۔۔۔ اس لئے  میں نے آج اسی قلم سے   اپنے ھیرو کی مدفون لاش  قبر سے نکال کر بیچ چوراہے پر لٹکا دی ہے ۔۔ میں یہی کر سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ 

Thursday 19 October 2017

ملکی حالات اور بوڑھا دیہاتی


وہ   دیہاتی بوڑھا اپنی  عمر  کی ساٹھ بہاریں دیکھ چکا تھا ۔ اور  عمر کی ساتویں دہائی   کے سفر پر گامزن تھا ۔  سر پر  دھوپ سے بچانے کیلئے باندھی گئی پگڑی گویا  اب اسکی  زندگی کا جزو لاینفک  بن چکی تھی ۔  چاول کے کھت کے پاس  ببول کے درخت  کے نیچے  40  سینٹی گریڈ کی گرمی سے بچنے کیلئے چارپائی پر دراز  اس دیہاتی بوڑھے نے  مجھ سے پوچھا    ۔۔۔بیٹا   یہ  بیچارے نواز شریف کو کیوں نکال دیا ۔  میں نے  جواب دیا با با اس نے  اپنے بیٹے کی کمپنی سے  تنخواہ نہیں لی ۔ اور جو چیز اس نے لی نہیں اس کو کاغذات میں ظاہر نہیں کیا ۔ اس لئے عدالت  نے کہا کہ تم سچے نہیں جھوٹے ہو ، وزیر اعطم کی کرسی کے لائق نہیں ہو ۔ اور نکال دیا ۔۔۔۔ یہ سن  کر بوڑھے دیہاتی نے ایک  لمبی  سانس  بھری اور کہا کہ یہ فیصلہ دینے والے کیا سب  سچے صادق اور امین ہیں ۔۔؟     میں نے بات کا رخ بدلنے  کیلئے  کہا کہ ۔۔۔۔۔بابا یہ بتاو   دیہاتیوں  اور کسانوں کیلئے نواز شریف کیسا تھا ؟
کہنے لگے بیٹا  ہم دیہاتی لوگ کھتی باڑی کرتے ہیں ۔ زمین میں ہل جوت کر  گندم اور چاول اگاتے ہیں ۔ چھ چھ  ماہ راتوں کو   جاگ کر پانی سے زمینوں کو سیراب کرتے ہیں تو ہماری زندگی کی گاڑی چلتی ہے ۔ اور  چھ ماہ بعد  اپنی محنت کا پھل پاتے ہیں ۔۔۔ لیکن نواز شریف سے  پہلے ہماری زندگی اجیرن ہو گئی تھی ۔ کھاد کی  ایک بوری 2800 روپے تک پہنچ گئی تھی ۔ نواز شریف نے اسکی قیمتیں کم کیں  اور  یہ کھاد  ہمیں  1200 سے  1400  روپے فی بوری ملنے لگی ۔۔۔۔  زمین   پر ٹریکٹر  چلاتے تھے  پیٹرول اور ڈیزل  120  روپے لیٹر تھا  تو  ہمارے لئے   زمینوں میں ٹریکٹر چلانے کیلئے  مشکلات  تھیں نواز شریف  نے آکر پیٹرول اور ڈیزل  70  روپے لیٹر  تک  کم کردیا  ۔۔۔ ہم کسانوں  کیلئے تو یہ سب سے اچھا حکمران تھا ۔ یہ کہہ کر وہ خاموش  ہو گیا اور پھر  سوچ کی اتاہ گہرائیوں  میں ڈوب گیا  اور اسکے  چہرے پر مرمژدگی  کے سائے لہرانے لگے  ۔۔۔۔۔ میں  نے پوچھا   ۔۔ چاچا  کس سوچ  میں کھو گئے ۔۔۔ کہنے لگے بیٹا  سوچ رہاں ہوں   کہ ہم کسانوں  کے پھر برے دن آنے والے ہیں ۔۔ میں  نے پوچھا وہ کیسے  ؟ کہنے لگے بیٹا   ۔۔۔۔ اب نوز شریف  کی جگہ پہ جو بھی آئے گا  ۔۔۔وہ  اپنی تجوریاں بھرے  گا ۔۔۔ اور ہر چیز  کی قیمتوں میں اضافہ کر دیگا ۔   نتیجتا    پیٹرول، ڈیزل  اور کھاد سب مہنگے ہو جائینگے  اور  اور  ہم کسانوں پر زندگی تنگ ہو جائے گی ۔۔۔وہ دم  لینے کو رکا اور  کہنے لگا   ۔۔۔ مجھے لگتا  ہے نواز شریف کو   فوجی لوگوں  نے ھٹایا  ہے ۔ میں نے کہا نہیں  چچا   ۔۔۔۔ کیسی باتیں کرتے ہو ۔۔۔۔انہیں عدالت  نے ھٹایا ہے ۔ بے ایمانی پہ ۔۔۔۔ بوڑھے دیہاتی  نے غور سے میری آنکھوں  میں دیکھا اور کہا  بیٹے  تم ابھی تک بچے کے بچے  ہو ۔۔۔۔ کیا زرداری  نوازشریف سے  زیادہ ایماندار  ہے ۔ اسکو تو  پانچ سال برداشت  کر لیا ۔ لیکن  جس نے ہم دیہاتیوں کو سکھ پہنچایا   اس کو بے ایمان کہہ کر گھر  بھیج دیا ۔۔۔۔۔ یہ کہہ کہ اس نے اپنی کلہاڑی اور  کدال سنبھالی اور  اپنے کھیتوں  کی راہ لی ۔۔۔۔ اور میں شہر سے آنے والا   سوچنے لگا  بوڑھے دیہاتی  نے آج مجھے زندگی کی  ایک اور پرت دکھائی ہے ۔ دوسری راہ  دکھائی  ہے ۔۔۔ حالات کو  دوسرے کی نظر سے دیکھنے  کی راہ۔۔۔۔۔۔ دوسرا  نقطہ نظر  جاننے  کی راہ !

Sunday 29 January 2017

ضمیر کا قیدی


وہ  منگل کا  دن تھا ، فضا میں  جنوری کی سردی کی ٹھنڈک محسوس کی جا رہی تھی ۔۔۔ ایسے  میں  سردیوں کی ہلکی ہلکی دھوپ انتہائی دلکش  احساس دلا رہی تھی ، ہماری گاڑی  سکھر سینٹرل جیل کے قریب بنائی گئی حفاظتی دیوار اور اسکے ساتھ لگے  زگ زیگ بیریئرز  کو کراس کرتی ہوئی باوردی اہلکار کے اشارے پہ رکی ۔۔۔۔۔  ہم نے  گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور اہلکار سے کہا کہ قاضی  صاحب کے مہمان ہیں ۔  اہلکار نے سر کو ہلکی سی جنبش دی اور  بیریئر اٹھتے چلے گئے ۔۔۔۔۔۔  اور اسکے بعد   ہارن بجانے پر دوسرا حفاظتی دوازہ بھی کھل گیا اور ہم نے  سیدھا  سینٹرل جیل  میں وحشت کی علامت  جسے  عموما "ماڑی" کہا جاتا ہے   کے  عین سامنے گاڑی پارک  کی  ۔۔۔۔۔۔ اور اتر کر  جیل کے اندرونی دروازے کی طرف  بڑھے ۔ ۔۔۔۔اندر قدم رکھتے ہی ایک اہلکار نے  ہمارے سیدھے ھاتھ پر جیل کی مہر لگائی  اور ہم سیدھا   سپرٹینڈنٹ جیل کے کمرے  کی طرف بڑھے ۔  سپریٹینڈنٹ جیل کو    ڈی آئی جی جیل خانہ جات نے پہلے ہی ہماری آمد سے  مطلع کردیا تھا ۔۔۔۔ اور ہمارے  مطلوبہ شخص  کو بھی بند وارڈ سے نکال کر  سپریٹنڈنٹ   کے کمرے میں پہنچا دیا گیا  تھا ۔
سپریٹنڈنٹ کی  ٹیبل  کے  سائڈ والی کرسی پر   بیٹھے شخص   کے بالوں میں دکھائی دیتی ہلکی سی سفیدی بتا رہی تھی کہ کارزار حیات  کے ریگستان   میں  مسافر  نے اک عمر بتائی ہے ۔۔۔۔۔  چہرے پر ہلکی سی بڑھی ہوئی شیو   اس بات کا پتہ دے رہی تھی   کہ کئی دن سے  اسے آئینے میں اپنا  آپ دیکھنے کا موقع نہیں ملا ۔۔۔۔۔۔ قمیض شلوار میں ملبوس  وہ شخص   چالیس   کے پیٹے میں لگ رہا تھا ۔ ہم نے اس  ناتواں  مگر بلند  حوصلہ شخص کو   با وقار انداز میں   بیٹھے پا یا ۔ ۔۔۔۔  الجھے  ہوئے لمبے بال  اس بات کا پتہ دے رہے تھے کہ  کوئی سرپھرا  ہے ۔۔۔ جسے   بالوں کی تراش خراش سے ذیادہ اپنے مقصد  اور پیشے سے لگن ہے ۔   ہم اس سے بغلگیر ہوئے    تو اپنے اپ کو اسکی محبتوں کا  اسیر پایا ۔۔۔۔دعا  سلام کے بعد پوچھا کہ   کیسا رہا   نیا تجربہ   سینٹرل جیل کا ۔۔۔۔
کہنے لگا  "  دارو  رسن   میرے  لئے کوئی نیا تجربہ نہیں  ان دیواروں سے میں  پہلے ہی سے واقف ہوں ،   حیات جاوداں کے کئی ماہ و سال   میں  پہلے بھی  ناکردہ گناہوں کی پاداش میں  یہاں بتا چکا ہوں"
اپنے بڑے بڑے بالوں  کو پونی کی شکل میں  پیچھے کی طرف  باندھے ہوئے اور آنکھوں پر   بڑے  شیشوں کی عینک لگائے اس  شخص  کی   باتوں میں حوصلہ بھی تھا اور ہمت بھی ۔۔۔ اسکی آواز بہت توانا تھی ۔۔ایک مزاحمتی صحافی   مجسم ہمارے سامنے تھا ۔۔۔ لیکن ہمیں تو  اسے  جیل کی دیواروں تک لانے والی  اس مزاحمتی تحریک کی اصل بنیاد سمجھنا تھی  ۔۔۔ تو ہم نے  سوال داغا کہ   اصل قضیہ تھا کیا ؟ 
اسکی آنکھوں میں جنبش پیدا  ہوئی  کچھ سوچتے ہوئے  اس نے کہنا شروع کیا " ہالانی میں  ایک تاریخی مقام ہے ۔۔۔مقام شہیدن جی پٹی ۔۔۔۔۔ 1783 میں  کلہوڑوں  اور ٹالپرز  میں فائنل جنگ ہوئی تھی ۔۔ جس کے بعد  کہلوڑوں کی حکومت ختم ہوئی تھی  اور   سندھ میں ٹالپرز کی  حکمرانی شروع ہوئی تھی ۔۔۔  وہاں شہیدوں  کی  قبریں  ہیں انفرادی بھی اور اجتماعی بھی ۔۔۔ سی ایم سندھ کا ایک کو آرڈی  نیٹر  تھا ابرار شاہ  اس  نے  شہیدوں کے اس قبرستان کو اپنی ملکیت سمجھ لیا تھا ۔  اور اس نے وہ قبرستان اپنے دوست کو بیچ دیا  تھا ۔  اس پہ ہالانی شہری اتحاد نے  بڑی مزاحمتی تحریک چلائی اور   ہم نے   قلم کار کی حیثیت سے انکا ساتھ دیا ۔۔۔ہم نے سول سوسائٹی کی طرف سے  کیس کیا ۔۔جو 2005 میں۔۔۔ اس یقین دہانی پہ کہ قبرستان پہ قبضہ  نہیں  کرینگے ۔۔۔ختم ہوا ۔۔۔۔۔ اسکے بعد سول کورٹ   کنڈیارو نے 2013 میں دو آرڈر جاری کئے  کہ یہ قبرستان کی زمین ہے  اور قبضہ غیر قانونی ہے ۔ بیچنا اور خریدنا دونوں غیر قانونی ہے ۔  عدالت نے  ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کو آرڈر دیا کہ   اس کو ڈمولش کرو ۔۔۔۔سیاسی اثر و رسوخ   کی وجہ سے   یہ ڈمولش نہیں ہوا ۔ جس پہ ہالانی شہری اتحاد نے ایک کمپین چلائی اور  ہم نے  انکو پرو موٹ  کیا ۔ اور مسلسل  اس پہ لکھتے آ رہے تھے ۔ انہوں نے ڈیل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے ۔ "
اچھا  تو سنا ہے پیسے کے پجاریوں نے آپ کو خریدنے کی کوشش کی ۔۔۔۔ کیا یہ سچ ہے ؟
"ابرار شاہ   خود بھی میرے آفس آیا تھا ۔۔ اس نے مجھے  ایک بہت  بڑا اماونٹ   دس  سے پندہ لاکھ روپے مجھے آفر کیا تھا  کہ آپ اس اشو کو چھوڑ  دیں ، میں نے جواب دیا کہ  یہ کام ہم نہیں  کر سکتے ۔۔پیسے ہمیں بھی اچھے لگتے ہیں   مگر شہیدوں کی قبریں ہم بیچ نہیں سکتے ۔ میں تو قومی کارکن رہا ہوں ۔۔ اور بنیادی انسانی حقوق کیلئے  میں بہت کام کیا ہے  ہم نے ۔ یہ تو میرے ضمیر پہ بوجھ   ہوتا کہ  ہم  قبریں بیچتے پھریں ۔۔۔۔اس کے بعد انہوں  نے یہ کیس کیا ۔۔ کہ یہ ساری جدو جد  بھتے کیلئے ہے ۔ "
ہمارے سامنے   بیٹھے شخص میں پہاڑ جتنا حوصلہ تھا ۔۔۔ ہم نے  پوچھا کہ کیا کبھی  قید کی کوٹھڑی  میں آنے اور  جیل میں  مشقت جھیلنے پر  کبھی پچھتاوا ہوا ؟
۔ ہم تو بڑا  اعزاز سمجھتے ہیں اسکو ۔۔۔ ہم تو اعزاز سمجھتے ہیں کہ حق و سچ کیلئے ہم اندر ہیں ۔۔۔۔۔اور یہ گورنمنٹ اور عدلیہ کیلئے بڑی  پریشانی کی بات ہونی چاہئیے ، شرمندگی  کی بات ہونی چایئے ۔ کہ صحافی جو  حق و سچ بولتے ہیں ۔ جو انصاف کیلئے   لڑرہے ہیں ۔ یہ تو ہم نے جو کیس لڑا ہے یہ ان لوگوں کے خلاف لڑا ہے  جنہوں نے توہین عدالت کی ہے ۔ ہم  تو عدالت کے ورکر  کے طور پر ۔۔۔ سپاہی  کے طور پر  لڑے ہیں ۔۔۔ "
وڈیرہ  شاہی   کلچر اور سیاسی پنڈتوں کے آگے دیوار بنے اس مزاحمتی صحافی  کا جواب سن کر ہمیں اپنا سوال بودا نظر آیا ۔۔۔۔ اپنی جھینپ مٹانے کیلئے ہم نے پوچھا کہ  ہمیں کیسی صحافت کرنی چاہیے ؟
"ہمیں  چاہہئیے  کہ۔۔۔۔۔ ڈگنٹی والی صحافت ہونی چاہئے ۔۔ عزت والی صحافت ہونی چاہئے ۔ ہمیں  اپنے ساتھیوں   اور عوام اور دوستوں کیلئے مزاحمت  کرنی چاہئے ۔ قلم کار کا جو حقیقی کردار ہے  وہ استعمال ہونا  چاہئیے ۔۔"
ہم سمجھتے تھے  کہ بڑے صحافی شاید صرف بڑے شہروں میں ہوتے ہیں ۔۔۔۔ اور مزاحمتی صحافت بھی شاید  صرٖ ف  اسلام آباد ، لاہوراور کراچی  کے بڑے شہروں سے  پروان چڑھتی ہے ۔۔۔ لیکن سینٹرل جیل سکھر   میں قید  اخلاق حسین جوکھیو   جیسے نڈر صحافی سے مل کر  اندازہ ہوا ۔کہ ۔۔ پسے ہوئے  طبقوں کے درمیان رہ کر ۔۔  سیاسی پنڈتوں    کے ھاتھوں کچلی ہوئی روحوں  کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام تو چھوٹے چھوٹے  پس ماندہ علاقوں  سے شروع ہوتا ہے ۔۔ اور اخلاق  حسین    ہمیں ایسے   صحافیوں کی پہلی صف میں نظر آیا ۔ ہماری ملاقات کا  وقت اب ختم ہونے کو تھا ۔۔ہم نے  ان کے لئے لائے  پھل فروٹ  انہیں پیش کیے ۔۔۔الوداعی   مصافحہ  کیا  اور بغل گیر ہوتے ہوئے بہت جلد    آذادی اور  رہائی کا دلاسہ دیا ۔۔۔۔ لیکن ہمیں ایسا لگا کہ یہ دلاسہ ہم  اخلاق حسین کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو دے رہے تھے ۔۔۔۔ وہ تو ہمارے جیسے   سینکڑوں  لوگوں  کا  حوصلہ  تھا ۔۔۔۔

Sunday 22 January 2017

قیدی نمبر 77


وہ    جنوری  کی یخ بستہ   ہواوں کی ایک ایسی ہی صبح تھی ،  نہ میں کمبل  کو چھوڑ پا رہا تھا اور  نہ کمبل مجھے  ۔۔۔کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی ، ۔۔۔۔دوسری طرف سے کہنے والے نے کہا کہ معروف صحافی و ایڈیٹر  اخلاق احمد جو کھیو  کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے  سات سال قید کی سزا سنا کر سینٹرل جیل سکھر بھیج دیا ہے ،  یہ سننا تھا کہ  ذہن ماوف ہونے لگا ۔۔۔کہ ایک نڈر اور بہادر صحافی کو ، جو  سندھ کے جاگیردارانی اور وڈیرہ شاہی  میں جکڑے معاشرے  میں  حق و سچ کی آواز تھا ۔۔۔۔۔، عدالت ایک جھوٹے کیس میں  کیسے سزا سنا سکتی ہے ۔۔۔۔۔ لیکن  یہ انہونی  اب ہو چکی تھی ۔  سندھ کے  ضلع نو شہرہ فیروز   سے ھفتہ وار اخبار   " ساھتی آواز "  کے ایڈیٹر  اور کئی صحافیو ں کے استاد  اخلاق احمد  اب سینٹرل جیل سکھر میں قیدی نمبر 77 بن چکا تھا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ بلند اخلاق کا مالک    صحافی اخلاق احمد کوئی معمولی صحافی نہیں ۔  وہ تعمیر سندھ  جیسے معتبر    سندھی روزنامے کا ایڈیٹر رہا ہے ۔وہ سندھ کی  کرپٹ  اور اپوزیشن  سے عاری سیاست میں  مزاحمتی صحافت کا  ایسا علمبردار ہے جو ہمیشہ صف اول میں نظر آتا ہے ۔۔۔سیاسی چالبازیاں نہ  پہلے کبھی اس کے قلم کو  چھین سکیں ۔  اور نہ ہی جیل کی اونچی دیواریں اس سے پہلے کبھی اسے سچ لکھنے سے روک سکی ہیں ، وہ اس سے پہلے بھی سچ لکھنے کی پاداش میں  دو سال جیل کاٹ چکا ہے ۔۔یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے پرچے کا نام  " ساھتی آواز"  یعنی مدد گار آواز  رکھا ۔۔۔۔ وہ ایک سر پھرا لکھاری ہے ۔۔ جو اپنے اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کرتا ۔۔۔۔۔  یہی وجہ ہے کہ جب  پیسوں کے پجاریوں نے اسے  قبرستان پر بنائے گئے پلازہ  میں  دو دکانیں اور 10 لاکھ     روپے دینے کی کوشش  کی تو   قلم کے مسافر نے اسے    اپنے پاوں کی ٹھوکروں پہ  رکھا ۔۔۔۔ جب دولت کے پجاریوں کا ہر حربہ ناکام رہا تو اس کیلئے    انسداد دہشت گردی   کے قانون  کا نیا کا پھندا تیار کیا گیا ۔
۔  مجھے یاد ہے  وہ  مقامی   قبضہ گروپوں ، سیاسی چوہدریوں کے خلاف    انصاف اور سچ کی ایک توانا آواز تھا ۔۔۔۔  جب  نوشہرہ فیروز کی   یوسی  ہالانی  کے سابق  کونسلر  نے   سندھ کی تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے  ، محراب پور  میں  میروں  اور کلہوڑو  کی لڑائی میں مارے جانے والوں  کے تاریخی قبرستان پر بلڈر مافیا کے قبضے  کے خلاف    نہ صرف بھرپور آواز اٹھائی  بلکہ  اپنے قلم سے    قبضہ  گیروں کے خلاف   مزاحمت کی علامت بن گیا ۔۔۔اخلاق احمد  کے قلم کی  سیاہی  نے قبضہ مافیا  اور  بلڈرز کے   کروڑوں روپے کمانے کے منصوبوں پر کالک مل دی ۔۔۔۔ ویسے  گذرشتہ آٹھ سال  سے  سندھ   کی حکومت   نے ٹھٹہ  کے مکلی  اور  کراچی کے چوکنڈی قبرستان کا جو حشر کیا ہے   وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔۔ تاریخی قبروں اور سندھ کےثقافتی  ورثے کی اینٹیں بھی لوگ نکال نکال کر لے گئے ۔۔۔ اب یہ تاریخی قبرستان  صرف کھنڈرات نظر آتے ہیں ۔۔۔۔ایسے  جمہوری دور میں جب لاکھوں سے کروڑوں بنانے کا  عمل ہی سکہ رائج الوقت ہو  وہاں اخلاق جوکھیو    جیسے قلم کار محراب پور میں واقع تاریخی قبرستان کو بھلا کیسے بچا سکتے تھے ۔ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔۔  قبضہ مافیا حرکت میں آئی ۔ بلڈر مافیا  کے چمکتے نوٹوں نے اپنی کرامت دکھائی ۔۔۔۔پولیس کے  مقامی تھانیدار  کو ساتھ  ملایا ۔۔۔۔ انسداد دہشت گردی کے قانون کی آڑ لی ۔۔۔ اور بے باک آواز کا گلا گھونٹنے کا انتظام  کر لیا گیا  ۔۔ صحافی اخلاق احمد  اور انکے ساتھیوں  کے خلاف  پولیس اسٹیشن  ہالانی میں  5 مئی  2015 کو   حق  و سچ کی اس آواز کا گلا   ہمیشہ کیلئے گھونٹنے  کیلئے     انسداد  دہشت گردی ایکٹ  386۔ 2/506۔  500۔ 34 پی پی سی   اور 7 اے ٹی اے کے تحت   ایف آئی آر نمبر  68/2015   کاٹ دی گئی ۔ اور  کیس  انسداد  دہشت گردی  کی نوشہرہ فیروز کی عدالت  بھیج دیا گیا ۔   پیشیوں  پہ  پیشیاں چلتی رہیں ۔  تا  آنکہ 9 جنوری   2017کو  انساف کا ڈندا حرکت میں آیا  اور سچ لکھنے کی پاداش میں  مزاحمت  کی علامت کو پس دیوار زنداں پھینک  دیا گیا ۔  کہ شاید یہ آواز اب ھمیشہ  کیلئے خاموش کرا دی گئی ہے ۔  لیکن انہیں خبر نہیں  کہ اخلاق احمد جیسے  صحافی  تو اس  مٹی کا وہ نمک ہیں  جس سے سچائی کے ذائقے  کو دوام حاصل ہے ۔ یہ اپنے قلم سے  وہ سورج تراشتے ہیں  جسکی کرنیں گھٹن ذدہ  معاشرے میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوتی ہیں روشنی اور اجالے کو کبھی قید   نہیں کیا جا سکتا ۔۔علم اور آگاہی تو پھیلتی ہے ۔۔
 رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے ۔


نوٹوں کے ترازو میں ہر چیز کو تولنے والوں کو شاید خبر نہیں کہ  قید و بند کی صعوبتیں  قلم قبیلے کے مسافروں  کی راہ میں نہ تو  روڑے اٹکاتی ہیں اور نہ ہی  منزل کو انکی نظروں سے اوجھل کرتی ہیں ،، انہیں نہیں معلوم  کہ قلم قبیلے  کے مسافر   کی سوچ کو  نہ تو زنداں کی دیواروں میں قید کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی  معاشرے کی  سماجی ناہمواریوں  کے خلاف  پنپنے  والی  سوچوں پر پہرے بٹھائے جا سکتے ہیں ۔ اور شاہ لطیف  کی دھرتی میں  ابھی ایسے سپوت موجود ہیں  جو معاشرتی اور سماجی ناسوروں کے خلاف اپنی  توانا  آوازوں کو مہمیز دیتے رہینگے ۔۔۔۔  اخلاق احمد  کی یہ توانا آواز   سینٹرل جیل سکھر  کی چاردیواری سے  باہر نکل چکی ہے ، کہ   کمیٹی  تو پروٹیکٹ  جرنلسٹ   اور  صحافتی  مزاحمتی  تنظیم رپورٹڑز ودآوٹ  بارڈر ز نے  اخلاق احمد  کی سزا کو حق و انصاف کا  عدالتی قتل قرار دیتے ہوئے اسے آذادی  صحافت  کے خلاف  عمل   ٹہرایا ہے  ۔  سینٹرل جیل سکھر   کے درو دیوار  گواہ ہیں  کہ  اخلاق احمد نے   حوصلہ  ہارا نہیں ، بلکہ  زنداں نے اسکے حوصلوں  کو جلا بخشی ہے اور  اسے مہمیز دی ہے ۔ ملاقاتی بتاتے ہیں  کہ اخلاق جوکھیو   پس دیوار  زنداں بھی یہ شعر گنگناتے رہتے ہیں ۔
 میرا قلم نہیں  کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کرکے ناز کرے
میرا قلم نہیں  کاسہ  کسی گدا گر کا
جو غاصبوں  کو قصیدوں سے سرفراز کرے
میرا قلم نہیں   اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
میرا قلم نہیں اس دزدنیم شب کا  رفیق
جو  بے چراغ گھروں پہ کمند اچھالتا ہے
میرا قلم نہیں  تسبیح اس  مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
میرا قلم نہیں  میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دہرا نقاب رکھتا ہے
میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لئے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کی ، زباں  تیر کی ہے
میں کٹ گروں یا سلامت رہوں،  یقین ہے مجھے
کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا   نصیبوں کی قسم
میرے قلم کا سفر  رائیگاں نہ جائے گا ۔