Sunday 29 January 2017

ضمیر کا قیدی


وہ  منگل کا  دن تھا ، فضا میں  جنوری کی سردی کی ٹھنڈک محسوس کی جا رہی تھی ۔۔۔ ایسے  میں  سردیوں کی ہلکی ہلکی دھوپ انتہائی دلکش  احساس دلا رہی تھی ، ہماری گاڑی  سکھر سینٹرل جیل کے قریب بنائی گئی حفاظتی دیوار اور اسکے ساتھ لگے  زگ زیگ بیریئرز  کو کراس کرتی ہوئی باوردی اہلکار کے اشارے پہ رکی ۔۔۔۔۔  ہم نے  گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور اہلکار سے کہا کہ قاضی  صاحب کے مہمان ہیں ۔  اہلکار نے سر کو ہلکی سی جنبش دی اور  بیریئر اٹھتے چلے گئے ۔۔۔۔۔۔  اور اسکے بعد   ہارن بجانے پر دوسرا حفاظتی دوازہ بھی کھل گیا اور ہم نے  سیدھا  سینٹرل جیل  میں وحشت کی علامت  جسے  عموما "ماڑی" کہا جاتا ہے   کے  عین سامنے گاڑی پارک  کی  ۔۔۔۔۔۔ اور اتر کر  جیل کے اندرونی دروازے کی طرف  بڑھے ۔ ۔۔۔۔اندر قدم رکھتے ہی ایک اہلکار نے  ہمارے سیدھے ھاتھ پر جیل کی مہر لگائی  اور ہم سیدھا   سپرٹینڈنٹ جیل کے کمرے  کی طرف بڑھے ۔  سپریٹینڈنٹ جیل کو    ڈی آئی جی جیل خانہ جات نے پہلے ہی ہماری آمد سے  مطلع کردیا تھا ۔۔۔۔ اور ہمارے  مطلوبہ شخص  کو بھی بند وارڈ سے نکال کر  سپریٹنڈنٹ   کے کمرے میں پہنچا دیا گیا  تھا ۔
سپریٹنڈنٹ کی  ٹیبل  کے  سائڈ والی کرسی پر   بیٹھے شخص   کے بالوں میں دکھائی دیتی ہلکی سی سفیدی بتا رہی تھی کہ کارزار حیات  کے ریگستان   میں  مسافر  نے اک عمر بتائی ہے ۔۔۔۔۔  چہرے پر ہلکی سی بڑھی ہوئی شیو   اس بات کا پتہ دے رہی تھی   کہ کئی دن سے  اسے آئینے میں اپنا  آپ دیکھنے کا موقع نہیں ملا ۔۔۔۔۔۔ قمیض شلوار میں ملبوس  وہ شخص   چالیس   کے پیٹے میں لگ رہا تھا ۔ ہم نے اس  ناتواں  مگر بلند  حوصلہ شخص کو   با وقار انداز میں   بیٹھے پا یا ۔ ۔۔۔۔  الجھے  ہوئے لمبے بال  اس بات کا پتہ دے رہے تھے کہ  کوئی سرپھرا  ہے ۔۔۔ جسے   بالوں کی تراش خراش سے ذیادہ اپنے مقصد  اور پیشے سے لگن ہے ۔   ہم اس سے بغلگیر ہوئے    تو اپنے اپ کو اسکی محبتوں کا  اسیر پایا ۔۔۔۔دعا  سلام کے بعد پوچھا کہ   کیسا رہا   نیا تجربہ   سینٹرل جیل کا ۔۔۔۔
کہنے لگا  "  دارو  رسن   میرے  لئے کوئی نیا تجربہ نہیں  ان دیواروں سے میں  پہلے ہی سے واقف ہوں ،   حیات جاوداں کے کئی ماہ و سال   میں  پہلے بھی  ناکردہ گناہوں کی پاداش میں  یہاں بتا چکا ہوں"
اپنے بڑے بڑے بالوں  کو پونی کی شکل میں  پیچھے کی طرف  باندھے ہوئے اور آنکھوں پر   بڑے  شیشوں کی عینک لگائے اس  شخص  کی   باتوں میں حوصلہ بھی تھا اور ہمت بھی ۔۔۔ اسکی آواز بہت توانا تھی ۔۔ایک مزاحمتی صحافی   مجسم ہمارے سامنے تھا ۔۔۔ لیکن ہمیں تو  اسے  جیل کی دیواروں تک لانے والی  اس مزاحمتی تحریک کی اصل بنیاد سمجھنا تھی  ۔۔۔ تو ہم نے  سوال داغا کہ   اصل قضیہ تھا کیا ؟ 
اسکی آنکھوں میں جنبش پیدا  ہوئی  کچھ سوچتے ہوئے  اس نے کہنا شروع کیا " ہالانی میں  ایک تاریخی مقام ہے ۔۔۔مقام شہیدن جی پٹی ۔۔۔۔۔ 1783 میں  کلہوڑوں  اور ٹالپرز  میں فائنل جنگ ہوئی تھی ۔۔ جس کے بعد  کہلوڑوں کی حکومت ختم ہوئی تھی  اور   سندھ میں ٹالپرز کی  حکمرانی شروع ہوئی تھی ۔۔۔  وہاں شہیدوں  کی  قبریں  ہیں انفرادی بھی اور اجتماعی بھی ۔۔۔ سی ایم سندھ کا ایک کو آرڈی  نیٹر  تھا ابرار شاہ  اس  نے  شہیدوں کے اس قبرستان کو اپنی ملکیت سمجھ لیا تھا ۔  اور اس نے وہ قبرستان اپنے دوست کو بیچ دیا  تھا ۔  اس پہ ہالانی شہری اتحاد نے  بڑی مزاحمتی تحریک چلائی اور   ہم نے   قلم کار کی حیثیت سے انکا ساتھ دیا ۔۔۔ہم نے سول سوسائٹی کی طرف سے  کیس کیا ۔۔جو 2005 میں۔۔۔ اس یقین دہانی پہ کہ قبرستان پہ قبضہ  نہیں  کرینگے ۔۔۔ختم ہوا ۔۔۔۔۔ اسکے بعد سول کورٹ   کنڈیارو نے 2013 میں دو آرڈر جاری کئے  کہ یہ قبرستان کی زمین ہے  اور قبضہ غیر قانونی ہے ۔ بیچنا اور خریدنا دونوں غیر قانونی ہے ۔  عدالت نے  ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کو آرڈر دیا کہ   اس کو ڈمولش کرو ۔۔۔۔سیاسی اثر و رسوخ   کی وجہ سے   یہ ڈمولش نہیں ہوا ۔ جس پہ ہالانی شہری اتحاد نے ایک کمپین چلائی اور  ہم نے  انکو پرو موٹ  کیا ۔ اور مسلسل  اس پہ لکھتے آ رہے تھے ۔ انہوں نے ڈیل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے ۔ "
اچھا  تو سنا ہے پیسے کے پجاریوں نے آپ کو خریدنے کی کوشش کی ۔۔۔۔ کیا یہ سچ ہے ؟
"ابرار شاہ   خود بھی میرے آفس آیا تھا ۔۔ اس نے مجھے  ایک بہت  بڑا اماونٹ   دس  سے پندہ لاکھ روپے مجھے آفر کیا تھا  کہ آپ اس اشو کو چھوڑ  دیں ، میں نے جواب دیا کہ  یہ کام ہم نہیں  کر سکتے ۔۔پیسے ہمیں بھی اچھے لگتے ہیں   مگر شہیدوں کی قبریں ہم بیچ نہیں سکتے ۔ میں تو قومی کارکن رہا ہوں ۔۔ اور بنیادی انسانی حقوق کیلئے  میں بہت کام کیا ہے  ہم نے ۔ یہ تو میرے ضمیر پہ بوجھ   ہوتا کہ  ہم  قبریں بیچتے پھریں ۔۔۔۔اس کے بعد انہوں  نے یہ کیس کیا ۔۔ کہ یہ ساری جدو جد  بھتے کیلئے ہے ۔ "
ہمارے سامنے   بیٹھے شخص میں پہاڑ جتنا حوصلہ تھا ۔۔۔ ہم نے  پوچھا کہ کیا کبھی  قید کی کوٹھڑی  میں آنے اور  جیل میں  مشقت جھیلنے پر  کبھی پچھتاوا ہوا ؟
۔ ہم تو بڑا  اعزاز سمجھتے ہیں اسکو ۔۔۔ ہم تو اعزاز سمجھتے ہیں کہ حق و سچ کیلئے ہم اندر ہیں ۔۔۔۔۔اور یہ گورنمنٹ اور عدلیہ کیلئے بڑی  پریشانی کی بات ہونی چاہئیے ، شرمندگی  کی بات ہونی چایئے ۔ کہ صحافی جو  حق و سچ بولتے ہیں ۔ جو انصاف کیلئے   لڑرہے ہیں ۔ یہ تو ہم نے جو کیس لڑا ہے یہ ان لوگوں کے خلاف لڑا ہے  جنہوں نے توہین عدالت کی ہے ۔ ہم  تو عدالت کے ورکر  کے طور پر ۔۔۔ سپاہی  کے طور پر  لڑے ہیں ۔۔۔ "
وڈیرہ  شاہی   کلچر اور سیاسی پنڈتوں کے آگے دیوار بنے اس مزاحمتی صحافی  کا جواب سن کر ہمیں اپنا سوال بودا نظر آیا ۔۔۔۔ اپنی جھینپ مٹانے کیلئے ہم نے پوچھا کہ  ہمیں کیسی صحافت کرنی چاہیے ؟
"ہمیں  چاہہئیے  کہ۔۔۔۔۔ ڈگنٹی والی صحافت ہونی چاہئے ۔۔ عزت والی صحافت ہونی چاہئے ۔ ہمیں  اپنے ساتھیوں   اور عوام اور دوستوں کیلئے مزاحمت  کرنی چاہئے ۔ قلم کار کا جو حقیقی کردار ہے  وہ استعمال ہونا  چاہئیے ۔۔"
ہم سمجھتے تھے  کہ بڑے صحافی شاید صرف بڑے شہروں میں ہوتے ہیں ۔۔۔۔ اور مزاحمتی صحافت بھی شاید  صرٖ ف  اسلام آباد ، لاہوراور کراچی  کے بڑے شہروں سے  پروان چڑھتی ہے ۔۔۔ لیکن سینٹرل جیل سکھر   میں قید  اخلاق حسین جوکھیو   جیسے نڈر صحافی سے مل کر  اندازہ ہوا ۔کہ ۔۔ پسے ہوئے  طبقوں کے درمیان رہ کر ۔۔  سیاسی پنڈتوں    کے ھاتھوں کچلی ہوئی روحوں  کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام تو چھوٹے چھوٹے  پس ماندہ علاقوں  سے شروع ہوتا ہے ۔۔ اور اخلاق  حسین    ہمیں ایسے   صحافیوں کی پہلی صف میں نظر آیا ۔ ہماری ملاقات کا  وقت اب ختم ہونے کو تھا ۔۔ہم نے  ان کے لئے لائے  پھل فروٹ  انہیں پیش کیے ۔۔۔الوداعی   مصافحہ  کیا  اور بغل گیر ہوتے ہوئے بہت جلد    آذادی اور  رہائی کا دلاسہ دیا ۔۔۔۔ لیکن ہمیں ایسا لگا کہ یہ دلاسہ ہم  اخلاق حسین کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو دے رہے تھے ۔۔۔۔ وہ تو ہمارے جیسے   سینکڑوں  لوگوں  کا  حوصلہ  تھا ۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment