Wednesday 2 September 2015

تاریک راہوں کے مسافر

ہاں آج میں شرمندہ ہوں اپنے پیشے سے ، صحافت کا متبرک پیشہ ، معاشرے میں ابلاغ کا  پیشہ ،  سماج میں ڈائیلاگ  اور مکاملے کو زندہ  رکھنے کا پیشہ ۔۔۔لیکن آج  میں اپنے اس پیشے سے شرمندہ ہوں کہ جسکے کارپوریٹ کلچر نے   مجھے یہ سب کچھ نہپں کرنے دیا ۔  میرے ٹاک شوز میں    معاشرے میں پنپنے والی  بیماریوں پر گفتگو کیلئے کوئی جگہ نہیں ۔  میرے شہر میں اگر ہنستے بستے  گھر  تباہ ہو رہے ہیں تو  اس پر بولنے کیلئے میرے نیوز بلیٹن میں کوئی جگہ نہیں ۔  میرے شہر کی عدالتوں میں اگر  دس ھزار صرف خلع کے مقدمے  درج ہیں تو یہ  میرے میڈیا کا مسئلہ نہیں ۔ میرے شہر  میں طلاقوں کی شرح اگر ایک ماہ  میں ھزاروں تک پہنچ جائے ، تو میرے میڈیا کا کارپوریٹ کلچر  اسے کوئی اشو نہیں مانتا ۔۔ میرے کارپوریٹ میڈیا کیلئے سرخ  پٹی  صرف سیاسی بیان بازی  رہ گئی ہے ۔میرے مارننگ شوزمیں وہ 
ساری ناکام خواتین جو اپنے  گھروندے نہیں  بچا سکیں ، معاشرے کو سدھارنے کا درس دیتی ہیں 
کلا س روم میں ، اسکول کے یونیفارم میں ، ہاتھوں میں قلم لئے اور کندھے پہ بستہ لٹکانے  والے میرے شہر کے معصوم بچے اور بچیاں  اگر  اسی کلاس روم میں  خون میں لت پت ہیں ۔ تو کلیجے پھاڑ دینے والے اس واقعے پر   میرا میڈیا صرف   یہ خبر چلاتا ہے کہ (  پٹیل پاڑہ میں ایک لڑکا اور لڑکی ہلاک  ہو گئے ۔۔۔) ۔ہاں آج میں اقرار کرتا ہوں کہ  میں اپنے پیشے پہ نادم ہوں کہ میں اپنے معاشرے میں ڈائیلاگ اور  مکالمے  کا کلچر پروان نہیں چڑھا سکا ۔۔ میرے   گھروں کے مسائل میری گفتگو کا موضوع نہ بن سکے ۔ میرے  مشترکہ خاندانی سسٹم کی ٹوٹ پھوٹ  میرے مارننگ شوز کا موضوع نہ بن سکی ۔
کہنے دیجئے  کہ میری مشرقی تہذیب کی سب سے  مضبوط بنیاد آج لرزہ براندام ہونے کو ہے ۔ ہمارا مشترکہ خاندانی نظام   جو ہماری مضبوطی کی دلیل تھی ، آج ریزہ ریزہ ہو چکا ہے ۔ وہ مشترکہ خاندانی نظام جس میں میرے  پھول جیسے بچوں کو  دادا  ، دادی  اور نانا  ۔ نانی کی صحبت حاصل تھی ۔  جو کلیوں جیسے حساس دلوں کو  پریوں کی کہانی بھی سناتی تھی ، اور پریوں  تک پہنچنے کا حوصلہ بھی  پیدا کرتی تھی ۔  لیکن وہ کہانیاں ختم  ہونے سے   نہ تو نوروز۔۔   فاطمہ جیسی پریوں تک پہنچ سکا نہ اس میں انہیں  پانے کیلئے    حوصلہ پیدا ہو سکا ۔
مشترکہ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ  نے  ہر پنچھی کوآذاد کردیا ہے ، اور ہر ایک نے  اپنا  ا ٓذاد گھونسلہ بنا لیا ہے ۔  ماں  کام پہ  ، باپ آفس میں ، میرے ننھے پھول    آیاوں  کے رحم و کرم پہ ہیں ۔    ان پھولوں کو وہ محبت  جو اپنے گھر سے ملنی تھی ، نانا  نانی اور دادا دادی  سے ملنی تھی ، نہ مل پائی ،  ۔۔ ماں اور باپ کی آغوش  تو میسر ہی نہ ٓ آ  سکی   ۔ اور اس محبت کی تلاش میں  یہ پھول اسکول تک پہنچ گئے ،  اس محبت کو  جو گھر کے آنگن سے رخصت ہو گئی  ، ۔۔۔ یہ   پھول اس محبت  کو کہانیوں کی کتابوں میں  ڈھونڈنے لگے ۔۔۔  نفرت ، حسد کینہ بغض  اور کاروباری رقابتوں سے پاک   ان معصوم خالی دلوں میں  محبت بھرنے کیلئے    جب گھر کے آنگن ، مکان کی چور دیواری ناکام ہو گئی  تو اسے  اسکول کی چاردیواری میں ڈھونڈنے لگے ۔ یہ  محبت ان  معصوموں کو   نوروز اور فاطمہ کی شکل میں ملی ۔    کہنے دیجئے کہ    نوروز اور فاطمہ کے دل    ، نفرت ، بغض ، حسد کینہ اور اس جیسی تمام  برائیوں سے پاک  تھے  وہ تو سرتا پا محبت تھے ۔ اپنے آخری خطوط میں بھی  مما پاپا کو   کچھ نہیں کہا ، کوئی الزام نہیں دھرا ، کوئی غصہ نہیں نکالا ، بلکہ محبت ہی  جتائی ،  محبت ہی مانگی ، محبت ہی کی التجا کی  اور  معافی اور درگزر کی درخواست کی ۔  
کہنے ، اور سننے کیلئے   جب گھر کی چار  دیواری     ناکافی محسوس ہوئی تو  ان معصوموں نے   خطوط کا  راستہ اپنا یا ، قلم  اور کاغذ  کا راستہ ،  اپنی بات پہنچانے کا   راستہ   مگر  شاید  انہیں معلوم تھا کہ      گفتگو اور مکالمے کے راستے   میں بہت لمبے فاصلے در آئے ہیں   جنہیں وہ پاٹ نہیں سکتے ۔  انکے دل کی آواز وہاں اس گھر کی چار دیواری ، اور  اس آنگن تک نہیں پہنچ سکتی  جہاں وہ پہنچانا  چاہتے ہیں ۔  انہیں معلوم تھا  کہ  مکالمے اور   ڈائیلاگ کے راستے بند ہو چکے ہیں ۔ شاید  وہ دونوں   مکالمے کے زریعے اپنی بات پہنچانے کے سارے  راستے استعمال کر چکے تھے ۔ اور  گفتگو اور محبت کے سارے راستے بند دیکھ کر  انہوں نے  کوئی اور فیصلہ کیا ۔  
کہنے دیجئے کہ محبت  سب سے بڑا  سہارا ہوتی ہے ،   محبت  ٹوٹے دلوں کو جوڑتی ہے ،  محبت  گرے ہووں کو کھڑا ہونے کا حوصلہ دیتی ہے ۔   گر کر سنبھلنے کا موقع دیتی ہے ۔  لیکن اگر محبت ختم ہو جائے  تو    ہر طرف  اندھریرا  چھا جاتا ہے ۔ زندگی کے سارے راستے تاریکی میں گم ہو جاتے ہیں ۔،  کہنے ، سننے ، ڈائیلاگ اور مکالمے کے سارے راستے   جب بند ہو جائیں  تو  کہنے اور سننے کے سارے حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں ، آس  اور امید کی ساری موہوم آرزوئیں دم توڑ دیتی ہیں ۔ یقین کے  جگنو  پر لگا کر اڑ جاتے ہیں ، مایوسیاں  ڈیرے ڈال دیتی ہیں ، تب ۔ محبت کی تلاش میں سر گرداں  نوروز اور فاطمہ تاریک راہوں  کے مسافر بن جاتے ہیں۔

مکالمہ ختم ہونے سے آ ج  میری قوم کا ہر فرد شاید انہی تارک راہوں کا مسافر بن چکا ہے

No comments:

Post a Comment